نئی فلم پرانی کہانی
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
وقت بھی وہی ہے ہم بھی وہی ہے ۔بس
بعض کردار تبدیل ہوئے ہیں ۔ باقی کہانی وہی پرانی ہے۔سکرپٹ اور ڈائیلاک بھی
تقر یباًوہی ہے لیکن فلم کے ہیرو اور ولن تبدیل ہوئے ہیں، بعض اوقات ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب خبریں ،پروگرام،تجزے اور تبصرے دوبارہ نشر ہورہے
ہیں۔حکومتی بیانات اور اداروں کی پالیسی سمیت بیوروکریسی کی کرپشن اور ہٹ
دھرمی بھی وہی ہے۔ دس سال پہلے جب پاکستان میں زلزلہ آیاتھا تو اس کو
پاکستان کی تاریخ میں سب سے تباہ کن قدرتی آفت کہا جاتا رہا جس میں تقر یباً
90ہزار لوگ لقمہ اجل بنے اور لاکھ سے زیادہ زخمی، بہت سے عمر بھر کیلئے
آپاہیج۔ شہر کے شہر مٹ گئے تھے جو گھر تباہ ہوئے تھے 8اکتوبر2005کے زلزلے
میں، ان میں آج تک امداد نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے مکان دوبارہ تعمیر نہ
ہوسکے۔یہ صرف راولاکوٹ، مظفرآباد اور کشمیر کے دوردارز علاقوں کی بات نہیں
بلکہ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز کی تباہ کاری اور متاثرین کی امداد آج تک
نہیں ہوئی ،لواحقین آج بھی عدالتوں اور اداروں کے چکر لگا رہے ہیں۔ بہت سے
اسکول اور ہسپتال جو دس سال پہلے زلزلے میں تباہ ہوئے تھے آج تک ان اسکولوں،
کالجوں اور ہسپتالوں کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی ۔ کھربوں کے فنڈز آئیں کہاں
خرچ ہوئے کہاں گئے ، مال کس کس ادارے اور کن کن لوگوں میں تقسیم ہوا کوئی
حساب کتاب نہیں ۔ اس وقت انصاف کی کرسی پر پرویز مشرف بیٹھے تھے جبکہ آج
میاں نواز شریف کی حکومت ہے۔ اس وقت اپوزیشن کے طور پر نون لیگ موجود تھی
آج پیپلز پارٹی نے یہ منصب سنھبالا ہوا ہے۔ دس سال پہلے یہ کہا جارہاتھا کہ
پاکستان میں اس قسم کا یہ پہلا زلزلہ آیا ہے لہٰذاحکومت کے پاس متاثرین کو
آبادی کاری کا کوئی سسٹم موجود نہیں ۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر
ڈاسٹرمینجمنٹ کے ادارے بنے جن کاکام متاثرہ علاقوں کی بحالی تھا ۔ اس ادارے
کی بہتر کار کردگی کا ثبوت اس اور کیا ہوسکتاہے کہ کھربوں روپے کے فنڈز ختم
ہوئے ، خوب کرپشن ہوئی آج ہر مہینے کروڑں کی تنخواہیں لی جارہی ہے لیکن
متاثرہ مکانوں ہسپتالوں اور اسکولوں کی دوبارہ تعمیر آج تک نہیں ہوئی۔ جو
ہسپتال اور اسکول بیرونی ممالک نے خود بنائے ہیں صرف وہی قائم ہوئے۔ باقی
سب ویسے کا ویسا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ جو بیانات اس وقت کے وزراء
اور حکومتی ارکین اور اہلکار دے رہے تھے ،اسی طرح بیانات تبصرے اور تجزیے
آج بھی سننے کو مل رہے ہیں۔
بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ یہ بھی ٹھیک ہے یا دل کو تسلی کے لیے کافی ہے
کہ ہم سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی رضا پرچھوڑ دیتے ہیں۔ مختلف بیانات سامنے آجاتے
ہیں کوئی اس کو اﷲ کی نافرنی کا عذاب قرار دیتا ہے تو کوئی اس آفت کو
گناہوں کی کثرت اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عذاب کے طور پر سزا اور قیامت
کی نشانیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ویسے دنیا میں جہاں پر زلزلے آتے ہیں تو یہ
سزا اور نافرمانی صرف ان لوگوں کی ہے ،باقی جو امر یکا ، بر طانیہ ، فرانس
اور جرمنی میں ہوتا ہے وہ سب ٹھیک ہوتا ہے ۔ یورپ کے بعض ممالک میں تو گناہ
کوگنا ہ نہیں سمجھ جاتا ، مرد اور زن ایک ہی کشتی کے مسافر ہوتے ہیں۔ نائٹ
کلبوں اور سمندر کی بیجوں پر کیا کچھ نہیں ہوتا ۔ وہاں یہ زلزلے کیوں نہیں
