ڈولی کی بولی اور ڈھولی

’چینی کو سمجھنا تو مشکل ہے ہی لیکن ڈولی کی بولی سمجھنا توبہت مشکل ہے، اسی لیے اب تک اسے کوئی سمجھا نہیں پایا “
”کیا آپ کو چینی آتی ہے؟“
”گھر میں خود تو نہیں آتی بازار لینے اکثر جانا پڑتا ہے!“
”میں کھانے والی چینی کی نہیں بولے جانے والی چینی کی بات کررہا ہوں۔“
” چین ہمارا دوست ہے اور دوستی زبان سے نہیں دل سے کی جاتی ہے۔“
” سیدھا سیدھا کہو نہیں آتی۔“
”آتی ہے تب ہی تو چینی ڈولی پاکستان آئی ہے۔“
” ڈولی کو بھولی بنایا گیا ہے۔“
”بنایا نہیں گیا وہ چین سے بنی بنائی آئی ہے۔“
” کیا مطلب ہے تمہارا .... کیا چین نے ڈولی کی ایکسپورٹ بھی شروع کردی ہے؟“
” پتا نہیں اسے برآمد کیا گیا ہے کہ درآمد کیا گیا ہے لیکن بہرحال پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔“
”اب کیا کرسکتے ہیں؟“
”اسی لیے پوچھا تھا کہ ڈولی کی بولی آتی ہے؟“
’چینی کو سمجھنا تو مشکل ہے ہی لیکن ڈولی کی بولی سمجھنا توبہت مشکل ہے، اسی لیے اب تک اسے کوئی سمجھا نہیں پایا “
” تو اب اسے کون سمجھائے گا؟“
” محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، کوئی عمر نہیں ہوتی، کوئی حدود اربعہ یا جغرافیہ نہیں ہوتا۔“
” یہ سب ڈراموں میں اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت کی زندگی ڈراموں سے ذرامختلف ہوتی ہے۔“
” آپ کو یہ سب ڈرامہ لگتا ہے؟“
”ڈرامہ تو نہیں لگتا لیکن میڈیا والوں نے اسے ڈرامہ بنا دیا ہے۔“
” اب اس ڈرامہ کا ڈراپ سین کیا ہوگا؟“
” یہ تو اگلی قسط میں ہی پتا چلے گا۔لیکن ڈرامائی موڑ اس کہانی میں اس وقت آیا ہے جب ملتان کے نوجوان نے اس ڈرامے میں انٹری ڈالتے ہوئے ایک نئی صورتحال پیدا کردی ہے۔ وہ ڈولی کی ڈھولی ڈھول کی تھاپ پر اپنے کندھوں پراٹھانا چاہتا ہے۔“
”سارے ہیرو ہی کہانی میں ہیں کوئی ولن بھی آئے گا اور یہ کہے گا کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی۔“
”اب یہ شادی ہویا نہ ہو مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن پاک چین دوستی کو یہ خبر چلا کر ضرور داغ دار کیا گیا ہے۔“
” پاک چین دوستی اتنی کمزور نہیں کہ اس داغ سے داغ دار ہوجائے ۔ یہ کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں سے بلند ہے۔“
” یہی تو مسئلہ ہے کہ ہم نے اسے کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں سے ناپتے ہیں جس میں آئے روز زلزلے آتے رہتے ہیں۔“
” کیا یہ زلزلہ ہے؟“
” زلزلہ تو آیا ہے لیکن اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے، اس لیے اکثر کو محسوس نہیں ہوا اور جس کو محسوس ہوا ہے اسے دڑاریں نظر نہیں آرہیں ہیں۔“
” جب دڑاریں نہیں پڑیں تو آپ کیوں ڈراریں ڈالنے پر تل گئے ہیں۔“
”ہمارا کام ہی ڈراریں تلاش کرنا ہے۔ ورنہ لاہور کی فیکٹری حادثہ کی صورت میں یہ کسی بھی وقت نمودار ہوسکتی ہے۔“
” حادثات سے ہم کچھ نہیں سیکھتے اسی لیے تو یہ ڈراریں پڑتی ہیں۔“
”حادثہ کے بعد نوٹس اور نوٹ جاری کردیے جاتے ہیں اور پھر کسی اگلے حادثہ کا انتظار کرتے ہیں تاکہ بریکنگ نیوز چلے اور ہماری خبرکے ساتھ نوٹس اور نوٹ بھی چلیں ۔“
” بدنام گر ہوئے تو کیا نام نہ ہوگا کہ مصداق بدنامی ہم نے مستعار لے لی ہے۔“
”کس سے مستعار لی ہے؟“
” جس سے مستعار لی ہے اب اسی سے دوا بھی لینی ہوگی۔“
” آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟“
” ڈولی کی بولی اور ڈھولی۔“
٭....٭


 
Mir Shahid
About the Author: Mir Shahid Read More Articles by Mir Shahid: 49 Articles with 42787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.