بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ تمام ابنیاء ورسل کے سردار،
کائنات میں سب سے افضل واعلیٰ بشر اور قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے
نبی حضور ا کرم ﷺ کی نبوت کے بعد کی زندگی کا وافر حصہ نماز میں گزرا ۔ اﷲ
تعالیٰ نے خود قرآن کریم ( سورۃ المزمل) میں بیان کیا ہے کہ نبی دو تہائی
رات یا کبھی آدھی رات یا کبھی ایک تہائی رات روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے
تھے۔ ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم ﷺ کا نماز کے ساتھ جو گہرا تعلق تھا
اور نمازمیں جو آپ ﷺ کی حالت اور کیفیت ہوا کرتی تھی، اُس کا اندازہ سیرت
کی کتابوں سے ادنی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی کرسکتا ہے کہ حضور
اکرمﷺراتو ں کو کتنی لمبی لمبی نمازیں ادا کرتے تھے۔ یہ نماز کے ساتھ خاص
شغف اور تعلق کا ہی نتیجہ تھا کہ حضور اکرم ﷺ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ
دیگر سنن ونوافل، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ
المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر نماز ہی کے ذریعہ
اﷲ تعالیٰ سے رجوع فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے
جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر
نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے نبی کی اتباع میں نمازوں کا
خاص اہتمام کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کو
کثرت سے بیان کیا ہے۔ صرف قرآن پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃ ً
اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺ سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں
نماز تہجد پڑھا کریں: (اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر
باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے
کچھ کم یا اُس سے کچھ زیادہ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا
کرو)۔ ( سورۃ المزمل:۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اﷲ رب
العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی
رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے
لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت
(ایسا ہی کرتی ہے)۔
ابتداء اسلام میں پانچ نمازوں کی فرضیت سے قبل تک نماز تہجد حضور اکرم ﷺ
اور تمام مسلمانو ں پر فرض تھی، چنانچہ آپﷺ اور صحابۂ کرام رات کے ایک بڑے
حصہ میں نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد
کی فرضیت تو ختم ہوگئی مگر اس کا استحباب باقی رہا، یعنی اﷲ اور ا س کے
رسول نے بار بار امت مسلمہ کو نماز تہجد پڑھنے کی ترغیب دی، چنانچہ قرآن
کریم میں فرض نماز کے بعد نماز تہجد ہی کا ذکر متعدد مرتبہ آیا ہے۔ علماء
کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد عام
مسلمانوں کے لئے تو فرض نہ رہی لیکن حضور اکرم ﷺ پر آخری وقت تک فرض رہی۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو قیام فرماتے یعنی
نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔(صحیح
بخاری) ذاتی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں
میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے کھڑے
ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ
اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپﷺ ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے
اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔
سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات، آخری آیت، مذکورہ حدیث اور دیگر احادیث سے
بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ رات کا دو تہائی یا آدھا یا ایک تہائی
حصہ روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔اس فرمان الہی سے معلوم ہوا کہ اﷲ
تعالیٰ کی تعلیمات تمام رسل وانبیاء کرام کے سردار وتاجدار مدینہ حضور اکرم
ﷺ کے متعلق یہی تھیں کہ آپ نماز سے اپنا خاص تعلق وشغف رکھیں۔ چنانچہ حضور
اکرم ﷺ کے ارشادات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔
(مسند احمد، نسائی) اسی طرح جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ﷺ مسجد نبوی کے مؤذن
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے ارشاد فرماتے: اے بلال ! اٹھو، نماز کا بندوبست
کرکے ہمارے دل کو چین اور آرام پہنچاؤ ۔ (مسند احمد، ابوداود) حضور اکرم ﷺ
کے مذکورہ ارشادات سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو نماز کی ادائیگی سے راحت اور
