مسلم بن کر ہند میں رہنا سب کے بس کی بات نہیں

مسلم بن کر ہند میں رہنا سب کے بس کی بات نہیں۔ظلم پہ ظلم سہتے رہنا سب کے بس کی بات نہیں
کیا ملک میں پانچ سالوں تک بس اب یہی ہوگا:ہندو،مسلمان سے الجھتے رہیں گے،افواہوں پربھوکے پیٹ ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے،غریبی،مہنگائی،کالا دھن کا بس واویلا مچا رہے گا!

ملک میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی فرقہ واریت،عدم رواداری،مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی،آئینی حقوق سے محرومی، صرف افواہ اور شک پر قتل وغارت،سیاست میں مسلمانوں کا نمک کے برابر حصہ اب عام ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں صرف اسی بنیاد پر سزا دی جاتی ہے یا سزا واپس لی جاتی ہے کہ وہ شخص جس کو سزا دی جارہی ہے آیا کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔عدالتوں میں مسلمانو ں کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے کیس بھرے پڑے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر مورود الزام ٹہرانا، بے گناہی میں پھانسی کی سزا دے دینا کیا یہ صرف مسلمانوں کا ہی مقدر بن چکا ہے۔ مگر دیگر مذاہب کے خلاف حکومت اور فرقہ پرستوں کا رویہ بالکل برعکس ہے انہیں تمام جرائم کرنے کے بعد بھی پردہ پوشی کردی جاتی ہے انہیں قانون کے کٹہرے سے کوسوں دور رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے۔ اب یہ ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ آئے دن آپ سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں کہ ہر بار کچھ نہ کچھ واقعہ مسلمانو ں کے خلاف ضرور پیش آرہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خود ہی مندر میں گوشت پھینکواتے ہیں ،دیواروں پر نعرہ تکبیر اﷲ اکبر لکھواتے ہیں، اور الزام مسلمانوں پر دھرتے ہیں اور ان کے خلاف کاروائیاں کی جاتی ہیں یہاں تک کہ پولس بھی بے قصور مسلمانوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتی۔گائے کے گوشت کھانے کی افواہ کو لے کر قتل کردیا جاتا ہے اور پھر کہیں ایک مندر کے لاؤڈاسپیکر سے گائے کے گوشت کھانے کی افواہ اڑا کر بے گناہ کو قتل کردیا جاتا ہے یا پھرسزا کسی مسلم کو دے دی جاتی ہے اور پھر اس واقعہ کو طول دینے کے لئے مکار بکے ہوئے ٹی وی چینلز والے فالتو قسم کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو جمع کردیتی ہے اور اس پر تبصرہ پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔

جس طرح سے بے گناہ اخلاق کو قتل کیا گیا اسی وقت ممبئی سے اسی نوعیت کی یہ خبر آرہی تھی کہ وہاں ایک کمپنی میں کام کررہے یعقوب نامی مسلمان کو ان کے ساتھیوں نے یہ کہہ کر قتل کردیا کہ بہت قربانی کا گوشت کھاکر آئے ہواب ہم تمہارا گوشت کھائیں گے۔تفصیل کے مطابق یعقوب عبد الحسن ممبئی کی ایک کمپنی ٹویوٹا میں ملازمت کررہا تھا جب وہ کمپنی میں گیا تو اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کرنا شروع کردیا کہ کیسے عید منایا ،کیا کیا اور اسی دوران اس کا قتل کردیاگیا جس کی تحقیق پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولس کے ذریعہ کی گئی تفتیش سے ہوئی ہے اور کمپنی میں کام کرنے والے ایک ساتھی نے قتل کا اعتراف کیا۔

کیا ہے یہ سب کدھر جارہا ہے ہمارا ملک،ہندوؤں اور مسلمانو ں کو بانٹنے کی روایت کوئی آج کی نہیں برسوں پہلے اس کام کو یہودیوں نے شروع کیاوہی نظریات کے حامی ہمارے ملک آج بھی موجود ہے۔

