اس میں شک نہیں کہ اگر گزشتہ سال
کاقومی انتخاب مغل اعظم تھا تو حالیہ بہار الیکشن شعلے ہے۔ بہار کا انتخاب
فی الحال زبردست بلاک بسٹر ’’شعلے‘‘ کی طرح مقبول عام ہے اور اسی کی مانند
تفریح کا سامان بھی کررہا ہے۔ شعلے کے کرداروں کا اگر بہار کے انتخابی بساط
پر برسرِ جنگ مہروں سے موازنہ کیا جائے تو وہاں بھی زبردست مشابہت نظر آتی
ہے ۔ شعلے کی کہانی میں گبرّ سنگھ نامی ڈاکو ٹھاکر بلدیو سنگھ کے دونوں
ہاتھ کاٹ کر اسے اپاہج بنا دیتا ہے۔ گبرّ سے بدلہ لینے کی خاطر ٹھاکر، ویرو
اور جئے کو اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے۔ پچھلے قومی انتخابات میں مودی نے راہل
کا وہی حال کردیا جو گبر نے ٹھاکر کا کیا تھا۔ بہار میں نریندر مودی سے
بدلہ لینے کی خاطر راہل گاندھی نے لالو اور نتیش کواپنے ساتھ لے لیا۔ ان کے
مدمقابل مودی کے ساتھ سانبھا اور کالیا کی جگہ امیت شاہ اور رام ولاس
پاسوان موجودہیں ۔
ان کرداروں کے مزاج کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بھی زبردست مماثلت نظر
آتی ہے۔ کوئی ٹھاکر کی طرح خاموش طبع ہے تو کوئی گبر کی مانند چیخ پکار
کرنے والا۔ لالو کے اندر ویرو کی شوخی ہے تو نتیش میں جئے کی سنجیدگی۔ بے
حس اور بے وزن سانبھا اور اور کالیا کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ
نہ کام کے نہ کاج کےبس نو من اناج کے۔اب اگر آپ پوچھیں کہ مانجھی اور
شاہنواز حسین کا کیا ؟ تو آپ کو انگریز کے زمانےکے جیلر اور سورما بھوپالی
یاد نہیں ؟ اس کھیل میں ان دونوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے ۔جن لوگوں
کو شعلے کا انجام یاد ہے ان کیلئے بہار انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں ہے اکثر کہانیاں حقائق کی ترغیب سے جنم لیتی
ہیں لیکن کبھی کبھار افسانہ بھی حقیقت بن کر نمودار ہو جاتا ہے۔
بہار کے انتخابی نتائج کا جو اندازہ عام لوگ لگا رہے ہیں گبر ّ اور سانبھا
کی رائے بھی اس سے مختلف نہیں ہے لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ دوران جنگ
اسے تسلیم نہیں کرسکتے ۔ اگر وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کردیں تو ان کی شکست
اور زیادہ بھیانک ہوجائیگی ۔ وہ تمام لوگ جو فریب خوردگی کے سبب ان کے دامن
سے چمٹے ہوئے ہیں اپنا دامن جھٹک کر رفو چکر ہو جائیں گے ۔ بہار کے مرحلہ
وار انتخابی مہم میں بی جے پی کا باربار پینترا بدلنا اس کا عدم اعتماد اور
انتشار فکر ظاہر کرتا ہے ۔ پہلے جو ۶ ٹی وی سروے سامنے آئے تھے ان میں سے
۳ نے این ڈی اے کی کامیابی کی پیشن گوئی کی تو ۳ عظیم اتحاد کے حق میں تھے
لیکن اب چوتھے مرحلے کی پولنگ سے قبل آئی بی کے مطابق قومی جمہوری محاذ کو
صرف ۷۰ سے ۷۵ جبکہ مہا گٹھ بندھن کو ۱۵۰ سے ۱۵۵ نشستیں ملنے کی توقع ہے۔
