کچھ تو ہو اب دیش کی بات؟؟

بہت ہوگئی ’’من کی بات ‘‘

وزیر اعظم نریندر مودی صاحب !۔۔۔ آپ کون ہیں ، آپ کی حقیقت کیا ہے ،آپ کی دل چسپی کن چیزوں میں ہے ، کہاں آپ کی تربیت ہوئی، آپ کا ماضی کیا ہے، کن طاقتوں کے سہارے آپ کی یہاں تک رسائی ہوئی ہے اور آپ مستقبل میں کیا کچھ کرسکتے ہیں ؟؟؟۔

یہ چیزیں ہم بخوبی جانتے ہیں ۔ 26 مئی 2014 کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھلے ہی ہندوستان اور یہاں کے مسلمانو نے گجرات کے جلتے دن و رات کو فراموش کردیا ہو، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے بہتے ہوئے لہو کا خوف ناک منظر ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہو لیکن دنیانے ابھی اسے فراموش نہیں کیا ہے ۔ ۔۔۔انسانیت کے نام پر ہمدردی کرنے والے آ ج بھی آپ کے نام سے نفرت کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔حالیہ امریکہ دورہ کے دوران آپ کو اچھی طرح اپنی اس حیثیت کا احساس ہوگیا ہوگا کہ دنیا نے وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی آپ کو معاف نہیں کیا ہے ۔ان کی نگاہوں میں آج بھی آپ مجرم ہیں ۔ دس ہزار سے زائد مسلمانوں کے قاتل ہیں ۔ معصوم بچوں کے خون سے آپ کے ہاتھ رنگین ہیں ۔ خواتین کی عفت و عصمت تارتارکرنے کا پاپ آپ کے سر ہے ۔ جی ہاں ! یہ سچ ہے اسی لئے جب آپ نے فیس بک کے مالک مارک زکر برگ سے ملاقات کی تو لاکھوں لوگوں نے زکر برگ کو صابن سے ہاتھ صاف کرنے کے مشورہ دے ڈلا کہ زکر برگ! آپ کے ہاتھ گندے ہوگئے ہیں اسے صاف کرلیں ۔ مائیکروسوفٹ کے سی ای او نے تو سامنے میں ہی مصافحہ کے بعد اپنا ہاتھ جھاڑ کر یہ بتادیا کہ مصافحہ سے میرے ہاتھ ملوث ہوگئے ہیں ۔یواین اجلاس میں شریک عالمی رہنماؤں کے فوٹوگروپ سیشن میں آپ کو سب سے پچھلی صف میں جگہ دی گئی ۔ سال گذشتہ جب پہلی مرتبہ امریکہ میں آپ کے قدم پڑے تھے تو آپ کے گوش سماعت سے یہ خبر ٹکرائی تھی کہ ’’ امریکہ کی ذیلی عدالت نے نریندر مودی کے نام سمن جاری کیا‘‘۔ اور یہ بھی کہ امریکی صدر ،وزیر سمیت کوئی معمولی عہدہ دار بھی آپ کے استقبال کو نہیں آیا ۔ یہ اعزاز تو صرف آپ کے ما سوا ہندوستانی وزراء اعظم نہر ، اندرار ،راجیو اور منموہن سنگھ کو مل سکا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جسے انڈین نے میڈیا پردہ خفاء میں رکھا ۔ آپ کی شخصیت کو بیان کرنے میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا لیکن حقیقت زیادہ دنوں تک پردہ خفا میں نہیں رہتی ہے ۔ حال ہی میں جب آپ کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی امریکہ کے سفر پر تھے اور آپ کے زیر اقتدار بی جے پی حکومت کے کا موں کی تعریف کے پل باند رہے تھے تو صحافیوں نے برجستہ سوال کردیا کہ آپ کس ہندوستان کی باتیں کررہے ہیں ۔ کس منہ سے ترقیاتی کاموں کی تعریف کررہے ہیں ۔ ہندوستان کی سچائی یہ ہے کہ وہاں اقلتیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ شہریوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ مذہبی تشدد اور ہندو انتہاپسندی کو آپ کی حکومت میں فروغ ملا ہے ۔ بیف کی افواہ پھیلاکر بے گناہوں کی جان لی جاتی ہے۔ ارون جیٹلی کو صحافیوں کے ان سولات نے ضرورت سے زیادہ پریشان کردیا اور مجبور ہوکر ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یہ اعتراف کرناپڑا کہ دادری جیسے سانحہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بے عزتی ہوئی ہے ۔ ارون جیٹلی کے اس بیان کے بعد بی جے پی نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور وزیر داخلہ نے فوری طور پر محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل پر اپنا بیان جاری کیا ۔ عالمی طاقتوں کے سامنے جواب دینے کے لئے مودی جی نے بھی صدر جمہوریہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے دادری سانحہ پر اشاروں میں لب کشائی کی ۔ لیکن عالمی سطح پر مذمت کا سلسلہ رکا نہیں ۔ دنیا بھر کی میڈیا نے مودی دور حکومت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم اور وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایا تو مجبور ہوکر مودی نے ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہ کہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ دادری سانحہ اور غلام علی کا پروگرام مسنوخ کئے جانے کے لئے ذمہ دار ریاستی حکومتیں ہیں ، مرکز کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ بیان بھی ان کے لئے ایک نئی مصیبت بن گیا ۔

