بہت اچھا لگا کہ جنرل راحیل شریف
نے سچے دوست سعودی عرب کے دفاع کا پرزور اعادہ کیا۔اس سے قبل وزیراعظم
پاکستان جناب نوازشریف چار روزہ دورۂ امریکہ کے بعد برطانیہ پہنچے۔ امریکہ
کے دورے کے لئے انہیں دعوت امریکی صدر باراک اوباما نے خود دی تھی لیکن جب
پاکستانی وزیراعظم اپنے خاندان اور کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ وہاں
پہنچے تو ہوائی اڈے پر انہیں خوش آمدید کہنے کے لئے کوئی جانا پہچانا
امریکی چہرہ نظر نہیں آیا۔ امریکی حکام کی جانب سے اس ’’استقبال‘‘ نے ثابت
کر دیا تھا کہ امریکی پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ دورہ امریکہ سے
پہلے کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت امریکہ کے
حوالے کریں گے۔ یہ ثبوت اس سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون
کے حوالے کئے گئے تھے لیکن جب ان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت
تو کجا معمولی جنبش بھی دیکھنے کو نہ ملی تو یہ ثبوت امریکہ کو دینے کا
فیصلہ ہوا۔ امریکہ کے چار روزہ دورے میں پاکستان کے حصے میں کیا آیا؟ کچھ
بھی واضح نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ امریکہ کی جانب سے بھارتی دباؤ قبول کرتے
ہوئے سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد
کشمیری مجاہدین کی ہر دلعزیز تنظیم لشکر طیبہ پر شکنجہ سخت کرنے کی بات
سامنے آئی اور بی بی سی نے تو یہ واویلا بھی مچایا کہ پاکستان نے پہلی بار
لشکرطیبہ کے خلاف عملی طور پر اقدامات کا وعدہ کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں
ہوا۔ اس کے بعد خبر آئی کہ امریکہ نے بھارت کے خلاف پاکستان کے ثبوت ماننے
ہی سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان میں جو ’’شورش‘‘ بپا ہے، اس
کے پیچھے بھارت نہیں بلکہ اس کے اپنے لوگ ہیں، لہٰذا پاکستان کو چاہئے کہ
وہ اپنے مسئلہ کو بھارت پر تھوپنے کے بجائے خود حل کرے۔ یوں امریکہ نے اس
دورہ میں پاکستان کو کوئی بہت مثبت پہلو نہیں دکھایا جبکہ امریکہ نے
پاکستان کو مسلسل دھمکی آمیز انداز میں حکم نامے ہی جاری کئے۔
امریکہ نے اس دورے کی دعوت اس موقع پر دی تھی جب افغانستان میں اس کا
14سالہ مشن مکمل تباہی اور ناکامی سے دوچار ہو چکا تھا۔ امارت اسلامی
افغانستان کے مجاہدین نے امریکی کٹھ پتلی حکومت کو گھٹنوں کے بل گرنے پر
مجبور کر دیا تھا اور 14سال بعد بھی افغان طالبان نے امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کے انتہائی جدید جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر تباہ کرنا اور ان کے
اعلیٰ عہدیداران کو ہلاک کرنا تیز کر دیا تھا۔ امریکہ تو طویل عرصہ سے
مانتا اور کہتا ہے کہ افغانستان میں اسے جو منہ کی کھانی پڑی اور تباہی و
بربادی کے ساتھ بدترین بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیچھے
پاکستان تھا۔ اعلیٰ ترین امریکی سول اور اعلیٰ حکام بار بار یہ باتیں کہہ
چکے تھے، سو اب کی بار امریکی صدر باراک اوباما ہی نہیں، دیگر امریکی حکام
نے بھی پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ کسی طرح افغان
طالبان کے ساتھ ان کے مذاکرات کیلئے بیچ کا کوئی راستہ نکال دے۔ جب طویل
مارا ماری کے بعد بھی امریکہ کو اپنی من چاہی منزل مقصود دکھائی نہ دی تو
اس نے پاکستان کو ایک بار پھر دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ ہم تو خیر اول
دن ہی سے یہ مانتے اور کہتے آئے ہیں کہ امریکہ سے کبھی کسی خیر کی توقع نہ
رکھی جائے۔ امریکہ کی پاکستانی مخالفت اور دشمنی کی انتہا دیکھئے کہ اب تو
اس نے مسئلہ کشمیر پر معمولی ثالثی تک سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ کی اول
دن سے کوشش یہی رہی ہے کہ وہ پاکستان کو بھارتی دباؤ میں رکھے اور اسے
بھارتی خوف میں مبتلا کر کے اس سے اپنی مرضی کے حکم منوائے لیکن اپنی اس
کوشش میں ہمیشہ ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو مزید روندنے اور رگیدنے
میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سچ ہی ہے کہ امریکی وہ ٹیڑھی دم ہیں جو
سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اگر امریکی ہم سے کچھ پریشان ہیں تو وہ ہمارا ایٹمی
اور دفاعی نظام ہے، پاکستان کے عوام اور پاک فوج کا جذبہ ایمان ہے جس کا
انہیں کوئی توڑ نظر نہیں آتا۔ سو پاکستان کو اب امریکہ کی جانب سے کسی بھی
لحاظ سے خیر کی توقع رکھے بغیر اپنے نئے اور اصل اتحادی بنانے چاہئیں۔
ہمارا اصل اتحادی اول دن سے سعودی عرب ہے جس نے تاریخ کے ہر لمحے اور ہر
گھڑی میں ہماری ہر طرح کی مدد کی۔ سعودی عرب نے بحرین کے بحران میں اپنے
عسکری دماغ اور صلاحیت کے ساتھ قابو پانے کے بعد جس طرح یمن میں کامیاب جنگ
لڑی ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ یہ ملک ہی مسلم دنیا کا قائد و رہنما ہو سکتا
ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سعودی عرب کے امن کو تہ و بالا کرنے، وہاں کے شرعی
نظام کو ختم کرنے اور حرمین شریفین کو غیر محفوظ بنانے کے لئے طویل سازش چل
رہی تھی۔ سعودی حکمرانوں نے جس طرح ان ساری سازشوں کو بھانپ کر ناکام بنایا،
اس کی مثال آج کی دنیا میں نہیں ملتی۔ عالمی طاقتوں کے حمایت یافتہ حوثی
باغیوں کو جس طرح شکست فاش سے دوچار کیا جا رہا ہے وہ ایک روشن مثال ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ دنیا کا کوئی ملک تو کجا، کوئی ایک شخص بھی کھلے عام
مدد و حمایت کا نام لینے والا نہیں تھا لیکن ان کے خلاف امریکہ اپنے
48اتحادیوں، بے پناہ دولت اور بے محابا ٹیکنالوجی کے باوجود ناکام ہوا،
لیکن سعودی عرب عالمی طاقتوں کے پروردہ حوثیوں کو شکست دے کرقانونی حکومت
کو بحال کر چکا ہے۔ سعودی عرب کی اس حکمت عملی اور قیادت کی وجہ سے عالم
عرب کے بعد افریقی و دیگر مسلم ممالک بھی اس کے پرچم کے نیچے جمع ہیں۔
پاکستان کو اس وقت امریکہ کو بھی سعودی عرب جیسے دوست کی طرف ہاتھ بڑھانے
کی ضرورت ہے جس نے خود کو مسلم دنیا کی قیادت کا اہل ثابت کیا ہے۔ کہا جاتا
تھا کہ امریکی حکومت سعودی عرب کی حمایتی اور اتحادی ہے لیکن امریکی کیسے
دغاباز اور آستین کے چھپے سانپ ہیں کہ انہوں نے حوثی باغیوں یا شام کے بشار
الاسد پرکبھی حملہ نہیں کیا۔ وہ حوثیوں اور بشار الاسد کے خلاف بیان بازی
تو اب بھی کرتے ہیں لیکن عملاً وہ ان کے ساتھ ملے ہوئے اور سعودی عرب کے
مخالف ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ
بھی ہمارے سامنے ہے کہ امریکہ ہ یا یورپی طاقتیں،سبھی خود ریاض کی ریاضت
کرتی ہیں۔ہمارے حکمران جن ملکوں کے دوروں کو ترستے ہیں اور وہاں ویزے لے کر
داخل ہوتے ہیں انہی ملکوں کے سربراہان سعودی عرب کے خود چکر لگاتے
ہیں۔گزشتہ ایک ماہ کا ہم اپنے آپ اور سعودی عرب کا تقابل کر لیں،سب حقیقت
آشکار ہوجائے گی کہ عزت کیسے اور کسے ملتی ہے۔سچ تو یہی ہے کہ سعودی عرب کی
زیر قیادت پاکستان کی ایٹمی و فوجی قوت یکجان ہو کر ہمیں ایک ایسی نئی قوت
بخش سکتا ہے کہ جو ہمارے سارے مسائل کے حل کیلئے کافی ہو گی۔ یمن کی جنگ
میں سعودی عرب کے سینکڑوں شہری، فوجی بلکہ دو اعلیٰ ترین جنرل بھی جام
شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ جنرل پیچھے بیٹھ کر تماشا دیکھنے اور محض حکم
جاری کرنے والے نہیں تھے بلکہ اگلے مورچوں پر لڑنے کے لئے وہاں بذات خود
موجود تھے۔ اس سے سعودی لوگوں کی جرأت و بہادری کو سمجھا جا سکتا ہے۔نجران
شہر پر روز حوثیوں کے مارٹر اور میزائل گرتے ہیں لیکن سعودی لوگ وہیں کے
وہیں موجود ہیں۔ یہ بہادر عرب قوم کی تاریخ ہے جو آج ایک بار پھر ہمارے
سامنے آئی ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب کے ساتھ سچی اور حقیقی دوستی شروع کر
دے تو بھارت کو بھی بآسانی پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم
متذبذب رہے تو ہمارے دوست ہم سے ناراض بھی ہوتے جائیں گے اور ہم جن
امریکیوں کو اپنا دوست خیال کئے بیٹھے ہیں وہ ہمیں ہمیشہ کی طرح دھوکے سے
بھارت کے ہاتھوں مرواتے ہی رہیں گے۔سدورۂ امریکہ نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ
باتوں کا نہیں لاتوں کا بھوت ہے اور ہمیں اسے بھی پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کر
آگے بڑھنا اور حقیقی دوستوں کی جانب لپکنا ہو گا۔ |