بہار انتخاب کا بدلتا منظر نامہ

بہار میں انتخابی دنگل اپنی جولانی پہ ہے۔ مراحل کی ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے اور ریاستی اسمبلی کی کل ۳۴۲ حلقوں میں سے ۱۸ حلقوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ووٹنگ مشینوں میں بند ہو چکا ہے۔ اگلے تین مراحل میں ۲۶۱ حلقوں میں ووٹنگ ہو گی۔ ۸۲ اکتوبر کو ۰۵۔ یکم نومبر کو ۵۵ اور آخر میں ۵ نومبر کو سب سے بڑی ووٹنگ ۷۵ حلقوں میں ہوگی۔ اسی آخری مرحلے کی پولنگ بہار کے سیمانچل خطے میں ہوگی جو مسلمانوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دو مرحلوں کے بعد ریاست کا سیاسی منظر نامہ خاصہ واضح ہو گیا ہے۔ اس انتخاب میں اصلی مقابلہ دو ہی انتخابی مفاہمتوں کے درمیان ہے۔ تیسرے مورچے یا اور کسی سیاسی گروپ کی دال اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ یہاں گلتی نظر نہیں آرہی یا یوں کہیں کہ جوتیوں میں بٹ چکی ہے۔ انتخابی عمل کے آغاز میں بی جے پی نے اس قدر طوفانی مہم کا آغاز کیا کہ ایسا محسوس ہوا کہ مقابلے پہ کوئی ٹک نہیں سکے گا۔ ہر طریقہ ہر حربہ رو بہ عمل لایا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود انتخابی مہم کا آغاز کیا اور بہار کیلئے اس پیکیج کا اعلان کر دیا جس کا ایک لمبے عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اور یہ اعلان بھی اس ڈرامائی نداز سے کیا گویا بہارکی بولی لگا رہے ہوں یا بہاریوں پر خلاف توقع کوئی ایسا احسان کر رہے ہوں جو ان کی علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ اس کے علاوہ بہت کچھ کیا گیا پورے شمالی ہندوستان میں نفرت کی فضا پیدا کی گئی ۔ گائے کے نام پر بے قابو ہجوم اکھٹا کئے گئے ۔ قتل کئے گئے۔ فسادات بپا کئے گئے اور اس کا فائدہ بہار کے اتخاب کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کے لینے کی کوشش کی گئی۔ مگر دو مرحلے کی پولنگ نے بی جے پی پر یہ واضح کر دیا کہ نفرت کی یہ فصل بہار میں نہیں لہلہا سکتی بلکہ اس کا الٹا نقصان ہی ہوا۔ اسی لئے دوسرے مرحلے کے بعد بی جے پی کی حکمت عملی میں واضح تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے۔ جتنا طوفانی مہم شروع کی گئی تھی اس میں نمایاں کمی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب مہا گٹھ بندن کی مہم بھی کچھ کم نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے ذریعے لگائے گئے ہر الزام کا جواب اسی دن دیا گیا۔ اس مہم میں لالو پرساد کم اور نتیش کمار زیادہ آگے ہیں اور جیسے جیسے وقت بڑھ رہا ہے نتیش کے تیور جارحانہ ر ہوتے جا رہے ہیں ۔

آئندہ تین مرحلوں کا انتخاب گذشتہ دو کے مقابلے زیادہ اہم ہے۔ابھی ۲۶۱ حلقوں میں انتخاب ہونا با قی ہے اور یہ مرحلے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ بی جے پی کوئی بڑا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے انہیں ہر حال میں بہار چاہیے۔ براہ راست یا بلا واسطہ۔ چنانچہ پہلے مرحلے کی مہم میں جو جارحانہ تیور اختیار کیے گئے ان کی وجہ یہ تھی بی جے پی بہار کے اقتدار پر بلا شرکت غیر قابض ہونا چاہتی تھی لیکن اس مہم کی ناکامی نے بی جے پی کو مجبور کر دیا کہ وہ بلاواسطہ اقتدار حاصل کرنے کی جدو جہد کرے ،چنانچہ ان جارحانہ تیور کو ترک کرکے اب بعد از انتخاب حکمت عملی پر زیادہ فوکس کیا جارہا ہے۔ اب سے چند ماہ قبل مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مہا گھٹبندھن جیت بھی گیا تو کیا فرق پڑے گا ۔ لالو پرساد کے ساتھ اقتدار میں شرکت کرنا نتیش کے لیے کوئی آسان راہ نہیں ہوگی۔ اس لیے چھ ماہ سے زیادہ اس گٹھبندھن کی سرکار نہیں چل سکتی اور نتیش کو چھ ماہ بعد پھر ہم سے مل کر ہی سرکار بنانی پڑے گی۔ جیٹلی جیسے سینئیر وزیر کے بیان کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیئے۔ اب شاید اسی جانب بہار کی سیاست کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں ،بی جے پی محاذ میں شامل تمام پارٹیاں محض اقتدار کے خاطر بی جے پی کے ساتھ ہے۔ رام ولاس پاسوان ہوں یا کشواہایا پھر مانجھی انتخابات کے بعد ان کو جو بھی کامیابی ملے گی وہ ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی کے ساتھ رہیں۔اگر نتیش کو اقتدار میں آنے کے لیے ان کی ضرورت پڑی تو وہ بلا دریغ نتیش کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔

