آج میں نے اپنے قائرین کیلئے
ایسا عنوان منتخب کیا ہے جو بہت نازک اور اہم ترین ہے، بظاہر عنوان سے کئی
مفہوم پیدا ہوجاتے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ قائرین میرے اس عنوان کو کس
نگاہ سے دیکھیں گے۔ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اپنے مضمون کی اساس،
نوعیت اور معنوی حیثیت کو سب سے پہلے واضع کروں تاکہ کسی بھی قائرین کے ذہن
میں کوئی منفی سوچ نہ پیدا ہوسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ میں دنیا کا سب سے بڑا
گہنگار ہوں اور میرے ایسے اعمال نہیں کہ بخشش کا ساماں ہوسکیں لیکن پھر بھی
میں جنت کا خواں ہوں وہ اس لیئے کہ میرا رب سب سے بڑا عظیم، رحیم،رحمٰن اور
بخشش کرنے والا ہے اسی لیئے اس کی رحمت سے مایوس نہیں بلکہ اپنے رب کی شان
پر ناز کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں بھی جنتی ہوں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں
رب الکائنات کے محبوب ،رحمۃ اللعالمین کا امتی ہوں۔میرےرب العزت نے اپنے
پیارے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کو الہامی کتاب قرآن پاک عطا فرمایا جو عرش معلی
پر موجود ہے ،یہ وہ مقدس کتاب عظیم ہے جس کی ذمہ داری تا قیامت خود اللہ نے
لی ہے۔مین اپنے عنوان کے تحت واضع کرتا ہوں کہ میں قدرت کی نگاہ سے دیکھا
وہ دیکھنے کا ذریعہ صرف اور صرف قرآن پاک ہے، کیونکہ اللہ نے قرآن پاک
میں کائنات کے وجود سے لیکر کائنات کے ختم اور اس کے بعد کے احوال تمام کے
تمام اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ پر نازل قرآن پاک کے ذریعے بیان اور روشن
کیئے ہیں۔میری آنکھیں اور میرا دل کسی قابل نہیں پھر بھی یہ اس عنوان سے
لکھ رہا ہوں یقینا یہ حوصلہ رب نے ہی عطا کیا ہے ، مجھ میں اتنی بھی طاقت
نہیں کہ اپنے جسم کو اپنی مرضی سے ہلا سکوںیا اپنی خواہشوں کو تکمیل تک
پہنچا سکوں بس اللہ واحد لاشریک ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے اور نا شکری
کے باوجود ہزارہا نعمتوں سے نوازا ہوا ہے، رب العزت کا جتنا بھی شکر کروں
کم ہے۔میں ایک انسان اور اللہ کا بندہ ہوں، دنیا بھر میں پیدا ہونے والے
انسانی بچے نہ صرف اللہ کے بندے ہوتے ہیں بلکہ مسلمان بھی۔ اس دنیا میں
ہونے والے فسادات، ظلم وبربریت، نا انصافیاں،قتل و غارت،انسانی حقوق کی
پامالیاں گو کہ ہر وہ عمل جس سے دنیا کا ہر شخص بےزار، پریشان ہوجاتا ہے اس
کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو نفس، خواہشات کا
مظہر ہیں۔اللہ نے واضع کردیا تھا کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان اور اس
کا نفس ہے، یہ دونوں نظر نہ آنے والے ہیں لیکن دل و دماغ پر غلبہ کرنے
والے ہیں، اسی لیئے دل و دماغ کا روشن ہونا اور زبان کا سنبھلنا ہی انسان
کی قدر و منزلت ہے۔انسان کی قدر و منزلت اشرف کے خطابات ومقامات بھی اللہ
ہی نے دیئے ہیں کیونکہ رب العزت نے اپنے بندو سے وعدہ کررکھا ہے کہ جو بندے
اس کے ہوجائیں گے اللہ انہیں بےشمار انعامات و درجات سے نوازے گا ،نبی کریم
ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی نبی و پیغمبر نہیں آئے گا مگر اللہ اپنے
فرمانبردار، سچے اور رب سے سچی لگاؤ رکھنے والوں میں سے ایسےانسان منتخب
فرماتا رہے گا جو رب کے حبیب ﷺ کے دین کا پھیلانے اور دنیا میں امن و سکون
پیدا کرنے میں اپنا مثالی کردار ادا کریگا یہی وجہ ہے کہ جب قدرت کی نگاہ
سے دیکھا گیا تو ان میں خواجہ غریب نواز، داتا گنج بخش اور بے شمار اس طرح
کے انسان کامیاب زندگی میں نظر آتے ہیں جنکا قول و فعل رب العزت کی اطاعت،
اللہ کے حبیبﷺ سے والہانہ محبت ہی اصل میں ان کی زندگی کا ثمر ہے۔دوسرے لفظ
میں یہ کہ سکتے ہیں کہ اللہ اپنے مقرب بندے پیدائش سے قبل ہی مقامات سے
نواز دیتا ہے اور ان سے دنیا میں وہ کام لیتا ہے جو دنیا بنانے کا مقصدتھا۔
اللہ تو اس قدر اپنے بندوں پر مہربان ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا
بندہ اس کے بتائے ہوئے دین پر نہیں چل رہا لیکن وہ انسانی فلاح و بہبود کے
کاموں میں مصروف عمل ہے تو اللہ اس کو ان نیک کاموں کے بدلے دنیا ہی میں
بہت کچھ نواز دیتا ہے جبکہ اپنے پرہیزگاروں پر دنیا کی سختی، بندشیں،
مصیبتوں کیساتھ آزامائش میں رکھ کر بتاتا ہے کہ اے شیطان یہ میرے بندے ہیں
