کرکٹ ڈپلو میسی، ناکامی کے ذمہ دارں کی سَرزَنِش ضروری ہے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
بھارت میں جب سے نریندر مودی
وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں بھارت دہشت گردوں، انتہا پسندوں،
تعصب گروں، غنڈوں اور بدماشوں کی دہشت گردی، پاکستان دشمنی، مسلمان دشمنی
کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گرد تنظیم شیو سینا کے دہشت گردوں کو کھلی چھٹی حکومت
کی جانب سے دے دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں، جس کا چاہیں منہ کالا کریں،
جس کو چاہیں زندہ جلادیں، جس کو چاہیں مار مار کر ہلاک کردیں، مسلمانوں،
سکھوں، نچلی ذات کے ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کا کھلم کھلا قتل عام کریں،
کسی بھی پاکستانی کی جس قدر ہو سکے اپنے ملک میں تذلیل کریں ، اپنے ملک سے
نکل جانے کی کھلم کھلا دھمکی دیں، مسلمانوں کو یہ دھمکی دیں کہ اگر انہیں
گائیں کا گوشت کھانا ہے تو وہ بھارت میں نہیں رہ سکتے۔نریندر مودی کے دور
میں بھارتی انتہا پسند منہ زور ہوگئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن
انجینئر راشد نے درست کہا کہ یہ مودی کا ہندوستان ہے گاندھی کا نہیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ بھارت اب گاندھی کے علاوہ جواہر لال نہرو، شاستری، گلزاری نندہ،
ڈیسائی، چرن سنگھ، اندرا گاندھی، راجیو ، وی پی سنگھ، چندرہ شیکر، نرشما،
ذیوگاؤدا، گجرال، واجپائی، موہن سنگھ اور سوامی کا بھی بھارت نہیں بلکہ اب
یہ صرف اور صرف نریندر مودی اور انتہا پسندوں کا ملک ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ
بات ہر ایک کے علم میں ہے، ایک عام مسلمان ان حالات میں بھارت جانے کی سوچ
بھی نہیں رہا۔بھارت کے یہ انتہا پسند خورشید قصوری کی کتاب کی تعارفی تقریب
کے حوالے سے میز بان کلکرنی کا منہ کالا کرچکے تھے، پاکستانی گلوکار کا
پروگرام منسوخ کرایا جاچکا تھا، پاکستانی امپائر علیم ڈار کو شیوسینا کے
غنڈوں کی دھمکیوں کی وجہ سے ایمپائرنگ سے روک دیا گیا تھااور انہیں واپس
وطن بھیج دیا گیا، یہی نہیں بلکہ پی سی بی کو بھی مسلسل دھمکیا مل رہی تھیں
ان تمام حالات اور واقعات کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرٔ میں شہر یار
خان،چیرٔ مین ایگزیکٹیو کمیٹی نجم سیٹھی، چیف آپریٹو آفیسر سبحان احمدکا
بھارت کا دورہ کرنا سمجھ اور عقل میں آنے والی بات نظر نہیں آتی۔ حیرت کی
بات یہ ہے کہ شہر یار خان ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ اور سابق سیکریٹری
خارجہ بھی رہ چکے ہیں وہ تو بھارت کے مزاج کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہوں
گے لیکن انہوں نے بھی ان تمام باتوں کو اہمیت نہیں دی اور اپنے ساتھیوں کے
ہمراہ بھارت پہنچ گئے۔ بھارت جا کربھی حالات کا ادراک نہ ہوا ، کہا جارہا
ہے کہ پاکستان کے سفارت خانے کے حکام نے کرکٹ ڈپلومیسی اختیار کرنے والے ان
نادانوں کو روکا کہ وہ اس ملاقات کو منسوخ کردیں، بھارتی بورڈ کے اراکین سے
ملاقات کرنے مبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں قائم بھارت کرکٹ بورڈ کے دفتر نہ
جائیں لیکن یہ دنیا کے سب سے عقل بند انسان اس کے باوجود وہاں چلے گئے جس
