سندھیوں کی ادی قومی زبان اردو
میں بہن ہوتی ہے . بہن کا رشتہ بہت مقدس اور پاکیزہ ہوتا ہے ، اس رشتے کے
ناتے ہر بھائی کو اپنی بہنوں سے غیر معمولی توقعات ہوتی ہیں . پاکستان
پیپلز پارٹی کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس نے پہلے بے نظیر بھٹو کے روپ میں اپنے
چاہنے والوں کو " بی بی " کے نام سے بہن دی تھی اور اب آصف زرداری کی
سرپرستی میں اس پارٹی نے " ادی " کو متعارف کرایا ہے .
یہ حقیقی بہن تو ملک کی سابق اہم شخصیت کی ہیں لیکن حکومت سے مفادات حاصل
کرنے کے لیے بیتاب , بے قرار اور بے چین شخصیات کے لیے محترمہ اپنی سگی
بہنوں سے زیادہ عزیزبن چکی ہیں .
جو لوگ خصوصا سرکاری افسران اپنی سگی بہنوں کے گھر برسوں نہیں جاتے وہ اس
ادی کے گھر بار بار بلکہ ہر روز بھی جانے کو فخر سمجھتے ہیں بلکہ ادی کے ہی
گھر کو اپنا گھر سمجھ کر یہاں سے نکلنا نہیں چاہتے ۔ ( اﷲ ایسے بھائیوں سے
سب بہنوں کو دور ہی رکھے ).
سیاسی پارٹی کے مسٹر ٹین پرسنٹ کی قابلیت اور صلاحیت یہی ہے کہ جو کام وہ
کل تک اپنے منہ بولے بھائی یا لے پالک اویس ٹپی سے کراتے رہے وہی کام ٹپی
کو سائیڈ میں کرکے سرکاری سسٹم میں تخلیق پانے والے چھوٹے بھائی منظور کاکا
سے لیتے رہے۔منظور قادر عرف کاکا تھے تو" بہت بڑے" مگر زرداری کے لیے ایک
کا کا کی طرح ہی ہونگے۔ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈی جی
منظورکاکا کو آصف زرداری کی قربت ملی تو وہ ایک عرصے تک صوبے کے اصل وزیر
اعلیٰ کا کردار ادا کرتے رہے ان کے پروٹوکول میں 22 گاڑیاں تھیں ,اتنی ہی
گاڑیاں اویس ٹپی کے قافلے میں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ظاہر ہے جب منہ بولے
بھائیوں کے لیے اتنی گاڑیاں ہونگی تو بہن کے لیے کیوں نہ ہو , آخر سندھ اور
بہن ان کی اپنی ہی تو ہے۔
خیر رپورٹر کو ہر وقت سرکاری خزانے کی فکر رہتی ہے اس فکر پر پہلے وہ سیاسی
لیڈر کے بھائیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا تھا اور اب بہت ادب سے ادی کو
دیکھتا ہے۔ ادی کا کمال یہ ہے کہ ان سے جو بھی سرکاری افسر ملاقات کرلے اور
اپنا مقصد بیان کردے , ادی اسے ایک چھوٹا بھائی سمجھ کر مایوس لوٹانے کے
بجائے شفقت کے ساتھ کام ہوجانے کا یقین دلاکر لوٹاتی ہیں . بھائی تو ہمارے
معاشرے میں بہن کے گھر خالی ہاتھ جانے کا تصور نہیں کرتے تو پھر اس بہن کے
گھر کیوں اور کیسے خالی ہاتھ جاسکتے ہیں.مگرر رپورٹر یہ سوچتا ہے کہ بظاہر
فقیروں کا منہ بناکر ادی سے ملنے والے یہ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ
بادشاہوں کے انداز میں ادی کے گھر ، دفترسے کیسے اور کیوں واپس آتے ہیں
ظاہر ہے ادی کسی بھائی کو مایوس نہیں لوٹاتی , دیر سویر ہوسکتی ہے مگر جب
ادی نے کہہ دیا کہ " کام ہوجائے گا " تو کام ہوجاتا ہے ۔
اب چاہے اس کا رزلٹ کچھ بھی نکلے، ریکارڈ پر نہ کسی بہن کا نام ہے اور نہ
ہی بھائی کا ذکر ۔
بس ریکارڈ اور خزانہ تو ان اداروں کا متاثرہورہا ہے جہاں ادی کے حکم پر اہم
اسامیوں پر افسران تعینات کیے جارہے ہیں.