جو تیرے کسی وار سے ہلاک نہیں ہونگے۔رب العزت کی نگاہ سے ہر کوئی دیکھ سکتا
ہے کیونکہ قدرت کی بنائی ہوئی تمام اشیاپوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اسی
لیئے رب نے انسان سے کہا کہ تم اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں کو ٹھکراؤ
گے، جابجا ذرے ذرے سے پہاڑوں تک رب العزت کی نعمتیں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر
لمحہ کرشمہ پیوستہ ہیں۔ رب الکائنات نے انسان کے متعلق کیا کہا ذرا غور
کیجئے۔۔۔اے رسول ﷺ وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ
میں ایک آدمی کو خمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھنکھن بولنے لگے پیدا
کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہرطرح سے درست کرچکوں اور اس میں اپنی
طرف سے روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا ۔ (سورۃ
حجر، آیت۲۸ تا۲۹)۔۔۔۔سورۃ حجر میں اللہ نے سب سے پہلے انسان اور سب سے
پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت اور انسان کی ولادت کا ذکر کیا
ہے ، بتادیا کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہےاسی لیئے اللہ نے اپنے خلیفہ کو عزت
سے نوازتے ہوئے تمام جن و فرشتوں کو سجدہ تعظیمی کرنے کا حکم دیا تھا جو
شیطان مردود کو پسند نہ آیا اور انسان کی مخالفت میں انکار کر بیٹھا ،رب
الکائنات نے اسے لعنت کا طوغ پہناتے ہوئے جنت سے نکال پھینکا ،اسی وقت سے
شیطان نے انسان سے بدلہ لینے کیلئے اللہ سے قامت تک مہلت لے لی اور کہا کہ
جو تیرے بندے ہونگے وہ میرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور امن و سکون کی
زندگی گزاریں گے جو میرے بہکاوے میں آجائیں گے تو ان سے دنیا میں فساد و
جنگ کراؤنگا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب
میں فساد و جنگ، ظلم و بربریت کا درس نہیں ملتا یہ الگ بات ہے کہ ان پر سخت
گرفت نہیں لیکن اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں فساد و جنگ، ظلم و بربریت
کرنے پر سخت منع ہے ، دین اسلام کا مکمل نظام انسانیت کے حقوق، برابری، عدل
وانصاف ، مساوات، بھائی چارگی، ادب و احترام،حقوق نسواں، حقوق اطفال، حقوق
والدین، حقوق معاشرہ، حقوق اولاد گو کہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے حقوق واضع
کیئے گئے ہیں اور دین اسلام میں جزا و سزا کا بھی نظام مروج کیا گیا ہے
تاکہ نفس کنٹرول میں رہے۔۔ اللہ نے اپنے بندے کی عظمت بڑھانے کیلئے اسے علم
کی روشنی سے بہرہ مند فرمایا۔ یہ حقیقت ہے کہ شیطان مردود علم سے آراستہ
ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ نے قرآن پاک کے ذریعے انسان کو شیطان
مردود سے بھی زیادہ علم کی دولت سے نوازاور یہ تمام علم کے دریا آنحضور ﷺ
کے صدقے انسان کو میسر آیا ہے۔بحرحال میرا موضوعاس بات کی طرف توجہ دلاتا
ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسان اگر اپنے اپنے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے عمل
بھی کریں تو یقیناً وہ انسانیت کا احترام ضرور کریں گے کیونکہ میں پہلے بھی
ذکر کرچکا ہوں کہ کوئی بھی مذہب انسانیت کی توہین اور ظلم و بربریت کا
پیغام نہیں دیتاہے۔ انتہا پسندمذہب کے پیروکار جس کسی بھی میں بھی ہیں وہ
اپنے نہ صرف مذہب بلکہ عقائد کے خلاف عمل پیرا ہوتے ہیں کیونکہ انتہا پسندی
کاعمل شیطان مرودو کی جانب سے ہے جبکہ اعتدال پسندی، برباری، صبر اللہ واحد
لاشریک کی جانب سے ہے۔ قدرت کی نگاہ ہر مذہب ،ہر فرقہ، ہر مسلک اور ہر
انسان دیکھ سکتا ہے لیکن اس کیلئے اسے اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن
ہونا پڑیگا۔اللہ بے عیب و بے نیاز ہے اسی لیئے رب العزت کسی بھی انسانی
پیدائش پر کوئی عیب نہیں رکھتا ۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بظاہر
کسی بیماری یا نقص سے پیدا ہونے والے بچے ماں باپ کی عدم دلچسپی، لاپرواہی
یا معالج کی کوتاہی کا سبب ہوتی ہے۔دوسری بات کسی بھی انسان کی جسمانی حالت
اور ذہنی کیفیت کو دیکھ کر کوئی بھی انسان قلی فیصلہ نہیں کرسکتا کیونکہ
ممکن ہے کہ رب نے ایسے انسان پوشیدہ طور پر عام انسان سے کہیں زیادہ ذہین و
قابل بنایا ہواسی لیئے کسی بھی انسان کیلئے کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے
قدرت کی نگاہ سے ضرور دیکھنا چاہیئے۔۔۔۔!!
|