کیا وزیرِ اعظم کا دورہِ امریکہ کامیاب رہا؟
(Prof Dr Shabbir Khursheed, Karachi)
وزیر اعظم میاں محمد
نوازشریف کے 22 ،اکتوبر 2015کے دورہِ امریکہ پر تجزیہ نگاروں کی مختلف آرا
کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔چند ایک کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کایہ دورہ بے
حد کامیاب رہا ہے جس میں انہوں نے اپنے متعینہ اہداف کسی حد تک حاصل کر لئے
ہیں۔مگر تجزیہ نگاروں میں خاصے ایسے ہیں جو وزیر اعظم کے اس دورہ امریکہ کو
ناکام دورے سے تعبیر کر رہے ہیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم
پاکستان نے سابقہ دوپیپلز پارٹی کے وزراء اعظم کے مقابلے میں
امریکیحکمرانوں کے سامنے خاصی برد باری کا ثبوت دیا ہے اور بغیر کسی
ہچکچاہٹ کے انہوں نے بارک اوباما تک اپنی بات پہنچا تو دی مگرماننا نا
مانناسامنے والے پر منحصر ہے۔
اس گفتگو میں میاں صاحب نے جی کھول کر مسٹربارک اوباما سے اپنے شکوے
شکائتیں کیں مگر نتیجہ صفر کی حد عبور نہ کر سکا۔اس کے بر عکس امریکی صدر
اوباما نے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات میں ۔پاکستان کی جانب سے اپنے ایٹمی
پروگرام پر کی جانے والی پیش رفت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات
پر زور دیا کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ترقی دینے کے عمل سے گریز کا
راستہ ا ختیار کرے۔کیونکہ اس کے نتیجے میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے ۔امریکی
انتظامیہ نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا کہ اس طرح علاقے میں خطرات اور عدم
استحکام کا آغاز ہوجائے گا۔ہندوستان سے پاکستان کے تنازعات کے پیشِ
نظرپاکستان کی جانب سے نئے نظام کی تیاری پر واشنگٹن کی طرف سے تحفظات کا
اظہار کیا جا ناکسی حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیئے تھا۔اس کے بر عکس ہمارے
بعض مبصرین کی رائے تھی کہ شائد امریکہ پاکستان سے بھی ہنداوستان جیساہی ا
یٹمی معاہدہ کرنے کی پیش کش کرے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ الٹا
پاکستان کو اپنے کام سے روکنے کی ایک ناکام کوشش امریکہ کی جانب سے کی
گئی۔پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جن چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری اور ا
نہیں ہدف تک پہنچانے کا نظام وضع کر رہا ہے اُسے فوری طور پر بند کر
دے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اوباما کی طرف سے کہا گیا
ہے کہ ایسی کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کی ضرورت ہے جو ایٹمی حفاظتی سلامتی
اور اسٹریٹیجک استحکا م کے لئے خطرات کا باعث بنے۔ تاہم مبینہ طور پر
پاکستان نے اپنے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے سے انکار کر
دیاہے․․․جس پر شائد امریکی بیورو کریسی تھوڑی سی سٹ پٹائی بھی ہوگی۔مگر اس
وقت افغانستان میں امریکی ٹانگ پھنسنے سے بحا لتِ مجبوری پاکستان پر اپنا
بھر پور پریشر نہ ڈال سکا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ پر مشترکہ اعلامیئے میں کشمیر پالیسی
پر امریکہ کے انکار کے پیش ِنظر ہندوستان بغلیں بجا رہا ہے۔جس میں لشکرِ
طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے تذکرے سے ہندوستان قیادت خوشی کے مارے پاگل ہوئی
جا رہی ہے۔ہندوستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا کہ ایک عرصہ سے
ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ لشکرِ طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کی کاروائیاں روکی
جائیں۔ہندوستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکہ اور نیستمبر 2014
اور جنوری 2015 میں لشکرِ طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو روکنے کے
لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا تھا۔ہمیں کشمیر پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی
قبول نہیں ہے۔گویا ہندوستان اقوام متحدہ کو بھی کشمیر کے معاملے میں کوئی
گھاس نہیں ڈالے گا۔لشکرِ طیبہ کے حولے سے امریکہ پاکستان کو ہندوستان کے
کہنے پرپاکستان متنبہ کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے جو وزیرِ اعظم کے اس دورے
کا سب سے منفی پہلو ہے۔
امریکہ کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ ہم کشمیر پر کوئی
مصالحت نہیں کرا سکتے ۔اس معاملے میں ہمار ی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں
آئی ہے۔یہ بات بھی امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صحافیوں کو
بتائی کہ پاکستان ایک مدت سے ایسا مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے۔لیکن صدر اوباما
واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس کے لئے صرف اُس صورت میں تیار ہوں گے کہ ہندوستان
بھی اس پر تیار ہو۔لائن آف کنٹرول کی نگرانی کے میکینزم کے کام کے لئے بھی
دہلی کی آشیرواد ضروری ہے۔حکومتِ پاکستان کے کاریندے اور حمائتی وزیر اعظم
نوازشریف کے اس دورے کے منفی پہلووں کو چھپانے کی ناکام کوششیں کرتے دیکھے
جا رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ میڈیا پر بیٹھے بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ مشترکہ
اعلامیہ متوازن تھا۔مگر مخالفین واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس
دورے میں کہیں بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔امریکہ کے ہندوستان کے
خلاف جانے کی کسی طرح سے بھی توقع نہیں کیجا سکتی ہے۔اس اعلامیئے میں
ہندوستان کی طرف سے مسلسل کیجانے والی دہشت گردی کا ذکرتک کا نہ ہونا ہمارے
لئے لمحہِ فکریہ ہے۔حالانکہ ہماری جانب سے ہندوستان اور را کی دہشت گردی کے
ٹھوس ثبوت پیش بھی کر دیئے گئے۔
ہم وزیر اعظم نواز شریف کے موجودہ دورے کو صرف معمول کا دورہ کہہ سکتے
ہیں۔جس میں پاکستان کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ہماری امریکہ کے
ہندوستان کے خلاف جانے کی خواہش کو محض دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے۔یہ
بات بھی ساری دنیا کے علم میں ہے کہ امریکہ کا رویۂ ہندو پاکستان کے ا یٹمی
امور پر پاکستان کے ساتھامریکہکا رویہ مساویانہ نہیں ہے،بلکہ مخاصمانہ رہا
ہے۔جس کی وجہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یورپ مسلمان ملکوں کو آگے نہیں بڑھنے
دیگا۔ وہ اسلامی دنیا کو ان کے اندرونی اور بیرنی جھگڑوں میں مبتلا رکھ
انہیں مستحکم نہیں ہونے دے گا۔ عراق میں صدا م حسین کے خلاف کی جانے والی
کاروائیوں پرآج امریکی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے عراق
کے خلاف غلط کاروائی کی تھی۔آج جس قدر بھی مسلم ممالک میں فسادات ہیں ان سب
کی جڑوں میں امریکیوں کی بد معاشیاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔امریکہ کے ان
ظالمانہ اقدامات کے باوجود مسلمان حکمران سی آئی اے کے خوف میں مبتلا رہ کر
امریکیوں کی ڈنڈوت میں لگے رہتے ہیں۔جس سے مسلم امہ کا تو نقصان ہو رہا ہے
۔مگر ان خوف کے مارے حکمرانوں کا اقتدار کسی حد تک تو امریکہ کی حفاظتی
تحویل میں رہتا ہے۔
دنیا کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ وزیر اعظم
نواز شریف کا دورہ امریکہ کسی طرح بھی کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔کیا
ہم نے ہندوستان کی دہشت گردی کے ثبوت پیش کر کے امریکہ کو اس بات پر قائل
کر لیا کہ پاکستان کے سرحدوں کے اُس پار سے ہم پر دہشت گردی ہو رہی
ہے؟؟؟کیا امریکہ ہندوستان کی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے مطمئن
ہے؟؟؟کیا امریکہ نے ہندوستان کو بھی پاکستان کی طرح ایٹمی معاملات روک دینے
کا کہا؟؟؟تو پھر پاکستانی قوم کو بتایا جا ئے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے
دورے میں کہاں کا میابی چھپی ہے؟؟؟ہمارا کیا ساری دنیا بمعہ ہندوستان کے کا
یہ ماننا ہے کہ نواز شریف کا دورہ امریکہ مکمل نا کام رہا ہے․․․․․ |
|