چند ماہ کے دوران بلدیہ عظمی کراچی , کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ , ڈسٹرکٹ
میونسپل کارپویشنز , ڈسٹرکٹ کونسل کراچی, فشریز , سندھ بلڈنگز کنٹرول
اتھارٹی , سندھ پولیس , اور دیگر اداروں میں افسران کی تقرریاں ادی کی براہ
راست منظوری سے ہوئی ہیں تاہم تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اہم اسامیوں پر
تقرری اہم ترین حساس ادارے کی منظوری سے کی جارہی ہیں . اس طرح ادی اور ادا
کا بال بھی بھیکا نہیں ہورہا جبکہ " کام پورا" ہورہا ہے۔ بعض لوگ یہ بھی
سمجھتے ہیں کہ یہ سب وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے حکم کے بغیر ممکن
ہی نہیں ہے ۔ جب حقیقت یہ ہے کہ سی ایم ہاؤس میں جانے والے اکثر افسران اور
سیاسی شخصیات ادی کو سلام کیے بغیر واپس نہیں آتے بلکہ صرف ان ہی سے ملاقات
کی خواہش لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ جب ادی سی
ایم ہاؤس میں موجود ہوتی ہیں تو اس کی رونق بحال ہوجاتی ہے ۔
ادی کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کا سندھ حکومت سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی سندھ
اسمبلی کی وہ ممبر ہیں اس کے باوجود صوبائی حکومت جو وفاق کے اداروں کو
صوبائی معاملات میں مداخلت کرنے پر تنقید کرتے نہیں تھکتی سندھ کے معاملات
میں ایک رکن قومی اسمبلی کی بے جا مداخلت پر خاموش تماشائی ہے ۔ مداخلت تو
چھوٹی بات ادی کا خوف اس قدر ہے کہ کسی بھی بااثر افسر کو ان کی اجازت کے
بغیر نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ احتیاطاََ ان سے مشورہ کرلیا جاتا ہے ۔ شائد
یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں میں کھلی لوٹ مار کرنے والے انجینئر و افسران
مزے میں ہیں . ان کے خلاف کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے . اگرہمت
ہوتی یا قانون کی حکمرانی ہوتی تو اب تک ثاقب سومرو , منظور کاکا, شرجیل
میمن, اویس ٹپی , صدیق میمن ,فضل اﷲ سہیل راجپوت اور دیگر اطمینان سے نیب
سے بارگننگ کی پلاننگ نہیں کررہے ہوتے ۔ادی کی بڑی خوبی تو یہ ہے کہ ان
سندھ اسمبلی اور سندھ حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب سے خصوصیت ان میں یہ
ہے کہ انہوں جب تک جنرل راحیل شریف کا ضرب عضب اور کراچی آپریشن چل رہا ہے
اپنے بھائی کو بے فکری سے ملک سے باہر رہ کر سیاست کرنے کا مشورہ دیکر خود
سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
ادی کی باتیں تو بہت سی ہیں لیکن ایک اہم بات بتانا ضروری ہے کہ ادی نے
اپنی حفاظت کے لیے صوبائی محکمہ داخلہ کی پولیس ہی نہیں بلکہ ایک وزیر کو
خصوصی طور پر اپنے ساتھ رکھا ہے . جن کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ ادی کا بیگ
بہتر طریقے سے سنبھالتے ہیں۔
لیکن قوم کو فکرہے کہ کب تک ایسا ہوگا ؟کب تک چھوٹے اور بڑے بھائیوں کی بار
بار صوبے اور وفاق کی حکومتوں میں ادی , منہ بولے بھائی، سمدھی اور دیگر
رشتے دار لوٹ مار کرتے رہیں گے ؟ |