سکون ملتا تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے نبی کی اقتدا میں نماز سے
ایسا شغف اور تعلق پیدا کریں کہ نماز کی ادائیگی کے بغیر ہمیں سکون اور
راحت نہ مل سکے۔
حضور اکرم ﷺ کا نماز کے ساتھ گہرے تعلق کا واضح اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے
کہ ہجرت سے قبل آپ ﷺکو مکہ والوں نے طرح طرح سے ستایا، انھوں نے آپ پر
ظلموں کے پہاڑ توڑے۔ چنانچہ کبھی آپ کی گردن میں چادر کا پھندا ڈالا گیا،
کبھی آپ کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی اور گھر کا کوڑا ڈالا گیا، طائف میں آپ
پر پتھر برسائے گئے ، اسی طرح جنگ اُحد میں دشمنوں نے آپ کو زخمی کیا مگر
آپ ﷺنے ان کے حق میں ایک مرتبہ بھی بددعا نہیں کی، لیکن غزوۂ خندق کے موقع
پر جب دشمنوں نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کر رکھی تھی ،ایک دن آپ ﷺ کو عصر کی
نماز‘ سورج کے غروب ہونے تک پڑھنے کی مہلت نہیں ملی تو آپﷺ نے اُن دشمنان
اسلام کے لئے اتنی سخت بددعا دی کہ ایسی سخت بددعا کسی دوسرے موقع پر آپ
ﷺنے نہیں دی۔ چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: ان لوگوں نے ہمیں عصر کی نماز نہیں
پڑھنے دی، اﷲ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔ ( بخاری، مسلم)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ رات کو قیام
فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ میں نے آپﷺ سے عرض کیا
: اے اﷲ کے رسول! آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ (اگر ہوتے بھی تو) معاف کردئے
گئے ہیں، پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اپنے
پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری)
حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا کہ
حضور اکرم ﷺ کی کوئی عجیب بات جو آپ نے دیکھی ہو وہ سنادیں۔ حضرت عائشہ رضی
اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی کون سی بات عجیب نہ تھی۔ ایک رات میرے
پاس تشریف لائے اور میرے ساتھ میرے لحاف میں لیٹ گئے، پھر فرمانے لگے:
چھوڑو، میں تو اپنے رب کی عبادت کروں۔ یہ فرماکر بستر سے اٹھے، وضو فرمایا
پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور رونا شروع کردیا یہاں تک کہ آنسو سینہ
مبارک تک بہنے لگے۔ پھر رکوع فرمایا، اُس میں بھی اسی طرح روتے رہے۔ پھر
سجدہ فرمایا، اس میں بھی روتے رہے، پھر سجدہ سے اٹھے اور اسی طرح روتے رہے
یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے صبح کی نماز کے لئے آواز دی۔ میں نے
عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں جب کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ
(اگر ہوتے بھی تو) اﷲ تعالیٰ نے معاف فرمادئے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تو کیا پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ آج
رات مجھ پر ﴿اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالارْضِ وَاخْتِلافِ
اللَّےْلِ وَالنَّھَارِ لآےَاتٍ لأوْلِی الْاَلْبَاب۔۔ اَلَّذِےْنَ
ےَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِےَاماً وَّقُعُوداً وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ﴾ سے سورہ
آل عمران کے ختم تک کی آیات نازل ہوئی ہیں۔ (صحیح ابن حبان )
حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات‘ میں حضور اکرم ﷺ کے پاس سے
گزرا۔ آپ ﷺ مسجد میں (نفل) نماز پڑھ رہے تھے۔ میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے نماز
پڑھنے کھڑا ہوگیااور مجھے یہ خیال تھا کہ آپ ﷺ کو یہ معلوم نہیں کہ میں آپ
کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ شروع فرمائی۔ میں نے (اپنے
دل میں کہا) کہ سو آیتوں پر رکوع فرمائیں گے لیکن جب آپ ﷺ نے سو آیتیں پڑھ
لیں اور رکوع نہ فرمایا تو میں نے سوچا کہ دو سو آیتوں پر رکوع فرمائیں گے
مگر دو سو آیتوں پر بھی رکوع نہ فرمایا تو مجھے خیال ہوا کہ سورہ کے ختم پر
رکوع فرمائیں گے۔ جب آپ ﷺ نے سورہ ختم فرمادی تو اَللّٰھُمَّ! لَکَ
الْحَمْدُ، تین مرتبہ پڑھا۔ پھر سورۂ آل عمران شروع فرمائی تو میں نے خیال
کیا کہ اس کے ختم پر تو رکوع فرما ہی لیں گے۔ حضور اکرم ﷺ نے یہ سورہ ختم
فرمائی لیکن رکوع نہیں فرمایااور تین مرتبہ اَللّٰھُمَّ! لَکَ الْحَمْدُ،
پڑھا۔ پھر سورۂ مائدہ شروع فرمادی۔ میں نے سوچا کہ سورہ مائدہ کے ختم پر
رکوع فرمائیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے سورہ مائدہ کے ختم پر رکوع فرمایا تو میں
نے آپ ﷺ کو رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعْظِیم پڑھتے سنا اور آپ اپنے