آئی بی چونکہ مرکزی حکومت کے تحت کام کرتا ہے اس لئے وہ اپنے آقاوں کے
خلاف رپورٹ دینے کی جرأت آسانی سے نہیں کرسکتا لیکن اپنے بچاو کی خاطر اس
نے اپنا فرض منصبی جیسے تیسےادا کر ہی دیا۔
بہار میں دراصل بی جے پی کا مہورت ہی غلط نکلا۔ مودی جی کا ڈی این اے والا
فقرہ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ۔ ایک طرف لوگ اپنے ناخون کے سیمپل ڈی این اے
ٹسٹ کیلئے بھیجنے لگے اور دوسری طرف الفاظ واپس لو کی تحریک چل پڑی ۔ یہیں
سے بہاریوں کی تحقیر وتضحیک کے خلاف عزت و وقار کی بحالی کی مہم شروع ہوگئی
جس نے بہار بمقابلہ مرکز کا ماحول بنا دیا ۔اس مسئلہ کا امیت شاہ کے پاس
نہایت آسان حل تھا ۔ وہ نتیش اور لالو کے سامنے اپنی بہاری فوج میدان میں
اتار دیتے۔ فی الحال این ڈی اے کے پاس جتنے معروف بہاری چہرے ہیں ماضی میں
کبھی نہیں تھے۔ بہار کے صوبائی انتخاب کے پیش نظر اول تو پانچ بہاریوں کو
مرکز میں وزارت سے نوازہ گیا اور اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا تو توسیع میں
ایک اور بہاری کو شامل کرلیا گیا۔ ان کے علاوہ چونکہ بہار میں بی جے پی
تقریباً ۹ سالوں تک اقتدار میں حصہ دار رہی ہے اس لئے سشیل کمار مودی جیسے
کئی ریاستی رہنماوں کو بھی مشہور ہونے کا موقع ملا ۔بہار میں بی جے پی کے
پاس شتروگھن سنہا جیسا بہاری فلمی ستارہ بھی موجود ہے ۔
یہ سارے لوگ مل کر بڑی آسانی سے ڈی این اے کےمضر اثرات کو زائل کرسکتے تھے
لیکن بی جے پی کی یہ ’’ دھرم ویر‘‘ کی جوڑی اپنے علاوہ کسی اور کچھ سمجھتی
ہی نہیں ۔امیت شاہ نے سارے علاقائی رہنماوں کو کچرے کی ٹوکری میں ڈال کر
خود کمان سنبھال لی اور مودی جی کو میدان میں اتار دیا جس سے کام اور خراب
ہوگیا ۔ مودی جی کے بہار کو گجرات بنانے کے نعرے سے بات اور بگڑ گئی اس لئے
کہ اب بہاری بمقابلہ گجراتی کی جنگ چھڑ گئی ۔ اس سے ڈی این اے والا معاملہ
سمٹنے کے بجائے طول پکڑ گیا۔ گزشتہ سال تک گجرات کے بارے میں کہا جانے
والاہر جھوٹ ملک بھر میں بک جاتا تھا اس لئے کہ ’’جنگل میں مور ناچا کس نے
دیکھا‘‘ لیکن اب لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۱۶ ماہ سے مودی ہندوستان بھر
پر حکومت کررہے ہیں اور ان کی سربراہی میں ’’گھر کی دال مرغی کے برابر ‘‘
ہوگئی ہے۔ وزیراعظم آسمان کی سیر کرتے ہیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں
کرتےہوئے ان سےکہتی ہے ’’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کیلئے‘‘۔ جب عوام ہلہّ
مچاتے ہیں تو وزیراعظم کہتے ہیں ’’ہم آپ کے ہیں کون؟‘‘
بی جے پی کا اصل مسئلہ عدمتحفظ کا خوف ہے۔ امیت شاہ اور مودی جی جانتے ہیں
کہ وہ تنظیم کے اندر فطری انداز میں آگے بڑھتے ہوئے ان عہدوں پر نہیں