وزیر اعظم صاحب ہم آپ سے براہ راست کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ پوچھنا چاہتے کہ بحیثیت وزیر اعظم آ پ کی ذمہ داریاں کیا ہے ۔کن معنوں میں آپ اپنے آپ کو ہمیشہ پردھان سیوک کہتے ہیں ۔ سو اسو کڑور دیش واسیوں کی بات کرتے ہیں ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ایک ارب تیس کڑور عوام کا آپ خود کو سربراہ بتاتے ہیں ۔ لیکن ضرورت پڑتی ہے ان وعدوں پر پورااترنے کی۔۔۔۔ دیش کو صحیح سمت دینے کی ۔۔۔۔۔ شرپسندوں پر لگام لگانے کی ۔۔۔۔ تو اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے کندھوپر ڈال کر یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیان دیتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت کا اس سانحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ افسوس !! افسوس !!!

سلسلہ یہیں پر رکا نہیں ہے کہ بلکہ آپ کے سایہ میں شدت پسند ہندو عوام کے ساتھ آپ کے پارٹی سنئر لیڈران بھی مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگے ہیں۔ مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی کو صحیح ٹھہرانے لگے ہیں ۔ حقوق انسانیت کی ہونے والی پامالی پر ادباء اور دانشوران کے احتجاج اور ایوارڈ واپسی تحریک کو بھی سیاسی سازش سے مربوط کردیاہے ۔ اور اب آپ کے وزیر اعلی نے مسلمانوں کے رہنے کی شرطیں طے کرنے شروع کردی ہے ۔ مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کی اجازت کن وجوہات کی بناپر دی جائے گی اس کا فیصلہ بھی آپ کی پارٹی ہی کرے گی ۔ مسلمان کیا کھائیں گے ، کیا پہنیں گے ، کیا کریں گے کیا نہیں کریں گے اس کا فیصلہ بھی آپ ، آپ کے پارٹی لیڈران کریں گے !!۔

وزیر اعظم صاحب آپ کے طرز عمل ، آپ کے لیڈروں کے بیانات اور آپ کی عقیدت مند عوام پس پردہ یہی کہنا چاہ رہے ہیں اور اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں کہ ہندوستان پر مسلمانوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یہ سرزمین صرف ہندوؤں کی ہے ۔ اسی لئے وہ مختلف بہانہ بناکر مسلمانوں کو ہراساں کررہے ہیں ۔ ان کی زندگی پر خوف کا پہر ہ ڈال رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ تشدد کا رویہ اپنارہے ہیں ۔ بغیر کسی وجہ کے جگہ بہ جگہ آپ کے عقیدت مند اور بھگت ان کا قتل کررہے ہیں اور آپ خاموش ہوجاتے ہیں یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑ لیتے ہیں ، آپ کے لیڈران اور کابینہ وزراء اسے جائز تھہراٹے ہیں ۔ اور کچھ مسلمانوں کو دھمکیاں دینی شروع کردیتے ہیں ۔