دوسری جانب دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مہا گٹھ بندھن کو اقتدار نہیں ملا تو نتیش کے سوا کوئی بھی پارٹی بی جے پی کے ساتھ جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی اور سونیا کی کانگریس کسی قیمت پر بی جے پی کے ساتھ نہیں جاسکتی۔ ایسے میں بھی بہت کچھ منحصر کرے گا کہ الگ الگ کس جماعت کو کتنی سیٹیں ملتی ہیں لالو اور کانگریس ملکر 142حلقوں میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔نتیش 101پر اور بی جے پی 162پر انتخاب لڑ رہی ہے۔ اب تک کہ انتخابی تجزیہ یہ بتارہے ہیں کہ الگ الگ لالو اور نتیش 60-60سیٹیں جیت سکتے ہیں جب کہ کانگریس 40میں سے محض 6سے 8سیٹیں ہی جیت سکتی ہے۔ جبکہ کے بی جے پی 80سے 90سیٹیں جیتنے کی حالت میں ہوسکتی ہے ایسے میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی اور حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرنے کی حالت میں ہوگی۔ اس کی حریف پارٹیاں بھی 10-15سیٹیں ہی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ حالت بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھے گی۔ لیکن مہا گٹھ بندھن کو بھی اتنی ہی تعداد میں سیٹیں ملیںتو دو صورتوں کا امکان پیدا ہوگا۔یا تو بی جے پی اتحاد کی کچھ پارٹیاں ٹوٹ کر نتیش کے ساتھ آجائےں اور حکومت سازی میں مدد کریں، یا مہا گٹھ بندھن ٹوٹ کر نتیش کمار اس سے باہر آجائیں اور بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں ایک بار پھر بی جے پی اور جے ڈی یو محاذ کا سر کار کا راستہ صاف کردے۔مہا گٹھ بندھن واضح اکثریت حاصل کر لے گا اس کے تمام آثار موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خطرہ بہر حال موجود ہے کہ یہ گٹھ بندھن کی سرکار کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکتی اور لالو نتیش کے الگ ہو جانے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔

ان حالات میں وہ سیکولر ووٹ جو محض بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے خاطر ہر طرح سے متحد ہو کر مہا گٹھ بندھن کو کامیاب کرانے کی کوشش کر رہا ہے وہ ٹھگا سا رہ جائے گا اوربی جے پی بلا واسطہ طورپر آخر کار ریاست کا اقتدار حاصل کر لے گی اور چونکہ وہ سب سے بڑی پارٹی کے لحاظ سے ابھرے گی اس لیے وزات اعلیٰ کی کرسی پر بھی اسی کا دعویٰ ہوگا ۔ جیسا کہ مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی محاذ کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح بی جے پی نے اپنی انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اسی طرح ریاست کے ووٹران بھی اپنی حکمت عملی میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کریں،اور اس انداز سے ووٹنگ کریںکہ لالو پرساد یادو اور کانگریس زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیت سکے ۔ یہ دونوں پارٹیاں مل کر اگر 90سیٹ بھی حاصل کر نے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نتیش کمار کی مجبوری ہوگی کہ مہاگٹھ بندھن سے باہر نہ جائیں۔ ان کے پاس کوئی متبادل باقی نہیں رہے گا۔ لیکن اگر نتیش کمار 75سے80سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ آزاد ہوں گے کہ جس طرف چاہیں چلے جائیں۔چنانچہ اگلے تین مرحلوں میں انتخابی مہم چلانے والے لیڈران اور و رکرس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آرجے ڈی اور کانگریس والی سیٹوں پر زیادہ سے زیادہ تعدا د میں ووٹنگ کروائیں اور کسی قیمت پر ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں،انہیں یہ کوشش بھی کرنی ہو گی کہ جن سیٹوں پر کانگریس انتخاب لڑ رہی ہے وہاں جے ڈی یو اور آرجے ڈی کا پورا پورا ووٹ کانگریس کو ٹرانسفر ہو تاکہ کانگریس کم از کم 20سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوسکے۔ تبھی نتیش کمار کی ناک میں نکیل ڈال کر انہیں مہا گٹھ بند ھن میں بنے رہنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے اور نتیش کمار کو مہاگٹھ بندھن میں بنے رہنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ حکمت عملی بھی اختیار کرنی پڑے گی کہ جن سیٹوں پر جے ڈی یو انتخاب لڑ رہا ہے ان سیٹوں پر مہا گٹھ بندھن کے علاوہ جو پارٹیاں مضبوطی کے ساتھ انتخاب لڑ رہی ہے ان میں سے کسی مضبوط امید وار کو کامیاب کروانے کی کوشش کی جائے ،مثال کے طور پر سیمانچل کی جن 6سیٹوں پر اسد الدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین انتخاب لڑ رہی ہے ان میں سے جن سیٹوں پر جے ڈی یو کے امیدوار مقابلے پر ہیں وہاں مجلس کے امیدواروں کی حمایت کرکے کامیاب بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ لالو اور کانگریس کی طرح کوئی تیسری پارٹی جو بی جے پی کے ساتھ کسی قیمت پر نہیں جائے گی وہ اتحاد المسلمین ہی ہے۔ بہار کے سیاسی میدان سے ابھی تک جو خبریں موصول ہو رہی ہے ان سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مجلس بے نیل و مرام بہار سے واپس لوٹ رہی ہے ۔ فرقہ پرستی اور سیکولرزم کی اس جنگ میں مجلس کا اس طرح خالی ہاتھ واپس لوٹنا بہار میں مستقبل کی سیاست کے لیے کوئی فالِ نیک ثابت نہیں ہوگا خصو صاً اس وقت جب کہ ملک کا سیکولر سیاسی خیمہ انتہائی کمزوری کے عالم میں ہے اور فسطائی قوتوں نے سیکولر قوتوں کو پسپا کر کے چھوڑ رکھا ہو خود سیکولر پارٹیوں نے بھی سیکولرزم کے اصول سے سمجھوتہ کرلیا ہو نیز سیکولرزم کو بچانے کی ساری ذمہ داری صرف مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال دی ہواور انہیں ووٹ بینک بناکر ان کے کندھوں پر پیر رکھ کر اقتدار کے گلیاروں تک جانے کی راہ ہموار کرتی ہوںایسے میں کسی ایسی سیاسی پارٹی کی شدید ضرور ت سے انکار نہیں کیا جاسکتاجو سیکولر بھی ہو جس کی قیادت کسی مسلمان کے ہاتھ میں اور جو بی جے پی سے کوئی سمجھوتہ کئے بغیر آنکھ سے ا ٓنکھ ملا کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہو ۔ بہار میں مجلس کی آمد ہر چند کہ بہت دیر سے اور بے وقت ہوئی ہے مگریہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 243میں سے صرف6سیٹیں لڑنے سے بہار میں بی جے پی کو مجلس کی وجہ سے کوئی فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ اگر مسلمانوں کے ووٹ بڑی تعداد میں مجلس کے امیدواروں کو ملتے ہیں تو مستقبل کی سیاست میں مسلمانو ںکی سیاسی بے وزنی میں کما حقہ کمی واقع ہوگی اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتیں مسلمانوں کو بے یارومددگار سمجھ کر نظر انداز کرنے کی رسم چھوڑ نے پر مجبور ہوجائیںگی۔

چنانچہ بی جے پی کو براہ راست یا بلاواسطہ اقتدار سے دور رکھنے ۔نتیش کمار کو مہاگٹھ بندھن کے ساتھ وابستہ رکھنے اور مسلمانوں کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے مسلمانوں کو ایسی کسی حکمت عملی پر عمل کرنا ہی ہوگااور ریاستی اسمبلی کے ایوان میں ایک آزاد خود مختار مسلم نمائندگی کا راستہ بھی صاف کرنا ہوگا۔
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 27770 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More