بہارالیکشن :کہاں پھوٹیں گے پٹاخے؟
(Nazish Huma Qasmi, Mumbai)
بہار اسمبلی الیکشن دو مہینے سے جاری رہنے کے بعد خدا خدا کر کے اپنے اختتام کو پہونچ گیا۔ اب صرف نتائج کا اعلان باقی ہے …عوام نے تمام امیدواروں کی قسمت کے فیصلہ کو ای وی ایم مشین میں بند کردیا ہے… جیتے گا بھائی جیتے گا جیسے نعرے اب سماعتوں سے نہیں ٹکرا رہے ہیں… ہر گلی اور محلہ وی آئی پی بھکاریوں کی آمد سے پاک ہوگیا ہے۔ اب صرف ایگزٹ پول کے قائم کردہ تخمینے پر لوگوں کی نظر یںاٹھی ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 8 نومبر کا سورج کس کیلئے خوشی کا باعث بنتا ہے … اورکس خیمہ میں غم کے بادل چھاتے ہیں… آیا بہار جیت پر پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں یا پھر پورے ہندوستان میںسیکولرزم کی جیت پردیوالی منائی جائے گی۔ اگر ایگزٹ پول کی بات مان لی جائے تو سیکولر اتحاد کیلئے راستہ صاف ہے… اور اسے خوشی کے شادیانے بجانے کا پورا حق حاصل ہے |
|
بہار اسمبلی الیکشن دو مہینے سے
جاری رہنے کے بعد خدا خدا کر کے اپنے اختتام کو پہونچ گیا۔ اب صرف نتائج کا
اعلان باقی ہے …عوام نے تمام امیدواروں کی قسمت کے فیصلہ کو ای وی ایم مشین
میں بند کردیا ہے… جیتے گا بھائی جیتے گا جیسے نعرے اب سماعتوں سے نہیں
ٹکرا رہے ہیں… ہر گلی اور محلہ وی آئی پی بھکاریوں کی آمد سے پاک ہوگیا
ہے۔ اب صرف ایگزٹ پول کے قائم کردہ تخمینے پر لوگوں کی نظر یںاٹھی ہوئی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 8 نومبر کا سورج کس کیلئے خوشی کا باعث بنتا ہے … اورکس
خیمہ میں غم کے بادل چھاتے ہیں… آیا بہار جیت پر پاکستان میں پٹاخے پھوڑے
جاتے ہیں یا پھر پورے ہندوستان میںسیکولرزم کی جیت پردیوالی منائی جائے گی۔
اگر ایگزٹ پول کی بات مان لی جائے تو سیکولر اتحاد کیلئے راستہ صاف ہے… اور
اسے خوشی کے شادیانے بجانے کا پورا حق حاصل ہے… تقریباً سبھی ایگزٹ پول کی
خبر مہاگٹھ بندھن کے حق میں ہے…عوام کی بے چینی کو بھی راحت مل گئی ہے…
ایئر کنڈیشن کمروں کے نرم و گداز بستر وںپر زندگی گزارنے والے لیڈروں کو
بھی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ اور رات کے تکلیف دہ اسفار سے چھٹکارہ مل گیا ہے…
گلی گلی گھوم کر اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت میں ریلی نکالنے والے کارکن
بھی خراٹے مار کر نیند کے مزے لے رہے ہیں… اب بہار کے عوام کی بھی روزمرہ
کی زندگی معمول پر آچکی ہے… الیکشن کی گہماگہمی میں بہار والے کے دن رات
لیڈران کی بیان کردہ تقریریں موضوع بحث بنتی رہی ہے۔ اور اب اس بحث کا
موضوع ہار جیت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر آدمی خود کو صحیح ثابت کرنے کیلئے
اپنا اپنا ایک الگ ایگزٹ پول بنا رکھا ہے۔ہر چوراہے اورہرنکڑپریہی ایک بحث
ہے کہ اب بہار کا سکندر کون ہوگا…؟۔ہرچائے خانے پر نوجوان اور بوڑھوں میں
تکرار جاری ہے کہ اس بار نتیش کی ہی حکومت ہوگی یا پھر کسی باہری کی۔اکثریت
کا رجحان تو مہا گٹھ بندھن ہی ہے لیکن ان لوگوں کا رجحان جنہوں نے پانچ
پانچ سو اور ہزار ہزار میں اپنے ووٹ کسی او ر کو بیچے ہیں وہ ان ہی کے ہی
گن گارہے ہیں۔ اور ایگزٹ پول اور عوامی رجحان کو غلط ثابت کرنے میں تلے ہیں
اورامت شاہ کی طرح اپنی زبان 8نومبر کو ہی کھولنے کا وعدہ کررہے ہیں۔
اس الیکشن میں بہار کو فتح کرنے کیلئے جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے
وہ ایک مہذب معاشرہ میں کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ ملک کے بڑے بڑے
نامی گرامی لیڈران کے متنازعہ بیانات سے عوام میں بھی ہلچل مچی رہی
ہے،ابتدائی تین مراحل کے بعد جس طرح طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا وہ شاید
ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نظرسے نہیں گزرا ہے… ترقی کے ایجنڈے
کو یکسر فراموش کرکے محض الزام تراشی و بہتان بازی پر پوری سیاست آگئی…
’من ترا شیطان بگوئم تو مرا شیطان بگو‘ پربڑے بڑے لیڈران ایک دوسرے کو طعن
و تشنیع کرتے نظر آئے…خصوصاً بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے متنازعہ
جملوں نے سیکولر عوام کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا… لوگ سوچ رہے تھے کہ یہ