پہنچے۔ وزیراعظم نے پہلی بار ایوانِ پارلیمان میں قدم رکھا تو وہ وزیراعظم
تھے ۔ پارلیمانی امور کا تجربہ بالکل بھی نہیں تھا اس کے باوجود حالات کچھ
اس طرح کے بنے کہ قیادت کاتاج ان کے سر پر آگیا۔ بی جے پی کو دوسری سیاسی
جماعتوں پر یہ امتیاز ضرور حاصل ہے کہ وہ کسی خاندان کی اجارہ اداری نہیں
ہے ۔ اس کا اپنا کیڈر ہے اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ اپنی تمام تر خرابیوں کے
باو جود انتخابی عمل کے ذریعہ وجود میں آتا تھا ۔ اس میں کسی فرد ِ خاص سے
وفاداری کے بجائے سنگھی نظریہ سے تعلق کو اہمیت دی جاتی تھی لیکن اقتدار
میں آنے کے بعد سب سے پہلے اٹل جی ایک اپنے ایک نامعلوم وفادار بنگارو
لکشمن کو پارٹی کا صدر بنایا۔ اس کے بعد اڈوانی جی کو ہٹنا پڑا تو انہوں
نےپارٹی کی صدارت اپنے معتمدِ خاص راج ناتھ کے حوالے کی اور مودی جی نے بھی
اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے قابلیت کے بجائے وفاداری کی بنیاد پر ایک بے
صلاحیت آدمی کو پارٹی کا صدر بنا دیا۔ اس سے پہلے چونکہ بنانے والا اور
بننےوالا کا تعلق مختلف علاقوں سے ہوتا تھا اس لئے کم ازکم علاقائیت کی بو
نہیں تھی مگر مودی جی نےامیت شاہ کو صدارت کے عہدے پر فائز کروا کر یہ
الزام بھی اپنے سر لے لیا۔
ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کو ایک دوسرے کے علاوہ کسی اور پر
اعتماد نہیں نیز باقی تمام لوگ بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ بی جے
پی کے مقامی رہنماوں کے درمیان پائی جانے والی نااتفاقی کے سبب وہ لوگ
وزیراعلیٰ کے امیدوار پر اتفاق نہیں کرسکتے ۔ اقتدار کی ہوس نے انہیں اس
قدر خود غرض بنا دیا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے بجائے جڑ کاٹنے
میں مصروف رہتےہیں ۔ اس صورتحال میں پارٹی کا صدر یہ کرسکتا ہے کہ ان سب کے
ساتھ بیٹھ کر کسی ایک نام پر اتفاق رائے کرادے لیکن وہ خود ایسا نہیں چاہتا۔
وہ نہیں چاہتا کہ زمینی سطح کے رہنما اس قدر مضبوط ہو جائیں کہ ان کا
انحصار پارٹی کے بڑے رہنماوں کے اوپر نہ رہے۔ قومی انتخاب کے بعد ہاتھ آنے
والی مہاراشٹر اور ہریانہ کی کامیابی نے ان کا دماغ خراب کردیا ۔ ان لوگوں
کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ ہم اپنے بل بوتے پر انتخاب جیت سکتے ہیں
اور کسی بھی نامعلوم آدمی کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا کر اس سے اپنی
مکمل تابعداری کرواسکتے ہیں۔ دہلی میں جب دیکھا کہ کیجریوال کے سامنے
وزیراعلیٰ کا امیدوار ناگزیر ہے تو دہلی کے سارے دُھرندر رہنماوں کو کنارے
کرکے کرن بیدی کو درآمد کیا گیا جو بی جے پی کو تو کیا جتاتی خود اپنی سیٹ
ہار گئی ۔
اس دوران بی جے پی کے ستارے برابر گردش میں رہے ۔ دادری کا واقعہ پیش آیا
