میڈیا بھی خاموش ہے

پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ جن میں دہشت گردی اور انرجی کا مسئلہ تو اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہے لیکن پاکستان جس تیزی سے درآمدات کی طرف بڑھ رہا ہے وہ بھی انتہائی تشویشناک صورت حال ہے ۔ پاکستان پہلے برآمدات زیادہ اور درآمدات کم کرتا تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ پاکستان میں درآمد اور برآمد برابر ہوگئی جبکہ آج حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے برآمدات تاریخ کے انتہائی کم درجے پر آگئے اور درآمد ات میں ہم آگے چلے جارہے ہیں۔حکومت نے اگر اپنی تر جیحات میں تبدیلی نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب ہم دنیا کے سامنے ہرچیز کے لیے مختاج ہوں گے۔پاکستان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ہم زرعت میں خود کفیل ہے ۔ پاکستان زرعی اجناس دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد کرتا ہے ۔ گندم ، چاول ، مکئی ، آلو،پیاز ،وغیرہ میں ہم خودکفیل ہے ۔ یہی ہم نے سکول کی کتابوں میں پڑھا تھا لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان جس کو زرعی ملک کہا جاتا تھا ۔ آلو، پیاز، دالیں اور گندم وغیرہ باہر ممالک سے مانگواتا ہے۔آج اس زرعی ملک میں ہم گندم ،آلواور پیاز کے لیے بھی دوسرے ممالک کے مختاج ہے ۔بعض اوقات پاکستان میں کچھ چیزوں کی ریٹ انتہائی کم سطح پر آجاتی ہے جس کی وجہ سے زمیندار کو اپنی اجناس یا پھل اور سبزی مارکیٹ میں لانے کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے زمیندار دوسرے سال میں اس سبزی یا اجناس کو نہیں اگاتا ۔ مارکیٹ میں طلب کی وجہ سے حکومت کو باہر سے برآمد کرنا پڑتا ہے پھر وہ انتہائی مہنگے داموں بیجا جاتا ہے ۔ گزشتہ سال آلو کی قیمت مارکیٹ میں سو روپے روپے تھی جب کہ آج آلومنڈی میں سوروپے پانچ کلو اور عام مارکیٹ میں تیس روپے کلو بکتا ہے ۔ اب خود اندازہ لگائے کہ زمیندار سے کتنی میں خریدی گئی ہوگی ۔اسی طرح گنے کی قیمتوں کا تعین بھی ہے ہمارے شوگر ملز مالکان زمیندار کو مختلف طر یقوں سے بلیک میل کر تا ہے ۔ زمیندار سے سستے داموں گنا خر یدا جاتا ہے جبکہ چینی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی نااہلی ہے اور ملک میں خریدو فروخت کا کوئی سسٹم موجود نہ ہو نا ہے۔ زمیندار کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ فصل نہ اگائیں۔ کیوں کہ جب اپنی فصل ہوگی تو عوام کوریلف ملے گی زمیندار کو فائدہ ہوگا۔ برآمدات بڑھیں گے۔ ملک ترقی کریں گا لیکن حکومت کے وزرا کو نقصان ہوگا ۔ وہ اشیاء دوسرے ممالک سے درآمد نہیں کرسکیں گے۔آج زمینداروں کوریلیف یا کوئی سبسڈی دینے کے بجائے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے زمیندار سڑ کوں پر ہے۔ حکومت نے اب جو ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے وہ بھی بہت کم ہے جبکہ اس پیکج میں بھی زیادہ تر اپنوں کو نوازا جارہاہے۔