کے نتیجے میں شیو سینا کے غنڈوں نے ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے تو لگانا
ہی تھے پاکستان کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔ وہاں یہ نعرے لگے کہ ’شہر یار
خان واپس جاؤ‘۔ کیا عزت رہ گئی شہر یار خان کی اور نجم سیٹھی صاحب خود تو
ذلیل و خوار ہوئے ملک اور قوم کو بھی بدنام کرانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔
کیا پاکستان بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، کیا بھارت
کے ساتھ کرکٹ پاکستان کی عزت سے بڑھ کر ہے، ٹی 20 ہماری انا ہے کہ ہم ضرور
کھلیں، اس کے بغیر ہم کرکٹ کی دوڑ سے باہر ہوجائیں گے۔ پاکستان کی عزت اور
وقار کے سامنے شہر یار خان اور نجم سیٹھی کی کوئی وقعت نہیں۔ انہوں نے تمام
تر اقدامات حکومت کی اجاذت کے بغیر کیے، بھارت تو کسی بھی طور کسی سطح پر
بھی پاکستان سے بات کرنے کو تیار نہیں، شیوسینا کے غنڈوں کے کالے کرتوں کی
بھارتی حکومت نے آج تک مذمت تک نہیں کی انہیں لگام دینا تو بہت بڑی بات ہے۔
ایسا صرف اس لیے ہوا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرکاری سربراہ نواب زادہ شہر
یار محمد خان اور عملی سربراہ نجم سیٹھی صاحب یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں
دیکھ کر شیو سینا کے دہشت گرد ان کے قدموں میں گر جائیں گے، ان کے ہاتھ
چومیں گے، انہیں سر آنکھوں پر بیٹھائیں گے۔ دیکھ لیا اپنی سوچ حشر کیا ہوا۔
نواب زادہ صاحب ایک اعلیٰ خاندان کے چسم و چراغ ہیں، جدی پشتی نواب ابن
نواب، پاکستان کی سول سروس میں بہت خدمات ہیں، اقوام متحدہ میں بھی پاکستان
کی نمائندگی کی ،اس وقت ان کی عمرِ عزیز 81برس ہے۔ یہ 29مارچ 1934ء میں
بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ اب انہیں از خود کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے سبکدوش
ہوجانا چاہیے، حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس عمر میں ان پر اس قدر بوجھ
ڈال کران کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ ویسے بھی جو کام جس کا ہے وہ اسی کو
ساجھے، کرکٹ کھیلنا کرکٹ کے کھلاڑیوں کا کام ہے انہیں کرکٹ کھیلنے بھی دیں
اور کرکٹ کے معاملات کو چلانے بھی دیں۔ان عہدوں پر صرف اور صرف کھلاڑی کو
ہی نامذد کیا جانا چاہیے۔
کچھ ذکر ہر فن مولا جو سیاست داں کا جو کالم نگار، تجزیہ نگار ، جیو کے
ملازم ، جنگ کے وظیفہ دار، سابق نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب، کرکٹ تو جیسے ان
کا خاندانی شوق رہا ہے قبلہ نجم سیٹھی صاحب کا بھلا کرکٹ بورڈ میں چیرٔ مین
ایگزیکٹیو کمیٹی، واہ صاحب واہ یہ عہدہ بھی خوب ہے، صاف ظاہر ہورہا ہے کہ
یہ نوازنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اگر ان کے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے
دور میں نواز حکومت کو اقتدار مل گیا تو کیا ان کی وجہ سے ملا کہ انہیں
نوازنے کا عمل مسلسل جاری رکھا ہوا ہے، کسی نے لکھا کہ ا س شخص پر بھارتی
عشق سوار تھا جس کے تحت انہوں نے سب کے روکنے کے باوجود ’بگ تھری‘ والے
معاملے میں بھارت کی حمایت کر کے سارے پتے بھارت کے ہاتھ میں دے دیے
تھے‘۔قبلہ سیٹھی صاحب کوپتہ نہیں چلا ورنہ ابصار عالم چیرٔ میں پیمرا ہر گز