۔ اول تو اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر بڑے رہنماوں نے خاموشی اختیار کی اور
ٹٹ پونجئے لیڈروں کو فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے کی اجازت دی گئی لیکن جب
پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اس کی مذمت کرکے معاملے کو رفع دفع کیا گیا اور
پھر سے ترقی و خوشحالی کا نعرہ بلند کیا گیا ۔اس نعرے میں مفلوک الحال
پسماندہ ذات کےلوگوں کو ضرور دلچسپی ہے ۔خوشحال اور پڑھے لکھے سورن جانتے
ہیں بہار کی خوشحالی کیلئے نتیش کمار نے جو کچھ کیا ہے اور جو آگے کرسکتے
ہیں وہ نہ نریندر مودی کے بس کا روگ ہے اور نہ سشیل مودی کے بس کا کام ہے۔
اس لئےانہیں مودی جی کا ترقی و خوشحالی کا نعرہ پر کشش نہیں لگتا۔ ان
سورنوں کو رجھانے کیلئے موہن بھاگوت نے ریزرویشن پر دوبارہ غوروخوض کی بحث
چھیڑ دی ۔
اس سودے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا ۔ لالو اور نتیش نے اب اس لڑائی
کو بہار کا وقار یا بہاری اور باہری سے آگے بڑھا کر پسماندہ اور سورنوں کی
مہا بھارت بنا دیا ۔ اس دوران ہریانہ میں پہلے تو د لت بچوں کے زندہ جلائے
جانے کا واقعہ رونما ہوگیا اور پھر اس کے بعد وی کے سنگھ نے کتے کی مثال دے
کر اس آگ میں تیل ڈال دیا ۔ ابھی یہ شعلے بجھے بھی نہیں تھے کہ ہریانہ ہی
میں پولس کی حراست کے اندر ایک دلت نوجوان کی موت کا واقعہ سامنے آگیا ۔
اس ہلاکت کو حکومت نے خودکشی قرار دیا لیکن اس پر یقین کرنا مشکل تھا اور
اگر یہ بات درست بھی ہو تب بھی یہ پولس کی کوتاہی میں شمار ہوگا کہ اس کے
سامنے کوئی خودکشی کرلے اور وہ اسے روک نہ سکے۔ ان واقعات کے بعد بہار کے
اندر گجرات کے بجائے ہریانہ کا ماڈل زیر بحث آ گیا ۔ جتن رام مانجھی تک کو
اپنی لٹیا ڈوبنے سے بچانے کیلئے اس کی مذمت کرنی پڑی ۔ جب بی جے پی
کیساریچالیںناکامہوگئیں تو نتیش کی ڈیڑھ سال پرانی تانترک والی ویڈیو کو
پھیلایا گیا اور لالو کے کالا مرغا ذبح کرنے کی افواہ اڑائی گئی لیکن اس سے
بھی بات نہیں بنی۔
بہار کا جغرافیہ کچھ اس طرح کا ہے اس کے مشرقی علاقہ میں مسلمانوں کی بڑی
آبادی ہے اور اس خطے میں رائے دہندگی چوتھے اور پانچویں مر حلے میں ہونی
تھی ۔ یہاں پہنچتے پہنچتے بی جے پی کے اویسی کے علاوہ سارے مہرے پٹ چکے تھے
۔ ایسے میں وہ ’’ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘‘ بھول کر فرقہ پرستی کی آغوش
میں پناہ گزین ہوگئی۔ اب بی جے پی کا ہدف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر
ہندو رائے دہندگان کو اپنا ہمنوا بنانا تھا ۔ اس مقصد کیلئے پہلے تو یہ کہا
گیا کہ نتیش اور لالو دیگر پسماندہ ذاتوں کو ریزویشن سے محروم کرکے
مسلمانوں کو دے دینا چاہتے ہیں بلکہ وزیراعظم نے چوری تک کے الفاظ استعمال