ایک کالم نگار نے اپنے مضمون میں اس بات کا ذکر کیا کہ:جنوری 14 سنہ 1887 کی ایک خط میں وزیر خارجہ وسکاؤٹ کراس نے گورنر جنرل ڈفرن کو لکھا: ’مذہبی احساس کی تقسیم ہمارے مفاد میں ہے اور ہم ہندوستانی تعلیم اور تعلیمی مواد پر آپ کی تفتیشی کمیٹی سے اچھے نتائج کی امید کرتے ہیں۔‘اسی طرح وزیر خارجہ جارج ہیملٹن نے گورنر جنرل لارڈ کرزن کو لکھا: ’اگر ہم ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو دو حصوں ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر سکتے ہیں تو اس سے ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی۔۔۔ ہمیں درسی کتب کو اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ دونوں مذاہب کے اختلافات میں مزید اضافہ ہو۔‘اس طرح سنہ 1857 کے بعد برطانوی حکمرانوں نے دانستہ طور پر ہندووں اور مسلمان کے درمیان نفرت پھیلانے کی پالیسی اپنائی اور اس پر کئی طرح سے عمل کیا گیا۔جب بھی کبھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے نصف درجن مسلمانوں کو پکڑ کر مسئلے کو حل کرتی ہے۔1۔ مذہبی رہنماؤں کو دوسرے مذہب کے خلاف بولنے کے لیے رشوت دی گئی۔ انگریز کلکٹر خفیہ طور پر پنڈتوں کو بلا کر مسلمانوں کے خلاف بولنے کے لیے پیسے دیتے اور اسی طرح مولویوں کو ہندوؤں کے خلاف تقاریر کرنے کے لیے پیسے دیے جاتے۔2۔ مسجد کے سامنے نماز کے وقت اشتعال پھیلانے والے ایجنٹوں کے ذریعے زور و شور سے موسیقی بجوائی جاتی یا پھر مندروں کے سامنے گائے کے گوشت پھنکوائے جاتے اور دیواروں پر اﷲ اکبر کے نعرے لکھوائے جاتے۔3۔ تاریخ کی کتابوں میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لیے رد و بدل کیا گیا۔ دانستہ طور پر فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے۔ سنہ 1909 کے منٹو مورلی اصلاحات نے ہندو اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ رائے دہندگی قائم کی۔4۔ ہندی کو ہندؤوں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان کا پروپیگنڈا کرایا گیا حالانکہ سنہ 1947 تک اردو ہندوستان کے بڑے خطے میں ہر تعلیم یافتہ ہندو، مسلمان اورسکھ کی زبان ہوا کرتی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی قائم کی گئی۔یہی فرقہ واریت سنہ 1947 کے بعد بھی جاری رہی اور حالیہ دنوں میں اس نے خطرناک صورت حال اختیار کر لی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن یہ سب کیوں؟ کیا اس ملک میں مسلمانوں کو رہنے کا حق نہیں ہے کیا یہاں مسلمان ہونا جرم ہے ،کیا یہ ملک حکومت اور ان کے چیلوں کی نظر میں ہندوراشٹر ہے اور اس جرم کی پاداش میں قتل کرنا یہاں تک جائز ہے کہ ایک عام ہندو جب جس کا جی چاہے کسی بے گناہ مسلمان کا قتل کردے۔کیا مسلمان بس اسی ہندوفرقہ واریت کی بھینٹ چڑھتا رہے گا؟ کیا مسلمانوں کو اپنی حفاظت اور خود پر ہورہے ظلم وجبر اور نا انصافی کے لئے ا?واز اٹھانا،لب کشائی کرنا بھی جرم ہے گنا ہے۔ملک میں ہورہے مسلمانوں پر تشدد کو لے کر پچھلے کئی دنوں سے ملک کے سیکولر ذہنیت رکھنے والے ادباء شعراء اور دیگر شخصیات نے ایوارڈ واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا پھر اس کے بعد کتابیں بھی واپس کی جانے لگی۔ اسی رو میں ملک کے نامورمنجھے ہوئے مسلم اداکارشاہ رخ خان نے بھی اسی عدم تحفظ اور روادی کے چلتے اپنی آواز اٹھائی تو کیا غلط کیا۔شاہ رخ خان نے گذشتہ دنوں اپنی 50 ویں سالگرہ پر ایک انٹرویو میں بھارت میں عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کیا :اور کہا کہ ملک میں عدم تحفظ او ررواداری بڑھتی جارہی ہے اگر مجھے بھی ایوارڈ واپس کرنا پڑا تو میں بھی ایوارڈ واپس کردونگا۔بس پھر کیا تھا،مودی جی کے سستی شہرت کے دیوانے اور لالچی قسم کے وزراء نے خان صاحب کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔کسی نے کہا اس کی روح پاکستان میں ہے،تو کسی نے کہا: یہ پاکستان کا ایجنٹ ہے،بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان اگر کبھی پاکستان گئے تو وہاں انھیں اپنی روح مل سکتی ہے!بی جے پی رہنما ارون جیٹلی کو بھارت میں ہر جگہ امن اور شانتی نظر آتی ہے۔ایک مسلم فلم اداکار جو دین اسلام اور شریعت سے کوسوں دور ہیں اس کے کہنے پر اتنا واویلا او رہنگامہ کھڑا ہورہا ہے اگر یہی کام ہندوستان کے تمام علمائے کرام یکے بعد دیگرے کرنا شروع کردیں توپھرکیسا ہوگا؟۔۔۔۔یہ بات تو صحیح ہے کہ ہر جرم روکا نہیں جاسکتا لیکن مودی جی کے خاص کارندوں کا الفاظ کا انتخاب ایک مخصوص سوچ کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے۔ اسی لیے ہندوستان میں بہت سے مورخین، سنگت کار، فلم ساز اور ادیب وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ایک کالم نگار کا کہنا ہیکہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی سالگرہ پر ٹوئیٹ کرنے کا وقت ہے تو وہ اتنے بڑے افسوس ناک واقعات پر کیوں خاموش رہے؟

