گزشتہ دنوں انتہا پسند ہندو
تنظیم ’راشٹریہ سیوگ سنگھ‘(آر ایس ایس)کے وردیوں میں ملبوس مسلح دستے نے
جموں کی سڑکوں پر مارچ کیا تو ریاست جموں وکشمیر کے تمام مسلمانوں میں
تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ جموں میں رہنے والے مسلمانوں میں اس بات کا خوف
پایا جا رہا ہے کہ ’آر ایس ایس‘ کے مسلح دستے اب جموں کا رخ کر رہے
ہیں۔1947ء میں جموں کے مسلمانوں کا جس طرح قتل عام کیا گیا،اس کی یادیں
جموں وکشمیر کے لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی ہیں۔جموں کے بعض ٖڈوگروں
کا کہنا ہے کہ جموں میں’’ دو لاکھ‘‘ کی تعداد میں مسلمانوں کا ہلاک کرنا
درست نہیں ہے،ان کے بقول اتنی زیادہ تعداد میں جموں کے مسلمان ہلاک نہیں
ہوئے۔ اکتوبر 1947ء کے آخری ہفتے میں جموں کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی
بستیوں کو لوٹنے اور جلانے کی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں اور نومبر کے
پہلے ہفتے سے جموں سے ہجرت کرنے والوں کا بھر پور قتل عام شروع ہوا۔ 5
نومبر کو جموں شہر کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ایک جگہ جمع ہو کر پاکستان
جانے کیلئے تیار رہیں۔ اور جب چالیس ٹرکوں کا پہلا قافلہ روانہ ہوا تو
راستہ میں ان کا راستہ بدل کر ایک میدان میں اتارا گیا جہاں ڈوگرہ غنڈہ
پہلے سے تیار تھے،اور تمام قافلہ ختم کیا گیا۔ چھ نومبر کو 70 ٹرکوں پر
دوسرا قافلہ روانہ ہوا۔ ان کو بھی اسی طرح ختم کیا گیا بے گناہ مسلمانان
جموں کا یہ قتل عام نومبر کے آخیر تک جاری رہا۔ اس دوران 5 لاکھ سے زیادہ
مسلمان پاکستان میں دھکیل دیئے گئے ۔ دو لاکھ کے قریب شہید ہوگئے ۔ 16 ہزار
عصمت مآب نوجوان خواتین کو اغواء کیا گیا ۔ ان دلخراش واقعات کو قلم بند
کرنے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔جموں کے مسلمانوں کا یہ قتل عام دور جدید
میں انسانی وحشت کی ایک بھیانک مثال ہے۔
غیر جانبدار حلقوں کے مطابق بھی جموں سے پانچ لاکھ افراد ہجرت کر کے
پاکستان پہنچے جبکہ دو لاکھ افراد کو جموں سے پاکستان آتے ہوئے قتل عام میں
ہلاک کر دیا گیا۔ہورس الیگزینڈر نے ڈیلی ’’سپکٹیٹر‘‘ (16 جنوری 1948 ء)میں
لکھا کہ ’’ریاستی حکومت نے حکمت عملی کے تحت قتل عام کیا اور قتل ہونے والے
مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ ’’دی ٹائمز‘‘ لندن (10 اگست1948 ء)
نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ڈوگرہ فوج نے ہندؤوں اورسکھوں کی مدد سے
دولاکھ سینتیس ہزارمسلمان باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہلاک کئے۔ جب تک کہ
وہ سرحد پار کر کے پاکستان نہیں چلے گئے۔‘‘ڈیلی ’’سٹیٹمین‘‘ کے ایڈیٹر آئن
سٹیفن نے اپنی کتاب ’’آنرڈ مون‘‘ میں لکھاکہ1947 ء میں خزاں کے اختتام تک
دولاکھ سے زائدمسلمان ہلاک کئے گئے۔ ان واقعات سے متاثر ہوکر برطانیہ کے
اخبار ’’ٹائم اینڈٹائیڈ ‘‘لکھتا ہے ، ’’جب کشمیر میں امن وامان قائم ہوجائے
گا سیاستدان کہتے ہیں کہ ایک استصواب رائے عامہ ہوگا۔ کیا خاک استصواب
ہوگا؟ اور کس سے استصواب کیا جائے گا۔ جب رائے دینے والے موت کی نیند سو
چکے ہوں گے یا خوف کے مارے جن کی زبانیں خاموش ہوں گی‘‘۔
خود بھارتی حلقے بھی جموں میں ہونے والے اس قتل عام کی تصدیق کرتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے ایک سابق صدر سرداربدھ سنگھ نے ایک تقریر میں اعتراف
حقیقت کرتے ہوئے کہا ٗ ’’ سچ پوچھو تو ہمارے ہندو بھائی ہی راجوری اور
میرپور و جموں کے قتل وخون کے ذمہ دار ہیں۔ یہی ناحق قتل وخون کے حالات سن
کرقبائلی سرینگرکی طرف بڑھے۔ (ہفت روزہ سچ ٗ جموں 25 مئی 1949 ء) ۔وزیراعظم
مسٹر نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں جموں کے قتل عام کا ذکرکرتے ہوئے بتایا
،’’ماہ نومبر کے اوائل میں جموں کے قریب بعض ایسے حوادث پیش آئے جن پر مجھے
افسوس ہے۔ مسلم پناہ گزینوں کا قافلہ جموں سے جا رہا تھا اس پر غیر مسلم
پناہ گیروں اور دوسرے لوگوں نے حملہ کیا اور بہت سے لوگ مقتول اور زخمی
ہوگئے۔ محافظ فوج نے اپنا فرض بعزت طریق پر ادا نہ کیا‘‘۔ شیخ محمد عبداﷲ
نے 12 نومبر1947 ء کو ایک بیان میں جموں کے حادثات کا ذکرکرتے ہوئے کہا،’’
صوبہ جموں کے حالات خوشگوار نہیں مگر یہ ان حالات کا ردعمل ہے جوکچھ مغربی
پنجاب (پاکستان )میں ہوا ہے‘‘۔
2004 ء میں ایک وفد کے ہمراہ مجھے جموں شہر کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ جموں
شہر کے استاد محلہ کی مسجد ہجری میں درجنوں مسلمانوں سے ملاقات کا موقع ملا
۔ہم نے جموں میں تحریک آزادی کشمیر کے گڑھ اورجموں میں مسلمانوں کے اکثریتی
علاقے تالاب کھٹیکاں کا دورہ بھی کیا۔ مسجد میں موجود مسلمانوں نے کہا کہ
انہیں پاکستان کاویزہ لینے میں بہت مشکلات کاسامنا ہے نئی دہلی میں قائم
پاکستانی ایمبیسی میں جموں کے مسلمانوں سے ویزے کے حصول کے سلسلے میں
یوٹلیٹی بلز طلب کئے جاتے ہیں جموں کے مسلمانوں نے کہاکہ ان کی درخواست
حکومت پاکستان کوپیش کی جائے کہ انہیں اپنے عزیزواقارب سے ملنے کیلئے
پاکستان ویزے جاری کرنے میں آسانی پیدا کی جائے۔ اس موقع پر جموں کے
مسلمانوں نے حکومت پاکستان کے نام پر ایک تحریری درخواست وفدکے ارکان کودی
جس میں استدعاکی گئی کہ جموں اور سیالکوٹ کے درمیان بھی لوگوں کوآمدورفت کی
اجازت دیجائے۔ |