زندگی بھی کیا کیا چہرے رکھتی ہے،
صبح اور شام اور رات اور..!
صبح کا سورج نکلنے سے پہلے کرنوں کی سلامی دیتا ہے تو فکر انسانی کچھ کر
گزرنے کی جنبش سی محسوس کرتی ہے. کیا غریب کیا امیر ہر کوئی فکر معاش کی
کھوج میں کھوتا چلا جاتا ہے.
موقوف نہیں دام و قفس پر ہی اسیری
ہر غم میں گرفتار ہوں ، ہر فکر میں پابند
آفتاب آسمانی آہستہ آہستہ اپنی حرارت کو گرمی دیتا ہے تو ادھر فطرت انسانی
اپنا پسینہ زمین کی نظر کرتی چلی جاتی ہے کہ اتنے میں وقت شام آ پہنچتا ہے،
اور سورج کی کرنیں الوداعی تمازت بکھیر کر گویا سوچ و بچار کا یہ پیغام دے
رہی ہوتی ہیں کہ آج کیا کھویا کیا پایا ہے.؟
کوئی تو سوچ کر خوش و خرم ہو جاتا ہے اور کوئی بھوکے بچوں کی سسکتی آہوں کو
سوچ کر آخری کرنوں کو رکنے کی دوہائی دیتا ہے گویا ...
اب وہ ڈرتے ہیں میرے ساۓ سے خدا کی قدرت
دوڑ کر میری آغوش میں آنے والے
مگر نظام قدرت ہے.... جس کو جانا ہو وہ رک نہیں سکتا...اور جس کو رکنا ہو
وہ جا نہیں سکتا.
خیر بات ہو رہی تھی سورج کی.... جی ہاں... جاتے جاتے انسان کو اداسی کی
امانت تھام کر پھر سے آنے کا وعدہ دے کر چلے جانا سورج کی عادت ہے... خود
تو چلے جاتا ہے مگر نہ جانے کتنے دلوں کو دل دوز شام کا دامن پکڑا جاتا ہے.
ابھی یہ لمحات جذبات انسانی کو آزاد کرتے ہی ہیں کہ "چاند" اپنا رخ روشن
عیاں کر کے دل کے زخم عیاں کرنے لگتا ہے... اور صرف عیاں ہی نہیں، اگر کوئی
قسمت والا سنبھل جاۓ تو "چاندنی" کے حسن کے ایسے وار کرتا ہے کہ دو لخت کر
دیتا ہے.
شائد یہ اسکا انداز داد رسی ہو ...لیکن ارے چاند بابا... یہ کیسی داد رسی
ہے کہ گھائل ہی کر کے رکھ دیا ؟....جواب ملتا ہے ... اگر گھائل نہ کروں تو
مجھے چاند اور میری روشنی کو چاندنی کون کہے گا.... یہ سننا تھا کہ بس ...
نظر آنے لگا ہر سو وہی وجد آفرین عالم
کچھ ایسے وجد کے عالم میں اس محفل سے ہم نکلے
لیں جناب .... خدائی دربان، الله اکبر الله اکبر کی صدا لگا رہا ہے....
آفتاب کائنات دوبارہ نمودار ہونے کو ہے.
پھر اک نئی صبح کے ساتھ ... حرارت و تمازت کے زخم وجدان پر سہنے کے لئے
اپنے قلم کو روک کر کرنوں سے پہلے خود سجدہ ریز ہونے کو ہوں.
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے.... جو وحدہ لا شریک ہے! |