چپڑاسی

شاعر نے کیا خوب کہا تھاــ’’میں تھرڈ ڈویژن ہو مجھے مار ڈالئے‘ میری ڈگری کا اچار ڈالئے‘‘شاعر کو تو تھرڈڈویژن طلبہ کے دکھ کا اندازہ تھا،ایک کلاس فور جس کو عرف عام میں چپڑاسی کہا جاتا ہے،شایداس کے دکھوں کا کوئی اندازہ نہ تھااگر ہوتا توایسی شاعری نہ کرتا بلکہ اپنا سر پیٹ لیتا،یہ عہدہ تو تھرڈ ڈویژن سے بھی ایک ڈگری نیچے ہوتا ہے یعنی’’کلاس فور‘‘اگرسرکاری اداروں سے کلاس فوراورکلرک کو نکال دیا جائے توچنددن کے اندرملک کا تیہ پانچہ ہو جائے،جتنا زیادہ کام چپڑاسی کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی بے عزتی ہوتی ہے اور تنخواہ نہ ہونے کے برابر ،سب سے پہلے ڈیوٹی پرپہنچنااور چھٹی سب سے آخر میں،کام صحیح کرے تو تعریف،شاباش سربراہ ادارہ کی اگر کہیں تھوڑی سی کمی رہے جائے تو بے عزتی اس بے چارے کی مفت میں۔تمام دن کولہوں کے بیل کی طرح۔۔۔۔نتیجہ میں وہی جو بیل کھی آنکھوں سے پٹی کھلنے کے بعد وہ وہی کا وہی ہوتا ہے،ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ تمام دن تم نے کیا ہی کیا ہے!
سکول کے چپڑاسی کی حالت تو اور بھی پتلی ہوتی ہے،چپڑاسیوں میں بھی کئی عہدے ہیں،مثلا نائب قاصد،چوکیدار،ڈرائیور،مالی،لیب اٹینڈنٹ اور ایک عہدہ کلاس فور یعنی کہ چپڑاسی بھی ہے۔اس کو جب چاہا کسی بھی کام پرلگا دیاباقی تو اعتراض کر سکتے ہیں یہ کام ہمارے ذمہ نہیں لیکن یہ خدائی بھینس ایسی ہے کہ جس کے ہاتھ لاٹھی ہے اس کے آگے آگے اس کو دوڑنا پڑتا ہے،صحن،گراؤنڈاورکمروں کی صفائی اس کے ذمہ ہے دیگر ملازمیں کے لئے چائے بنانا،برتن صاف کرنابھی فرائض میں شامل ہے سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اس کی کئی ذمہ داریاں ہیں کوئی بھی استاد جب بھی آئے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا اس کے لئے فرض عین کا درجہ رکھتا ہے جب کبھی کوئی سرپھرایہ کہہ دے کہ صفائی کرنا تو سویپر کا کام ہے تو اس کی شامت آجاتی ہے،جب ان چپڑاسیوں کو جھاڑوں لگاتے دیکھ کر کئی بے روزگاری سے تنگ آئے نوجوانوں نے میونسپل کمیٹی کی آسامیاں برائے سویپر کے لئے درخواستیں دی تو ان کو کورا سا جواب مل گیا کہ پاکستان میں جھاڑوں لگانے کی آسامیاں صرف غیرمسلموں کیلئے وقف ہیں کوئی بھی مسلمان سویپر بھرتی نہیں ہو سکتا،کاغذوں میں تو بھرتی نہیں ہوسکتا لیکن سارے کام ان ہی بے چارے مسلمانووں سے لئے جاتے ہیں۔بھلا چپڑاسی بھی کوئی اعلیٰ ذات کا مسلمان تھوڑی ہے یہ مسلمانوں میں ایسا ہے جیسے برہمنوں میں شودرہوتا ہے۔

چپڑاسی کی اوقات بھی شودر وں جیسی ہے، یہ ہے تو مسلمان لیکن مسجد میں بھی کبھیـ’’ایاز کومحمود کے ساتھ ایک صف میں کھڑاہونا پڑجائے توبیچارہ نماز میں بھی جھجکتا رہتا ہے کہ کہیں صاحب جھڑک ہی نہ دے،دن رات صاب کی خدمت کرتا ہے لیکن صاب لوگ تواس کو منہ نہیں لگاتے،کہ کہیں سفارش کا نہ کہہ دے،اس بیچارے کی سفارش بھی اس کی طرح بے وقت ہوتی ہے،کہ منت کرے گا بھی تو یہ کہ مجھے صاب آج جلدی چھٹی چاہیے،میرا بیٹا بیمار ہے اس کو سرکاری ہسپتال میں دکھانا ہے کیونکہ یہاں سے چھٹی کر کے لے جاؤ گا تو ہسپتال سے ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں جا چکا ہو گااور میرے پاس وہاں پر چیک اپ کرانی کی فیس نہیں ہے،لیکن صاحب سے چھٹی قسمت سے ہی مل سکتی ہے،کیونکہ صاحب سمجھتا ہے کہ بہانے باز ہے کوئی چکر کر رہا ہوگا،یا یہ سفارش کرے گا کہ میرے بیٹے کو فلاں سرکاری سکول میں داخلہ دلوا دیں ایسی معمولی معمولی سفارشیں بھی درخوراعتناء سمجھی جاتی ہیں۔

اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ چپڑاسی ہے،سب سے نچلے طبقے و درجے کی وجہ سے نارواسلوک کیا جاتا ہے تعلیم کا کوئی الاؤنس نہیں دیا جاتا،ترقی کے کوئی مواقع نہیں ان سے کام اس طرح لیا جاتا ہے جیسے گدھوں سے لیا جاتا ہے، گدھے سے بھی کام لے کر اس کو چھاؤں میں باندھ دیا جاتا ہے اور تازہ گھاس ڈالی جاتی ہے۔بعض چپڑاسی تو اپنے آفیسر کے گھر کے بھی سارے کام سرانجام دیتے ہیں،آفیسر اس کے ساتھ ایسا رویہ رکھتے ہیں جیسے برہمن شودر کے ساتھ،اچھے کپڑے پہن نہیں سکتا اگر پہن لے تو اساتذہ برا منانے ہیں کہ چپڑاسی ہو کر ایسے کپڑے پہنتا ہے،یہ اگر کام سے تھک کر بیٹھ جائے تواس کی شامت آجاتی ہے،معمولی معمولی باتوں پر آرڈر بک کر کے اس کو ڈرایا جاتا ہے اور سروس سرنڈر کے احکامات جاری کردیئے جاتے ہیں اور تنخواہ روک دی جاتی ہے۔معاشرے میں چپڑاسی ایک ایسی مخلوق ہے کہ بقیہ ملازمین کو تو گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور ان کے لئے کوئی چھٹی نہیں موسم کیسا بھی ہو،بارش ہو طوفان ہواس کو دوسرے ملازمین سے آدھا گھنٹا پہلے پہنچنا ہوتا ہے اور چھٹی آدھا گھنٹا بعد میں۔

اگر معاشرے میں نظرعمیق ڈالی جاتے تو پہلے تو لفظ’’ چپڑاسی‘‘سرے سے موزوں ہی نہیں،پورے معاشرے میں چپڑاسی برا اور گھٹیا سمجھا جاتا ہے اور بطور طعنہ استعمال ہوتا ہے۔حکومت وقت کو اس کا ازالہ کرنا چایئے۔چپڑاسی اگر اساتذہ کے سامنے بیٹھے یا ہنس کر بات کرے تواس کو برا سمجھا جاتا ہے اور کرسی پر بیٹھنا توگناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور کئی حضرات تو مصافحہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے لفظ’’چپڑاسی‘‘خامیوں کا مجموعہ ہے بعض سربراہ ادارہ اس کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں،اس کے ترقی کرنے کے کوئی مواقع نہیں اگروہ سربراہ ادارہ سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ ہے تب بھی اس کی ترقی ایک خاص امتحان اور وہ بھی سالوں بعدلے کر صرف کلرک تک محدود ہے اور بھی ٹائیپنگ ٹیسٹ امتحان ایک ایسی مشین پر لیا جاتا ہے جو سنہء65کی جنگ سے بھی پہلے استعمال ہوتی تھی،اگرچہ ترقی کر کے اس نے کام کمپیوٹرپر کرناہوتا ہے،تو امتحان بھی اس سے کمپیوٹر پر لیا جائے نا کہ ٹائیپنگ مشین پراس وقت پورے دنیا سے اور پاکستان میں بھی ٹائیپنگ مشین سسٹم اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

بعض لوگ چپڑاسی کو بادشاہ سمجھتے ہیں کہ صاب ان کے بغیر بات بھی نہیں کرتا وہ ایسا سوچتے اس لئے ہیں کہ اس کو صاحب کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میری اجازت کے بغیر اندر کسی کو نہیں آنے دینااور لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بادشہ ہے جی بادشاہ جس کو چاہتا ہے شرف ملاقات کیلئے جانے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے انتظار کی ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے اور کئی اداروں میں تو چپڑاسی ایک اعلیٰ عہدہ میں فائز تصور کیا جاتا ہے وہاں جہاں ہرکام رشوت سے ہوتا ہے وہاں پر یہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتاہء اور کئی خوش قسمت تو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور اس میں ایک مخصوص حصہ اپنے آفیسر کو دان کرتے ہیں۔

ساری زندگی صاحب لوگوں کی خدمت کرتے کرتے ذہن میں غلامانہ سوچ جنم لے لیتی ہے،ہروقت ڈرا سہما سا رہتا ہے نجی محفلوں میں بھی گھبرایا گھبرایاہو گاکہ یہاں پر بھی اگر محکمہ کا کوئی شخص ہوا تو پھر وہی ڈیوٹی سرانجام دینا پر جائے گی،ساری زندگی صاب لوگوں کی چاکری کرتے گزر جاتی ہے جب ریٹائر ہوتا ہے تو اپنی ساری زندگی کی حق حلال کی کمائی کو وصول کرنے کیلئے دھکیں کھاتا پھرتا ہے اور اکاؤنٹس آفس میں رشوت دئیے بغیر اپنی پنشن تک وصول نہیں کر سکتااور ریٹائرمنٹ کے پیسے بھی اتنے ملتے ہیں کہ اپنے کسی ایک بچی کی شادی ہی کر سکتا ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور کھانستا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے جس کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریوں سے دوستی لگا بیٹھتا ہے اور کھانستے کھانستے بلآخرقبر میں چلا جاتا ہے اور پیچھے اس کی اولاد وہی سے زندگی شروع کرتی ہے جہاں سے اس نے شروع کی تھی کیونکہ پاکستان میں آفیسر کا بیٹا آفیسر اور چپڑاسی کا بیٹا چپڑاسی ہی بنتا ہے۔
Shahid Iqbal Shami
About the Author: Shahid Iqbal Shami Read More Articles by Shahid Iqbal Shami: 41 Articles with 54314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.