ہونٹوں کو ہلارہے تھے(جس کی وجہ سے) میں سمجھا کہ آپ ﷺ اس کے ساتھ کچھ اور
بھی پڑھ رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا اور میں نے آپ ﷺ کو سجدہ میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ الاعْلٰی پڑھتے سنااور آپ اپنے ہونٹوں کو ہلارہے تھے(جس
کی وجہ سے) میں سمجھا کہ آپ ﷺ اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھ رہے ہیں جس کو
میں نہیں سمجھ رہا تھا۔ پھر (دوسری رکعت میں ) سورۂ اَنعام شروع فرمائی تو
میں آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑکر چلا گیا،کیونکہ میں مزید رسول اﷲ ﷺ کے
ساتھ نماز پڑھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ (مصنف عبدالرزاق)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات‘ میں حضور اکرم ﷺ
کے ہمراہ نماز (تہجد) پڑھنے لگا، آپ ﷺنے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ میرے دل
میں ایک غلط چیز کا خیال آنے لگا۔ پوچھا گیا کہ کس چیز کا خیال آنے لگا۔ تو
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ خیال آیا کہ بیٹھ جاؤں یا
نماز کو چھوڑ دوں کیونکہ میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ اتنی لمبی نماز پڑھنے کی
ہمت نہیں کرپارہا تھا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبد اﷲ بن شخیررضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو نماز
پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے رونے کی ایسی مسلسل آواز آرہی تھی
جیسے چکّی کی آواز ہوتی ہے۔ (ابوداود )
وضاحت: حضور اکرم ﷺ اپنی نفل نماز میں قیام، رکوع اور سجدے بہت لمبے لمبے
کیا کرتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت بھی بہت اطمینان سے کیا کرتے تھے حتی
کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا مگر جماعت کے ساتھ آپ مقتدیوں کی رعایت
کرتے ہوئے زیادہ لمبی نماز نہیں پڑھاتے تھے۔
حضور اکرم ﷺکا نماز کے ساتھ جو خاص تعلق تھا اُس کا اندازہ اس سے بھی لگایا
جاسکتا ہے کہ مرض الوفات میں مرض کی شدت کے باوجود وفات سے چار دن پہلے
یعنی جمعرات کی مغرب تک تمام نمازیں آپ ﷺ خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ عشاء کے
وقت بیماری کی شدت کی وجہ سے مسجد جانے کی طاقت نہ رہی ، پھر بھی دو تین
مرتبہ غسل کیا تاکہ صحابۂ کرام کو عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھائیں مگر
ہر بار غشی طاری ہوگئی۔ بالآخر آپ ﷺ کے فرمان پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ
عنہ نے نماز پڑھائی۔ ہفتہ یا اتوار کو حضور اکرم ﷺنے جب اپنی طبیعت میں
بہتری دیکھی تو دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے
مسجد تشریف لائے۔ اگلے روز دوشنبہ کو حضور اکرم ﷺ انتقال فرماگئے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺکی زبان مبارک سے نکلا آخری
کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داود) ام
المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے آخری وصیت
یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز ، اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں
اﷲ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ ﷺ نے یہ وصیت فرمائی، آپ
ﷺکی زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)
غرض حضور اکرم ﷺ نے زندگی کے آخری لمحات تک نماز کا اہتمام فرمایا اور امت
کو بھی آخری وقت میں نماز کے اہتمام کرنے کی وصیت فرماگئے، یہ صرف نماز کے
ساتھ حضور اکرم ﷺ کا خاص تعلق اور شغف کا ہی نتیجہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ ہم کو
بھی آخری وقت تک نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین۔
اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا ہے، اس لئے
آپ ﷺ اپنی امت کی تکلیفوں کی بہت فکر کرتے تھے، مگر نماز میں سستی وکاہلی
کرنے والے کے متعلق حضور اکرم ﷺ کے ارشادات بہت سخت ہیں۔ اُس نبی رحمت کے
چند ارشادات پیش خدمت ہیں جن کا ہم نام لیتے ہیں تاکہ ہم اِن ارشادات کی
روشنی میں تاجدار مدینہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کا اہتمام کریں:
ہمارے (اہل ایمان) اور ان کے (اہل کفر)کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز
ہے، لہذا جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا۔ (مسند احمد، ابوداود، نسائی،
ترمذی، ابن ماجہ) نماز کا چھوڑنا مسلمان کو کفر وشرک تک پہنچانے والا ہے۔
(صحیح مسلم) جان کر نماز نہ چھوڑو، جو جان بوجھ کر نماز چھوڑدے وہ مذہب سے
