جماعت اسلامی کی بغل بچہ دہشت
پھیلانے پر معمور طالب علموں کے روپ میں دہشت گرد کی طلبا تنظیم جو شہروں
میں دہشت پھیلانے میں کمال درجے کی مہارت رکھتے ہیں ان کے مظالم اور ان کے
سیاہ کارنامے جماعت اسلامی سے بہت سے معاملات پر اتفاق کرنے والی جماعت
یعنی تحریک انصاف کے لیے کس قدر ناقابل برداشت ہوگئے وہ آپ کے سامنے پیش
خدمت ہے۔ اب بھی کسی کو لگتا ہے کہ پاکستان بھر میں کوئی بھی طلبہ جماعت
ایسی ہے جو جمعیت سے زیادہ اسلحہ بردار اور اساتذہ کرام کی عزت اتارنے میں
ماہر ہے تو ثبوت پیش کرے انشا اللہ حقائق کی روشنی میں سچ اور جھوٹ ثابت
ہوجائے گا۔
زیر نظر تحریر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پروفیسر افتخار احمد
بلوچ کی رہائش گاہ پر کی :
“تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وفد کے
ہمراہ جمعیت کے قاتلانہ حملے سے زخمی ہونے والے پروفیسر افتخار بلوچ کی
رہائشگاہ پنجاب یونیورسٹی میں عیادت کی۔ اس موقع پر عمران خان نے میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر افتخار بلوچ پر جمیعت کے قاتلانہ حملے کی
پرزور مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے
مزید کہا کہ جو معاشرہ استاد کی عزت و احترام نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں
کرسکتا۔ اسلامی جمعیت طلبا کا پروفیسر افتخار بلوچ پر تشدد حکمرانوں کے لیے
لمحہ فکریہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت کے دہشت گردوں کو کھلے عام دندنانے کی سب سے بڑی ذمہ
داری وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر عائد
ہوتی ہے جن کی ناک تلے طلبہ کے روپ میں چند دہشت گردوں نے پنجاب یونیورسٹی
کو یرغمال بنا رکھا ہے اور جو کہ پوری دنیا میں پاکستان کے لئے ایک سیاہ
دھبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن
میں اسلامی جمعیت طلبہ ملوث ہے۔ اور ان کے خلاف تھانہ مسلم ٹاؤن مین ایف
آئی آر درج ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔“
یہ تحریر تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا پتہ درج زیل ہے۔
https://www.insaf.pk/News/tabid/60/articleType/ArticleView/articleId/3794/Imran-khan-visits-Professor-Iftikhar-Baloch-of-Punjab-University.aspx
اب تو ٹیرسٹ ونگ یعنی جمعیت کے سابق طلبہ لیڈر منور حسن کی سکھائی سدھائی
جمعیت ایسے ایسے کارنامے انجام دے رہی ہے کہ جس جماعت کے مخالفین تو ایک
طرف جماعت کے کسی حد تک حمایتی بھی اظہار مذمت اور اظہار نفرت کرنے پر
مجبور ہیں۔
اب بھی اگر کی آنکھیں نا کھلیں تو یہ بندہ کیا کر سکتا ہے دعا کے علاوہ۔ |