بہار الیکشن ہے یا پھر گالیوں کا بازار… ایک دوسرے پر اس طرح کی دشنام
طرازی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی… ترقی کے ایجنڈے میں کامیابی نہ
ملنے کی صورت میں بی جے پی نے اپنے ترکش کا سب سے آزمودہ تیر باہر نکالا
اور عوام کو ذات پات اور مذہب کے نام پر بانٹنے کیلئے یہاں تک کہہ دیا کہ
اگر بہار میں بی جے پی غلطی سے بھی ہار گئی تو پٹاخے پاکستان میں پھوڑے
جائیں گے… اقتدار پربراجمان قومی پارٹی کے صدر کیلئے یہ بات کس حد تک درست
ہے اور اس سے وہ کیا بتانا چاہے رہے تھے اس سے تو ہر ذی شعور بخوبی واقف
ہے… یہ براہ راست بہار میں موجود مسلمانوں پر طعن تھا کہ ان میں حب الوطنی
نہیں ہے، اور حب الوطنی کا سبق ہمیں اب اس تنظیم کے پروردہ سکھائیں گے
جنہوں نے جنگ آزادی میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا…
جنہوں نے مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو سمجھا اور ان کی پوجا کرنے
میںمشغول ہوں ۔ وہ بہار کے عوام کو درس حب الوطنی دے رہے ہیں۔ خیر اس کھیل
میں دوسری جانب بہار کے وزیر اعلیٰ تھے جو اپنی صاف ستھری شبیہ کی بنا پر
عوام سے اپنے کئے ہوئے کام کا صلہ مانگ رہے تھے… نتیش کمار کا یہ دعویٰ کہ
میں نے جو کچھ بھی کیا ہے سب عوام کے سامنے موجود ہے مجھے کسی قسم کے وعدوں
کی ضرورت نہیں ہے، میں اپنے کئے کی صلہ مانگ رہا ہوں جو میرا حق ہے۔بہار کے
عوام کیلئے نتیش ایک دیکھے بھالے انسان ہیں، اپنی دس سالہ مدت میں جو کچھ
بھی انہوں نے کیا ہے یہ بہار کے عوام کیلئے بہت زیادہ ہے اور اگر وہ پھر
اقتدار میں آتے ہیں تو انہیں اپنے مجوزہ مشن کی تکمیل کیلئے کسی نئی ٹیم
یا کمیٹی کے تشکیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تمام چیزیں ان کے پاس پہلے سے
ہی موجود ہے اور سروے کے مطابق بہار کے عوام نے بھر پور ان کاساتھ دیا ہے
انشاء اللہ وہی کامیاب ہوں گے۔ برعکس اس کے اگر بی جے پی بہار میں حکومت
بناتی ہے تو اس کا کوئی ایجنڈانہیں ہے۔ محض عوام میں تفریق پیدا کرنے کے
سوا یہ کسی اور کام میں ماہر نہیں ہے۔ اور انتخابی ریلیوں میں بھی جس طرح
انہوں نے بہار والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے چاہیں اس سے بھی گوتم بدھ کی
دھرتی کے سیکولر اور گنگا جمنی تہذیب کے پاسدار ناراض ہیں۔ مرکز میں موجود
حکومت سے سبق حاصل کرنے کیلئے یہ کافی ہے جو اپنے کئے ہوئے وعدے کو محض یہ
کہ کرپس پشت ڈال دیا کہ وہ تو صرف انتخابی ’جملہ ‘تھا۔ اس سے مزید کسی
بھلائی کی امید رکھنا عبث ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہارکے عوام کا رکھوالا
دوبارہ اسی شان و شوکت کے ساتھ اپنے تخت پر براجمان ہوتا ہے یا پھر
سیکولرازم کے دلدادہ عوام پر فرقہ پرستی کا راج ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات جو
محض عوام کیلئے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کیلئے بھی قابل غور ہے وہ ہے
ایسی مشینوں کاپایاجاناجو مکمل طور پر پہلے سے ایک مخصوص پارٹی کے
امیدواروں کے ناموںپر سیٹ کی گئی تھیں۔ اس طرح کی مشینیں لوک سبھا الیکشن
میں بھی پائی گئی تھی اور اب بہار الیکشن میں بھی اس طرح کی مشینیں ضبط
ہوئی ہیں۔ اس طرح کے حادثات کا بارہا واقع ہونا اتفاق نہیں ہوسکتا ہے بلکہ
اس کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ بعید نہیں کہ عوام کا
اعتماد مکمل طور پر متزلزل ہوجائے۔ بہار میں ان تمام باتوں کے باوجود نتیش
کے حق میں جو لہر نظر آئی ہے وہ ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم کے بلاک در
بلاک ریلیوں میں بھی نظر نہیں آسکا ہے۔ بالآخر ہم تو اسی بات کی توقع
کرتے ہیں کہ اللہ بہار کے سیکولر عوام کیلئے زمینی لیڈرکومنتخب کریں نہ کہ
اسٹیج شو کرنے والے نام نہاد لیڈروں کو جو محض استحصال کرنے اور نفرت کی
سیاست بانٹنے والے ہیں … جو محض دلوں کو تقسیم کرناجانتے ہیں … جن کی
کارگزاری سے پورا ہندوستان اس ڈیڑھ سالہ مدت میں خاک و خون میں نہارہا ہے۔
بہار کے عوام نے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا… اور انشاء اللہ ہمیں امید
ہے کہ 8نومبر کے سورج سے بی جے پی کے خیمے میں دیوالی نہیں منائی جائے گی
بلکہ وہ اپنے زوال کی ابتداء اور اپنے دیوالیہ ہونے واویلا کریں گے۔
|
|