نکل جاتاہے۔ (طبرانی) اسلام میں اُس شخص کا کوئی بھی حصہ نہیں جو نماز نہیں
پڑھتا ۔ (بزار) جو شخص فرض نماز چھوڑ کر سوتا رہتا ہے اُس کا سر (قیامت کے
دن) پتھر سے کچلا جائے گا۔ (بخاری) میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا
حکم دوں، پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو اُن کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔ (مسلم)
جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجـہ سے چھوڑ دئے، اﷲ تعالیٰ اس کے دل پر مہر
لگا دیتے ہیں۔ (نسائی، ترمذی)
اب رحمۃ للعالمین کے اُن فرمان کو بھی بغور پڑھیں جن میں نماز کا اہتمام
کرنے پر دنیا وآخرت کی کامیابی قرار دی ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض
فرمائی ہیں، جو ان نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی
قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اُس کو جنت میں ضرور
داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اﷲ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے
نہیں، چاہے اس کو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں ۔ (موطا مالک، ابن
ماجہ، ابوداود ، مسند احمد)
حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے
فرض نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران
ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر نماز
میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ
نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے
فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی۔ (ترمذی، ابن ماجـہ، نسائی، ابو داود، مسند
احمد)
آپ ﷺ نے چودہویں کے چاند کو دیکھا تو فرمایا: تم اپنے رب کو ایسے ہی
دیکھوگے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں ذرا بھی شک وشبہ نہ ہوگا، لہذا
تم سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے قبل کی نمازوں (یعنی فجر اور عصر) کا
ضرور اہتمام کرو۔ پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی : سورج کے طلوع اور غروب
ہونے سے پہلے اپنے رب کی پاکی بیان کر۔ (بخاری ومسلم) حضور اکرم ﷺ کے اِس
فرمان سے معلوم ہوا کہ نمازوں کی پابندی، خاص کر فجر وعصر کی نمازوں کے
اہتمام سے جنت میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہوگاجو جنت کی نعمتوں میں سب سے بڑی
نعمت ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے
لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور
قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں
کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ(اس کے پورے ایماندار ہونے کی)
کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن
فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، مسند
احمد، طبرانی، بیہقی)
حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نمازپڑھتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی
حفاظت میں آجاتا ہے ( لہذا اُسے نہ ستاؤ) اور اس بات کا خیال رکھو کہ اﷲ
تعالیٰ اپنی حفاظت میں لئے ہوئے شخص کو ستانے کی وجـہ سے تم سے کسی چیز کا
مطالبہ نہ فرمائیں کیونکہ جس سے اﷲ تعا لیٰ اپنی حفاظت میں لئے ہوئے شخص کے
بارے میں مطالبہ فرمائیں گے اس کی پکڑ فرمائیں گے پھر اسے اوندھے منہ جـہنم
کی آگ میں ڈالدیں گے۔ (مسلم)
خلاصۂ کلام: حضور اکرم ﷺ کا نماز سے شغف اور تعلق اتنا زیادہ تھا کہ ساری
کائنات میں سب سے افضل واعلیٰ حضور اکرم ﷺ کی قیمتی زندگی کا اچھا خاصہ وقت
اﷲ جل شانہ کے سامنے قیام، رکوع اور سجدہ کی حالت میں گزرا۔ اﷲ تعالیٰ ہم
سب کو حضور اکرم ﷺ سے سچی محبت کرنے والا، آپ ﷺ کی پاک سنتوں پر عمل کرنے
والا اور نبی رحمت کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کا اہتمام کرنے والا
بنائے، آمین۔ اگر ہم نماز تہجد اور دیگر نوافل کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں
تو گنجائش ہے لیکن کم از کم ہر مسلمان کو پانچوں فرض نمازیں ضرور بالضرور
پڑھنی چاہئیں، نیز ہر شخص کو اپنی ذات سے نمازکی ادائیگی کے ساتھ اس بات کی
فکرکرنی چاہئے کہ ہماری اولاد، ہمارے گھر والے اور دوست واحباب ومتعلقین
بھی پانچوں فرض نمازوں کی ادائیگی کرنے والے بن جائیں اور مرد حضرات فرض
نماز جماعت کے ساتھ اور خواتین گھروں میں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے والی
بنیں کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر
چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب
پینے سے بھی بڑا گناہ‘ نماز کا چھوڑنا ہے۔ |