بلدیاتی الیکشن کے پنجاب میں نتائج ۔نوجوان تحر یک انصاف سے ناراض ؟
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
پنجاب کے بارہ اضلاع میں ہونے
والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سیاسی پنڈتوں کو حیران وپریشان کر دیا
ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن سے امید واثق تھی کہ ن لیگ 60%اور پی ٹی آئی
40%تک سیٹیں جیتے گی۔لیکن بلدیاتی انتحابات نے پاکستان قوم کو ایک عجیب
مخمصے میں ڈال دیا ہے۔اور کپتان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنا کررہ گئی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پنجاب میں مسلم
لیگ ن پہلے، آزاد دوسرے، پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی۔ پنجاب کی 2696 میں
سے 1671 نشستوں کے نتائج آگئے جس کے مطابق مسلم لیگ ن نے 784 نشستیں جیت کر
برتری حاصل کرلی تھی جبکہ دیگر کامیاب امیدواروں میں آزاد 613، پی ٹی آئی
164، پی پی پی28، مسلم لیگ ق26 اور جماعت اسلامی اور عوامی تحریک نے دودو
نشستیں حاصل کیں۔ سندھ کی 1070 میں سے 777 نشستوں کے نتائج کے مطابق پیپلز
پارٹی نے 564 نشستیں حاصل کرکے برتری حاصل کرلی۔ 130 نشستیں آزاد امیدواروں
نے جیتیں۔ مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی کوئی نشست
حاصل نہ کرسکیں۔ جے یو آئی ف 11، مسلم لیگ فنکشنل کو50 نشستیں ملیں۔ پاک
پتن میں مسلم لیگ ن کے 43 امیدوار کامیاب ہوئے آزاد امیدواروں نے 38، تحریک
انصاف نے 9، عوامی تحریک نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ ن کے 17
امیدوار جیت گئے۔ آزاد امیدواروں نے 26 پیپلز پارٹی نے ایک نشست پر کامیابی
حاصل کی، 42 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے 9، پی ٹی
آئی نے 8 نشستیں حاصل کیں۔ گجرات میں مسلم لیگ ن نے 46 آزاد امیدواروں نے
33 پیپلز پارٹی نے 13، پی ٹی آئی نے 13 جب کہ دیگر امیدواروں نے 15 نشستیں
حاصل کیں۔ چکوال میں مسلم لیگ ن کے 8 امیدوار کامیاب ہوئے، 9 آزاد
امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ق لیگ نے 7 تحریک انصاف نے 2 نشستیں حاصل کی۔
ق لیگ نے 7 تحریک انصاف نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ وہاڑی میں مسلم لیگ ن نے 29
نشستیں حاصل کیں، 45 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ فیصل آباد میں مسلم لیگ ن
نے 73 نشستیں حاصل کیں۔ 102 سیٹوں آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔
تحریک انصاف کے 21 امیدوار کامیاب ہوئے۔ بہاولنگر میں مسلم لیگ ن نے 14
نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ آزاد امیدوار 62 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔سا بق ایم
این اے یوسف کسیلہ کے 3 بھائی بھی الیکشن ہار گئے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا
محمد اقبال کے دو بھانجے شکست سے دوچار ہوگئے۔ رائے مشتاق احمد خان کھرل کی
بھاری اکثریت سے جیت رائے مشتاق احمد خان کھرل چیئرمین اورفاروق ساجد وائس
یوسی سلیم پور پکا سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر بھاری ووٹوں سے جیت گئے جبکہ ان
کے مخالف سپیکر صوبائی اسمبلی رانا محمد اقبال کے دو بھانجے رانا تحسین
اخلاق اور رانا احسان اخلاق ہار گئے جبکہ اس کا ایک بیٹا بھی ہار گیا۔ سابق
گورنر سرور نے بلدیاتی انتخابات میں بھر پور محنت کی لیکن پی ٹی آئی نے
تھوک کے حساب سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے افراد کو اپنی پارٹی میں شامل
کیا اُس سے سنجیدہ مزاج کے افراد اور تبدیلی کی خواہاں نوجوان نسل مایوسی
میں ڈوبتی جا رہی ہے۔یوں پی ٹی آئی کی الیکشن جیتنے کی سیاست نے اُس کے
انداز سیاست پر کئی سوالات اُٹھا دیے ہیں ۔ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ
عمران خان کے مشیرا ن اکرام وہی ہیں جو مشرف اور زرداری کے تھے ۔نیا
پاکستان بنانے کی راہ میں نکلنے والے کپتان نے اپنے گرد لینڈمافیا قبضہ
گروپ اور روایتی سیاستدان جن کا مشن ہی سیاست بطور کاروبار ہے کو اکھٹا کر
لیا ہے۔ اِس لیے کالجوں یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم نوجوان کپتان کی سیاست
سے نالاں نظر آرہے ہیں۔جس کی وجہ سے حالیہ بلدیاتی انتحابات میں ن لیگ نے
پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ کر دیا ہے ۔عوام ن لیگ سے زیادہ خوش ہر گز نہیں ہیں
لیکن عمران خان کے انداز سیاست نے عوام کو ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبور کر
دیا ہے۔کہ کپتان کی سوچ کی سوئی پرویز مشرف زرداریوں اور چوہدریوں کے
حواریوں پر اٹکی ہوئی ہے ۔ پاکستانی معاشرئے میں تبدیلی کا ڈھونڈورا پیٹنے
کے علمبردار خود ہی کپتان سے مایوس ہیں۔کپتان کی حد سے زیادہ احتجاجی سیاست
اور میں نہ مانوں کی رٹ نے اُن کے موقف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اِس الیکشن
میں پاکستان عوامی تحریک اور ق لیگ بھی سکون سے بیٹھی رہیں ووٹروں نے اُن
کا حال تک نہ پوچھا ۔اور بھٹو خاندان کی پی پی پی سندھ میں بلدیاتی الیکشن
میں چھائی رہی لیکن پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں تو پیپلز پارٹی کے ووٹروں
کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔بلدیاتی الیکشن گلی محلے کے الیکشن ہیں اِن میں
زور وشور بہت زیادہ ہوتا ہے۔اِس الیکشن میں برادریاں بھی اہم کردار ادا
کرتی ہیں ۔لیکن 31اکتوبر 2015 کے بلدیاتی اداروں کے ممبران کے چناؤ نے سارا
وزن ن لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔اِس الیکشن میں گو کہ ن لیگ کو ٹکٹ دینے
کے مقابلے میں کافی پریشائی ہوئی ہے ایک ٹکٹ کے لیے کئی امیدوار تھے ۔دوسرا
کئی ن لیگی کارکن آزاد امیدوار کے طور پر بھی قسمت آزمانے میں لگے رہے ۔بہرحال
ن لیگ کو آزاد امیدواروں سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔راقم کے خیال میں تحریک
انصاف کو انداز سیاست میں تبدیلی لانی پڑئے گی کیونکہ تحریک انصاف کے مسلسل
دھاڑنے سے شائد ن لگے کے اندر مثبت تبدیلی تو آرہی ہے کہ اُسے بلدیاتی
الیکشن میں کامیابی ملی لیکن خود تھریک انصاف میں بہتری پیدا نہیں ہورہی۔
جناب عمران خان کو اپنے مخلص کارکنان جسٹس وجیہہ،عارف علوی جیسے لوگوں کی
بات سننی چاہیے۔
|
|