نریندر مودی صاحب ! ان دنوں آپ ایک آئئنی عہدہ پر فائز ہیں ۔ اس لحاظ ایک جمہوری ملک میں جمہوریت کا احترام کرتے ہوئے نہ چاہ کر بھی میرا فریضہ بنتا ہے کہ میں آپ کو وزیر اعظم سے خطاب کروں ۔ آپ کو جمہوری حقوق یاد لاؤں اور بتاؤں کہ یہ ملک جتنا مسلمانوں کا ہی اتناہی ہی ہندوؤں کا بھی ہے یا یوں کہ لیں گہ جتنا ہندووں کا ہے اتناہی مسلمانوں کا بھی ہے ۔اس ملک پر آج اگر پانچ سالوں کے لئے آر ایس ایس کی حکومت ہے تو تقریبا گیا ر ہ سو سالوں تک اس ملک پر ہم مسلمانوں نے بھی حکومت کی ہے ۔ دہلی شہر کو ہم نے ہی بسایا ہے۔لال قلعہ کی عظمت ، قطب مینار کی بلندی اور تاج محل کا وقار ہم نے ہی اس ملک کو دیا ہے ۔ ایک با پھر یاد دلادیں کہ جس لال قلعہ سے خطاب کرنے کے شوق میں آپ ناقابل برداشت حد تک پہونچ گئے تھے اور ایک فرضی لال قلعہ بناکر بھی خطا ب کرنے کا شرف حاصل کرلیا تھا ۔ایک سالوں بعد آپ کو موقع بھی مل گیا حقیقی لال قلعہ سے خطاب کرنے کا ۔وہ قلعہ ہم مسلمانوں نے ہی بنایا ہے آپ نے نہیں ہے ۔ آپ ہمیں مٹاکر لال قلعہ کی عظمت نہیں مٹاسکوگے ۔تاج محل سے وابستہ تاریخ کو کتابوں حذف نہیں کرسکیں گے ۔

اخلاق کے بہیمانہ قتل کے بعد عالمی سطح پر جس طرح یہ مسئلہ بلند ہواتھا توقع تھی کہ آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے گا ۔ قانون اور انتظام کوئی اپنے ہاتھوں میں نہیں لے گا لیکن آنے والے ایام اس سے بھی زیادہ المناک ثابت ہوئے ۔ اخلاق کے قتل کے بعد تقریبا اسی نوعیت کا پانچ سے زیادہ واقعہ پیش آگیا ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ سیکولر ہندوستان کے چہرے پر کب تک سیاہی پوتی جائے گی۔انصاف کا جنازہ نکا لاجائے گا۔سچ لکھنے والوں کا قلم چھینا جائے گا۔

عالی جناب وزیر اعظم صاحب ! اب تک آپ تقریبا دس سے زیادہ مرتبہ پورے ملک کو اپنے من کی بات سناچکے ہیں ۔ اب ملک کی عوام یہ چاہ رہی ہے اپنے من کی بات سنانے کے بجائے آپ دیش کے من کی بات سنئے کہ دیش آپ سے کیا کہ رہا ہے ۔ ملک کی عوام آپ سے کیا کہنا چاہ رہی ہے ۔ لوگوں کو ہم نے کہتے ہوئے سناہے کہ سابق وزیر اعظم بولتے نہیں تھے اور موجودہ وزیر اعظم سنتے نہیں ہیں۔ اب یہ تو آپ ہی بتائیں گے عوام کا تاثر غلط ہے یا صحیح ہے ۔لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ دیش کو سن نہیں پارہے ہیں ۔ دیکھ نہیں پارہے ہیں یا پھر جان کر انجان بنے ہوئے ہیں ۔ جو بھی کچھ ہو بحثیت وزیر اعظم آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کو قابومیں لایا جائے ۔ بے گناہوں کے قتل عام کے سلسلہ پر پابندی لگائی جائے۔مجرموں اور گنہ گاروں کو عبرتناک سزادی جائے ۔ شدت پسندوں اور نفرت کی کھیتاں کرنے والوں کو سبق سکھایا جائے۔ مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے ۔ غریبوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ برتا جائے ۔ مسلمانوں میں پیدا شدہ خوف و ہراس کو ختم کیا جائے ۔ مسلمانوں کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کیا جائے ۔
یہ دیش کے من کی بات ہے ۔ جنتاکا وچار ہے۔سواسو دیشواسیوں کا اپنے وزیر اعظم سے مطالبہ ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163694 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More