ثقب اسود ، مادے کی ایک بے پناہ کثیف و
مرتکز حالت ہے جسکی وجہ سے اسکی کشش ثقل اسـقدر بلند ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی
شے اسکے افق وقیعہ (Event Horizon) سے فرار حاصل نہیں کرسکتی ، ماسوائے
اسکے کہ وہ کمیتی سرنگ گری (Quantum Tunnelling) کا رویہ اختیار کرے (اس
رویہ کو Hawking Radiation بھی کہا جاتا ہے۔
ثقب اسود کا لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے ثقب ، جسکے معنی چھید یا سوراخ کے ہیں
اور اسود ، جسکا مطلب ہے سیاہ یا کالا—گویا عام الفاظ میں ثقب اسود کو،
سیاہ سوراخ کہا جاسکتا ہے۔ ثقب اسود کو انگریزی میں Black Hole کہتے ہیں۔
ثقب اسود میں موجود مادے کا دائرہ ثـقـل اسقدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس
دائرے سے نکلنے کے ليے جو رفتار (سمتی رفتار - velocity) درکار ہوتی ہے وہ
روشنی کی رفتار (speed of light) سے بھی زیادہ ہے اور چونکہ روشنی کی رفتار
سے تیز کوئی شے نہیں لہٰذا اسکا مطب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے، ثـقـب اسـود سے
نکل نہیں سکتی فرار حاصل نہیں کرسکتی، یہاں تک کے روشنی بھی اسکے افق وقیعہ
کے دائرہ اثر سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔
گو ثقب اسود کی اصطلاح رائج الاستعمال تو ہے لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے
واضع ہے کہ اصل میں یہ کوئی ثقب یا سوراخ نہیں بلکہ خلا (اسپیس) میں مادے
کی کثافت کا ایک ایسا مقام ہے کہ جس سے کسی شے کو فرار حاصل نہیں۔
ثقب اسود کی موجودگی کی شہادت مختلف ھیئتی (Astronomical) مشاہدات سے ملتی
ہے، بطور خاص ایکسرے اشعاعی مشاہدات۔
تاریخ
ایک ایسے جسم کا تصور کہ جس کی کشش سے روشنی سـمیت کائنات کی کوئی شے فرار
نہ ملے، جغرافیہ دان John Michell نے 1783 میں رائل سوسائٹی کے ليے لکھے
گئے ایک مقالے میں کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ثقل کا نیوٹنی نظریہ اور سرعت
فرار (escape velocity) تخیلات اپنی جگہ بناچکے تھے۔ مائکل نے حساب کتاب کے
گھوڑے دوڑائے کہ اگر سورج سے 500 گنا بڑی جسامت کا کوئی ایسا کائناتی جسم
جسکی کثافت بھی اتنی ہی ہو جتنی کے سورج کی اور اسکی سطح پر سرعت فرار،
روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے تو وہ غیر مرئی (invisible) یعنی موجود
ہوتے ہوئے بھی غائب ہوجائے گا۔
اسکے اپنے الفاظ کے مطابق ۔۔۔۔۔
اگر کسی کرہ کی کثافت اتنی ہی ہو جتنی کہ سورج کی اور اسکا نـصـف قـطـر
سورج کے مقابلے میں 1 کی نسبت 500 تک بڑھ جائے تو ایک لامحدود بلندی سے
اسکی جانب گرنے والا کوئی جسم، اسکی سطح پر آکے روشنی سے زیادہ سرعت (سمتی
رفتار) حاصل کر لے گا، اور اسی طرح اگر یہ فرض کیا جائے کہ اسی قوت کے ساتھ
روشنی کو بھی اسکے جمود (انرشیا) کے مقابلے پر کشش کیا جائے گا تو، دوسرے
اجسام کے ساتھ ساتھ، ایسے جسم سے نکلنے (پھوٹنے) والی تمام روشنی کو اسکی
ثقل مخصوصہ کے تحت اسی کی جانب واپس پلٹا دیا جائے گا۔
گو کہ اس نے اس کو بعید از امکان کہا لیکن اس نے کائنات میں ایسے کسی جسم
کی موجودگی کے امکان کو کہ جس کو دیکھا نا جاسکے یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔
سادہ جائزہ
زیادہ تر سیارے اور اجرام فلکی پائدار اور مستحکم حالت میں ہوتے ہیں کیونکہ
برقات کے درمیان پائی جانے والی پالی قوت کی وجہ سے جوہر منہدم ہونے سے
محفوظ رہتے ہیں جبکہ ثقل، برقناطیسیت اور قوی تفاعل کی قوتیں انہیں باندھ
کر رکھتی ہیں اور ان تمام قوتوں کے توازن کی وجہ سے ہی تمام مادے اپنی ساخت
کو قائم اور مستقل رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتہائی حالات پیدا
ہوجائیں، جیسے کہ کثیر المقدار مادہ کسی قلیل جگہ میں سمو دیا جائے تو پھر
ثقل (gravity) دوسری تمام قوتوں سے حد سے زیادہ بڑھ کر جیت جاتی ہے اور
ایسی صورت میں اوپر بیان کردہ قوتوں کا توازن ختم ہوجاتا ہے۔
اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برقات اور جوہروں کے مرکزوں کے درمیان مقررہ
فاصلہ باقی نہیں رہتا اور ایک طرح سے وہ جیسے مرکزوں کی جانب منہدم ہوجاتے
ہیں یا سادہ سے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ گویا جوہر پچک گئے ہوں اور
نتیجتاً ظاہر ہے کہ وہ مادہ بھی پچک جاتا ہے اور بے انتہا کثیف ہو جاتا ہے
(اس قسم کے مادے کے ليے Neutronium نامی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے)
اب اگر اسی قدر جگہ (جو اوپر فرض کی گئی تھی) میں یہی صورت حال مادے کی ایک
نہایت ہی بڑی مقدار کے ساتھ پیش آجائے تو مرکزیہ جات (nucleons) تک کے
درمیان پائی جانے والی پالی قوتیں تک کشش ثقل کی طاقت کے سامنے بے بس
ہوجاتی ہیں اور یوں تمام مادی جسم، خود اپنے ہی اندر منہدم ہوجاتا ہے یا
سمٹ جاتا ہے جسکے نتیجے میں ثقب اسود یا black hole کی پیدائش واقع ہوتی
ہے۔ ایک بار جب یہ قوتوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو اور مادے کے
پچکنے کے عمل کی ابتداء ہو جائے تو پھر اس عمل کو روکا نہیں جاسکتا اور
مادہ اس قدر پچک جاتا ہے یا منہدم ہو جاتا ہے کہ اس میں موجود تمام بین
الذراتی فضائیں ختم ہوجاتی ہیں اور یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مادہ اپنے مرکز
کی جانب سکڑ اور سمٹ کر اپنی تمام اونچائی اور چوڑائی کھو دیتا ہے اور ایک
طرح سے صفر ہو جاتا ہے اسی مقام کو وحدانیت یا Singularity کہا جاتا ہے۔ |