آتے۔ ہردفعہ ان پہاڑوں کے رہنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ویسے اگر یہ
عذاب ہماری گناہوں کی وجہ سے ہیں تو پھر یہ عذاب کراچی ،لاہور، اور سلام
آباد پر کیوں نہیں آتا جہاں گناہ تو معمولی بات ہے ، انسانوں کی خریدو
فروخت ہوتی ہے۔ لوٹ مار کی جاتی ہے، ظلم کا بازار گرم ہوتاہے۔ہر دفعہ
غریبوں کی بستیاں کیوں لوٹ جاتی ہے ۔عمر بھر کی جمع پونجی سیکنڈوں میں ختم
ہوجاتی ہے۔کیا یہ لوگ بہت گناہگار ہے ؟جن کے معصوم اور بے گناہ بچے مٹی تلے
تب جاتے ہیں۔ ڈرانے اور دھمکانے کے لیے یہ سب کچھ اچھا ہے لیکن حقیقت اس کے
برعکس ہے۔ یہ قدرتی آفت ہے اس کی سائنسی بنیادوں پر بہت سی وجوہات ہوتی
ہے۔26اکتوبر2015کی زلزلے کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں جانی اور مالی نقصان تو
پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہوا ہے۔ میڈیا کو نیا موضوع ملا گیا ۔ نیوز
چینلزنے اہمیت بڑھانے کے لیے زیادہ شور مچایا۔ مقابلے میں ہر ایک دوسرے سے
آگے ہونے کی قسمیں کھا رہاہے ۔ ہر کوئی اپنی بقا کی جنگ میں لگا ہے۔ کچھ دن
یہ کہا نیاں رپورٹس ، تبصرے اور تجزیے ہوں گے اس کے بعد پھر وہی سیاست شروع
ہوجائے گی۔ میڈیا بھی بھول جائے گا۔ ہماری حکومتوں نے تو قسمیں کھائی ہے کہ
ہم نے اپنے ہسپتال ، اسکول اور کالجز ٹھیک نہیں کرنے۔ سہولیا ت اور بیڈز
بڑے ہسپتالوں میں موجود نہیں تو ضلع اور تحصیل کی ہسپتالوں کی کیا بات کر
یں گے؟ وفاقی حکومت میٹروبسیں اور میٹرو ٹرینے شروع کرنے کی لگن میں ہے
جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت جس کی سر براہی تحر یک انصاف کررہی ہے۔ کرپشن
اور لوٹ مار کی وجہ سے پیسے خرچ ہی نہیں کرتی ہر سال ان کا بجٹ لیپس ہوجاتا
ہے۔ ماضی کو چھوڑے دوسال گزرنے کے باوجود ہسپتالوں میں مر یضوں کے علاج
معالجے کا بندوبست موجود نہیں، بہت سے ہسپتالوں میں ایکسرے اور ٹیسٹ مشین
خراب پڑی ہے ۔ ڈاکٹروں کی کمی ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ اس زلزلے کو بھی دس سال
گزر جائیں گے اور دس سال بعد ہم پھر یہی رونا روتے رہیں گے کہ زلزلے میں
متاثر ہ خاندان تاحال حکومتی امداد کے منتظر ہے۔ کیوں کہ انسان قدرتی آفت
کے سامنے بے بس ہے ۔ ہسپتالوں میں جگہ اور ڈاکٹر نا ہونے کی وجہ سے لاشیں
اور زخمی ایسے ہی زمین پر پڑی رہے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحر یک انصاف
ماضی کی روایت کوتوڑتی ہے یا اس کوبرقرار رکھتی ہے۔ ۔ متاثرہ لوگوں کی
ایمرجنسی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے جن لوگوں کے گھر بار تباہ ہوئے ہیں ۔
مقامی حکومتوں کی مدد سے ان سب کاسروے کرکے نقصانات کاازالہ کرناچاہیے۔ جن
کے مکانات اورمال مویشی زلزلے کی نذر ہوئے ہیں۔ان سب کا ازالہ حقیقی معنوں
میں ہونا چاہیے تاکہ یہ لوگ دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائے۔غریب آدمی پوری
زندگی میں ایک ہی بار مکان بنا تا ہے وہ بھی اگر قدرتی آفت کی نظر ہوجاتا
ہے تو وہ ساری عمر اس کا ازالہ نہیں کر سکتا ۔ تحریک انصاف کی حکومت پر یہ
ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ سب متاثرین کی بلاتفریق مدد کر یں ۔ لمحہ
فکریے تو یہ بھی ہے کہ منتخب ناظمین کواب تک کوئی اختیارات نہیں دیے گئے
ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی گزشتہ روز شانگلہ کے دورے کے موقعے
پر فرمایا کہ امدادی پیکج کے تحت متاثرین پہلے سے بہتر گھر تعمیر کر سکیں
گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت اس فلم کی کہانی کوبدل دیتے
ہیں یا نہیں ۔ |
|