کئے۔ اس کے بعد نتیش اور لالو پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بھی لگا
دیا گیا۔ اس بابت جاری کئے گئے اشتہارات پر الیکشن کمیشن بھی خاموش نہیں رہ
سکا بلکہ اس نے آگے بڑھ مذمت کی اور پابندی لگادی جو کسی بھی برسرِ اقتدار
جماعت کیلئے شرم سےڈوب مرنے کا مقام ہے۔
الیکشن کمیشن کی پھٹکار کے باوجود امیت شاہ باز نہیں آئے بلکہ انہوں نے
پاکستان کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ انہوں نے کہا اگر بہار میں خدا نخواستہ مہاگٹھ
بندھن کامیاب ہوجائے تو پاکستان میں پٹاخے چھوٹیں گے ۔ اس بیان میں جہاں
مہا گٹھ بندھن کی کامیابی کے امکان کا اعتراف تھا وہیں اور بھی کئی سوالات
پوشیدہ تھے ۔ مثلاً اگر پاکستان کی خوشی اور ناراضگی کی بی جے پی کو اتنی
فکر ہے تو مودی جی نے اپنی حلف برداری میں نواز شریف کو دعوت کیوں دی تھی؟
اٹل جی نے بس سے پاکستان کا سفر کیوں کیا تھا ؟ اور خود مودی جی پاکستان
جانے کیلئے کیوں پھڑ پھڑا رہے ہیں ؟ رادھا موہن سنگھ نے کہہ دیا کہ لالو
اور مودی پر جناح کا جن سوار ہے جب کہ وہ بھول گئے کہ جناح کی قبر پر جاکر
خراجِ عقیدت پیش کرنے کے سبب اڈوانی جی کو صدارت گنوانی پڑی تھی ۔ سشیل
کمار مودی کو یاد آگیا کہ نتیش کمار نے ۲۰۰۵ میں پاکستان کا دورہ کیوں
کیا تھا ؟ اگر وہ کوئی گناہِ عظیم تھا تو بی جے پی نے اقلیت میں ہونے کے
باوجود نتیش کمار کو وزیراعلیٰ کیوں بنایا اور وہ خود ان کے نائب بن کر
جوتیاں کیوں سیدھی کرتے رہے؟
پاکستان کا جِن بھی بی جے پی کیلئے ڈی این اے جیسی مصیبت بن گیا جب تکنیکی
صلاحیت میں اضافے کے وزیر راجیو پرتاپ روڈی نے یہ انکشاف کردیا کہ نتیش
کمار نے پاکستان کے آن لائن اخبار ڈان میں اپنا اشتہار جاری کیا ہے۔ روڈی
نے ویب پیج کی جو تصویر ذرائع ابلاغ کو دکھلائی اس میں اشتہار سے متعلق
وضاحت تھی کہ وہ گوگل کے ذریعہ ڈالا گیا مفت کا اشتہار ہے ۔ اس پر نتیش نے
سوال کردیا کہ جو وزیر خود اتنا بڑا جاہل ہے کہ وہ نہیں جانتا گوگل کے مفت
اشتہارات کس طرح دکھلائے جاتے ہیں وہ دوسروں کی صلاحیت میں کیا اضافہ کرے
گا۔ نتیش نے ڈان کے گزشتہ سال کے آن لائن کی تصویر بھی لوگوں کو دکھلائی
جس میں گوگل کی مہربانی سےمودی اور راج ناتھ دونوں نظر آرہے تھے۔ خیر اب
پانچواں اور آخری راونڈ باقی ہے بی جے پی کو خوف ہے کہیں اس کی حالت ممبئی
میں کھیلے جانے والے پانچویں اور آخری ون ڈے کی طرح نہ جسے شیوسینا بھی
نہیں بچا پائی تھی ۔
امیت شاہ کے بیان سے متاثر ہو کر ٹائمز آف انڈیا میں اجیت نینان نے کارٹون
بنایا جس میں ایک پاکستانی کسٹم آفیسر کے سامنے دو نقاب پوش دہشت گرد کھڑے
ہیں اور ان کے درمیان دیوالی کی پھلجڑیوں کا بکس رکھا ہے ۔ دہشت گرد کہہ
رہے ہیں یہ تحفہ ہمیں امیت شاہ نے بھجوایا ہے ۔ دراصل پاکستانی دہشت گردوں