مودی جی ہمارے ملک کے وزیراعظم نہیں ہے وہ صرف مالداروں،بلڈروں اور ارب پتیوں کے وزیراعظم ہیں۔غیر ملکی دورے اتنے زیادہ کہ شاید ہی کسی وزیراعظم نے کئے ہوں۔ان غیر ملکی دوروں کا کیا مقصد ہے۔کیا حاصل ہونے والا ہے ان دوروں سے؟اگر سوچا جائے تو یہ بات بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے وزیراعظم ان مالداروں اور ارب پتیوں کو دیگر ممالک میں فیکٹری اور دیگرپیسہ کمانے کے ذرائع فراہم کررہے ہیں اور کچھ نہیں۔مودی جی!بیرونی ممالک میں آپ کی تھو تھو ہورہی ہے۔ ڈرامے بازی بند کیجئے، سیلفی لینا ، پارلیمنٹ میں جھک کر جانا، اور دیگر ایسے اسکیمات جن سے نہ ملک کو فائدہ ہے اور نہ ہی ملک کے رہنے والوں کو۔

غیر ملکی دورے کرنے کے بجائے ہماری مودی جی سے گزارش ہے کہ وہ ان پاکھنڈیوں کی زبان کو تالالگائے جو آئے دن فرقہ واریت اورفرقہ پرستی کواپنے زہر آلودذہن سے ہوا دیتے رہتے ہیں ملک میں قائم امن وشانتی کو خراب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔پولس والو ں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی طرف توجہ لائے۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب دوسرے مذاہب وقوم کے لوگ بھی افواہوں پر اور شک پر دھیان دینا شروع کردیں گے۔

بہر کیف اب وقت آ گیا ہے کہ ہر وہ سیکولر ہندوستانی اس مفادپرست کے مذموم کھیل کو سمجھیں۔ملک کے انسان دوست دانشوروں، سیکولر عوام جن میں ہندوؤں کی اکثریت شامل ہے اور خود مسلمانوں کو ملک اور قوم کی اس نازک اور افسوسناک صورتِ حال کے لئے پرامن اور جمہوری جدوجہد کا راستہ پوری شدت اورواستقامت کے ساتھ اختیار کرنا ہوگا۔ورنہ یہ دھماکہ خیز صورتِ حال ہمارے مستقبل کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
بولا چالا معاف کرا۔۔۔مثبت سوچئے مثبت بولئے۔۔۔اپنا اور اپنو ں کا خیال رکھئے۔۔۔انشاء اﷲ پھر ملاقات ہوگی۔ اﷲ حافظ
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.