حکو مت کو ملک میں زرعی پیداوار بڑ ھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے زمیندار کو حقیقی معنوں میں ریلیف ملے اور پیداوار زیادہ ہو نے کی صورت میں اجناس ، پھل اور سبزیاں دوسرے ممالک کو برآمد کیا جاسکے ۔ بھارت میں زمیندار کو بہت سی چیزوں میں ریلیف مل رہا ہے یعنی وہاں پر زمیندار کے لیے بجلی کی قیمت کم ہے ۔ نہری نظام بنایا گیا ہے ، پیج میں سبسڈی حاصل ہے۔ پیداوار بڑھنے کے لیے جد ید طریقے آپنائے جارہے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں زمیندار کے لیے بجلی اور پیج مہنگا ہے ۔ پیداوار بڑھنے اور اجناس میں پیدا ہونے والے بیماریوں کی روک تھام اور بچاؤ کا بھی کوئی سسٹم نہیں ہے ۔ بجائے یہ کہ ملک میں نہری نظام اور چھوٹے چھوٹے ٹیم ہر ضلع میں بنائیں جائے تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ بنایا جاسکے ۔ حکومت کی تر جیحات میں میٹر و بسیں اور میٹرو ٹرینے ہیں۔ ملک کی درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی نفی کرتی ہے جبکہ اس کاسمیٹک سسٹم کا پردہ بہت جلد اٹھنے والا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرح صوبائی حکومتیں بھی صرف اور صرف وہ کام کرتی ہے جس میں ان کو فائدہ ہو جس میں پیسہ زیادہ سے زیادہ بنایا جا سکیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی ابھی تک کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائیں ہے ۔ چھو ٹے چھوٹے ٹیم بنانے کا آغاز تو صوبائی حکومت نے کردیا ہے جن میں بعض ٹیم اپنی آخری مر احل میں ہے لیکن زرعی پیداوار بڑھنے اور زمیندار کو ریلیف دینے کے لیے کوئی خاص اقدامات عملی طور پر نہیں اٹھائیں گئے ہیں ۔ صوبے میں چھوٹے زمیندار اور بارانی علاقوں کے لیے صوبائی حکومت نے شمسی توانائی سے ٹیوب ویل چلانے کے لیے اقدامات تو کیے ہیں، بہت سی جگہوں پر حکومت کے تعاون سے کام بھی مکمل ہوچکا ہے لیکن اس میں مزید ریلیف دینے کی ضرورت ہے ۔اب صوبے میں بلدیاتی نمائندے موجود ہے ۔ان کو یہ ڈیوٹی بھی دینی چاہیے کہ جو بھی مسائل زمیندار کو درپیش ہے ان کو فوری طور پر حل کیا جائے ۔ ٹیوب ویل کے لیے شمسی سسٹم لگانے میں حائل روکاوٹوں کو دور کیا جائے اور اس میں زمیندار کو مزید ریلیف دیا جائے تاکہ چھوٹے زمیندار کو بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ ملک کوویسے بھی بجلی بحران کا سامنا ہے ۔ وفاقی حکومت کی تر جیحات اگر یہ نہیں ہے کم از کم تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت کواس مسئلے پر فوری اقدامات اور آواز اٹھانا چاہیے ۔زمینداروں کو شمسی سسٹم سے بجلی پیدا کرنے سے خرچ بھی کم ہو گا اور بجلی کی بچت بھی ہوگی۔دوسرا اہم کام گاؤں کی سطح پر زمینداروں کے لیے آگاہی مہم اور دور جدید میں اضافی فصل پیدا کرنے کے لیے ماہرین سے استفادہ کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں اب پرانی پیج ختم ہورہی ہے جبکہ باہر سے پیج کو مانگوایا جاتا ہے جو کسی بھی وقت روک سکتا ہے ۔ لہٰذاہمارے زرعی اداروں اور یونیورسٹی کو بھی اس مسئلے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ زمیندار کو آگاہی بھی حاصل ہو اور فصل بھی زیادہ پیدا ہو۔ اب تک ہمارے زرعی اداروں اور یونیورسٹیز نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے ملک کے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گیا ہو۔آج ملک بھر کے زمینداروں کا یہی گلہ ہے کہ حکومت ہماری طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ملک میں زرعی پیداوار کی کمی سے پاکستان مزیددلدل میں پھنس سکتا ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کو بنجر ہونےسے بچایا جائے۔زمیندار کا یہ بھی شگوہ ہے کہ اس اہم مسئلے پر میڈیا بھی خاموش ہے ۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226948 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More