کو کیا معلوم کہ کلیان ، کولہاپور یا وارانسی اور بجنور کہاں ہے ؟ ان لوگوں
نے یہ سوچ کر کے یہ سب بہار میں ہی ہیں ان پٹاخوں کو استعمال بھی کرلیا
ہوگا۔ کلیان ڈومبیولی میں وزیراعلیٰ فردنویس کے سارا زور لگانے کے باوجود
بی جے پی کو صرف ۴۲نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ شیوسینا نے ۵۲ مقامات پر
کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح کولہاپور میں جہاں کانگریس کو ۲۷ اور این سی پی
کو ۱۵ نشستیں ملیں بی جے پی کو محض ۱۲ پر اکتفا ء کرنا پڑا۔ امیت شاہ کو جس
اترپردیش کا چانکیہ سمجھا جاتا ہے اس کے بجنور ضلع کے پنچایت کے نتائج ظاہر
ہورہے ہیں۔ اس حلقۂ انتخاب سے ۲۰۱۴ میں بی جے پی امیدوار کو ۴۶ فیصد ووٹ
ملے تھے لیکن اب کی بار بی جے پی ۵۷ میں سے صرف ۴ میں آگے چل رہی ہے۔ مودی
جی نے وارانسی کے اندر جیا پور نام کا گاوں گود لے رکھا ہے اس میں بی جے پی
کے امیدواررنکو سنگھ ہار گئے ۔وارانسی کے ۵۸ میں ۸ لکھنو کے ۲۸ میں سے ۴
اور دیوریہ کے ۵۶ میں ۷ یہ بی جے پی کا حال ہے ۔ لگتا ہے اگلی بار مودی جی
کو کوئی محفوظ حلقۂ انتخاب تلاش کرنا پڑے گا۔ ایسے میں راجناتھ کا یہ کہنا
کہ بہار کے نتائج جو بھی آئیں امیت شاہ کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا
جائیگا معنیٰ خیز ہوجاتا ہے ۔ شاید وہ کہنا چاہتے ہیں کہ بے چارےسانبھا کو
بلی کا بکرہ بنانے سے کیا حاصل اگر ہٹانا ہے ہی ہے تو گبرّ کو ہٹاو۔
انتخابی سیاست میں تو ’’کبھی خوشی کبھی غم ‘‘ کا معاملہ ہوتا رہتاہے ۔ بی
جے پی کا یہ حشر صرف بہار میں نہیں ہوا بلکہ کشمیر کی وادی میں بھی کمل کے
پھول کو’’زنجیر‘‘ نے جکڑ لیا تھا لیکن جموں کے نتائج نے ’’ مقدرکا سکندر‘‘
بن کرلاج رکھ لی ۔ اس کے بعد دہلی میں ایک جھاڑو نے ان کی ’’دیوار‘‘ گرادی
اور وہ ۳۱ سے ۳ پر پہنچ گئی ۔ مثل مشہور ہے ’’سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہے
‘‘،اگر پردھان سیوک اس نوشتۂ دیوار کو پڑھ لیتے تو ازخودبہار کے ’’شعلے‘‘سے
گریز کرتے۔ مگر بزرگوں نے بہت سوچ سمجھ کر اشارہ سمجھنے کیلئے سمجھداری کی
شرط لگائی ہے۔ ویسے اس ناسمجھی میں خیرِ کثیر ہے ۔ اگر یہ سلسلہ دراز رہا
تو کوئی ’’دبنگ ‘‘ بی جے پی کے کام نہیں آئیگا اور یہ ’’رام شیام ‘‘ کی
جوڑی بار بارفلاپ ہوتی جائیگی یہاں تک کہ اگر وہ ’’میرا نام جوکر‘‘ بھی
بنائیں گے تو چل نہیں پائیں گے۔ جب ’’بازیگر‘‘ کی ’’ہیرا پھری‘‘ نہیں چلے
گی تو ملک سے ’’ڈر‘‘ کا ماحول ختم ہو جائیگا۔ ’’لگان‘‘کی ’’غلامی‘‘ سے ’’آزاد‘‘
ہونے کا عوامی ’’سنگھرش ‘‘ رنگ لائے گااور ڈیڑھ سال بعد اتر پردیش میں بھی
’’دل (سائیکل) والے (اقتدار کی ) دلہنیا (اپنے ساتھ ) لے جائیں گے‘‘۔ کمل
والے دیکھتے رہ جائیں گے۔ |