نامذدنہ ہوپاتے۔ شہر یار ایک شریف اور خاندانی آدمی ہیں انہوں نے یہ اعتراف
تو کیا کہ بھارت میں ان کو بے عزت کیا گیا وہ اپنی تزلیل پر شرمندہ بھی ہیں
لیکن نجم سیٹھی صاحب شرمندہ ہونا تو دور کی بات وہ اس واقع کو اپنی بے عزتی
تصور ہی نہیں کرتے، ان کے خیال میں شیو سینا کے انتہا پسندوں نے جو کچھ بھی
کیا اچھا کیا۔ اس سارے کھیل میں سیٹھی صاحب کا کردار مشکوک نظر آتا ہے۔
سابق کرکٹر سرفراز نواز نے کسی ٹی وی ٹاک میں سیٹھی صاحب کی کرپشن اور بے
اعتدالیوں کی جو تعریف کی اگر اس میں سو فیصد حقیقت نہیں تو کچھ تو درست
ہوگا، سرفراز نواز کوئی عام انسان تو نہیں، کرکٹ میں اس کا ایک نام ہے ، اس
نے اپنی زندگی کرکٹ کو دی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس نے جس سیاسی جماعت سے
وابستگی اختیار کی وہ سیٹھی صاحب کی پسند کی نہیں۔ سیٹھی صاحب نے اگر وہ
پروگرام نہ دیکھا ہو تو اسے ضرور دیکھیں۔ چڑیا صرف آپ کے پاس ہی نہیں یہ
دوسروں کے پاس بھی ہے اور بہت کچھ بتاتی ہے۔نجم سیٹھی صاحب نے اپنے پروگرام
میں اس معاملے پر لب کشائی فرماتے ہوئے واضح کیا کہ’ بھارت سے چھ سیریز
کھیلنے کا معاہدہ ہوا تھا، کرکٹ اور سیاست کو ساتھ ساتھ نہیں چلنا چاہیے
ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں پر
تنقید کرتے ہیں‘۔کیا خوب پاکستان کی بہتری بھارت میں عمل میں آئی ہے۔ گویا
موجودہ حالات میں بھارت کے کرکٹ بورڈ سے گفت و شنید پاکستان کے مفاد میں
تھی چاہے اس دوران پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی ہو۔صرف کثر یہ رہ گئی
تھی کہ شیو سینا کے غنڈے اس موقع پر بھی پاکستانی وفد کے ساتھ وہی بے ہودہ
حرکت کرتے جو انہوں نے کلکرنی کے ساتھ کی تھی۔ فرمانا ہے کہ مذاکرات کی
صورت میں ہی دنیاکے سامنے بھارت کا اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان رویہ
سامنے آتا، قبلہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو تسلیم
ہی نہیں کیا۔ وہ ازل سے اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان ہے۔ انہوں نے بی سی
سی آئی کے سربراہ کے ساتھ ایک ایم او یو کیا تھا جس کے مطابق بھارت اگلے
چند سالوں میں چھ سیریز کھیلیں گا۔ چار پاکستان کے وینیویعنی دبئی میں جب
کہ دو بھارت میں ہوں گی۔ کیونکہ یہ ایم او یو سیٹھی صاحب نے اپنے دور میں
کیا تھا اس لیے اس کی بہت اہمیت تھی ، بقول سیٹھی صاحب اس سے پاکستان کو
اربوں کا فائدہ ہونا تھا جو کہ شیو سینا کے غنڈوں نے ہونے نہیں دیا۔ ساری
گفتگو اور وضاحت کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کو اربوں کا فائدہ
ہونا تھا وہ نہیں ہوا۔ ایسے پیسے کا کیا فائدہ جہاں عزت نہ ہو، احترام نہ
ہو، سیکیورٹی نہ ہو۔بھارت اس قابل ہی نہیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم تمہاری اس کی
سرزمین پر میچ کھیلے۔ حکومت کو کرکٹ بورڈ کے سربراہان کے بارے میں سنجیدگی
سے کوئی مثبت قدم اٹھانا چاہیے۔ کر کٹ ڈپلومیسی میں ناکامی کے ذمہ دارں کی
سَرزَنِش ضروری ہے ایسے لوگوں کو آگے لانا چاہیے جن کے سامنے پاکستان کا
وقار مقدم ہو پیشہ نہیں۔ وہ جذو وقتی کرکٹ بورڈ کے منتظم نہ ہوں بلکہ کل
وقتی کرکٹ بورڈ کا نظم و نسق چلانے میں اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار
لائیں۔ |
|