یو ں تو ا ردو کے بے شمار
الفاظ کو اسطرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے وہ اردو کا نہیں سیاست کی زبان کے
الفاظ ہوں اُن بے شمار الفاظوں میں ایک لفظ ہے" منفی ہتھکنڈہ "اس لفظ کو
سیاست میں اس قدراستعمال کیا جاتا ہے کہ اردو زبان خود اس سے پریشان اور اس
لفظ کا شکار ہے ۔ منفی ہتھکنڈے کے لغوی معنیٰ چال،عیاری،مکاری کے ہیں یعنی
اپنے مقاصد کیلئے Negativ Means استعمال کرنا۔ ویسے تو آج کل ہر شعبہ زندگی
میں منفی ہتھکنڈوں کا استعمال عقلمندی کہلاتا ہے جسکا دوسرا مطلب ہر جانب
جھوٹ کا راج ہونا ہے ،سیاست کو تو عرف عام میں جھوٹ قرار دے دیا گیا
ہے۔سیاست دان بھی بڑی بے فکری سے اسکو چال کے لئے استعمال کرتے ہیں ،عالمی
سطح پر بھی اپنے مقاصد کیلئے منفی ہتھکنڈے استعمال ہوئے ہیں جدید دنیا میں
اسکی سب سے بڑی مثال عراق میں امریکی فوجیں داخل کرنے کیلئے استعمال ہواجب
کہا گیاکہ خفیہ اداروں کی رپورٹس ہیں کہ صدام حسین یا عراق کے پاس بڑے
پیمانے پر دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیار ہیں جب کہ حقیقت میں اسکے پاس سے
کھلونا ہتھیار بھی نہیں نکلے ،بھارت بھی اکثر کبھی کبوتر کی شکل میں تو
کبھی اپنے ہی مسلم شہریوں کو پکڑ کر پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر پاکستان پر
دہشت گردی کروانے کے الزام لگادیتا ہے اور گر پاکستان میں بھی جو کیس حل
نہیں ہو سکے تو اسے غیر ملکی ایجنٹس کی کارستانی قرار دے دیا جاتا
ہے،الیکشن کے موقع پر اپوزیشن اور بر سر اقتدار حضرات یہ لفظ استعمال کرتے
ہیں، اب تو اردو زبان خود اس منفی ہتھکنڈے کا شکار ہے ،معزز عدالت عظمی نے
اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا کہا ہے لیکن حکومت اس سلسلے
میں منفی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے سست روی پر اکتفا کئے ہوئے ہے ،دراصل
پاکستان کا غالب حکمران طبقہ انگریزی زبان کا رسیا ہے۔ کیونکہ اسکے مفادات
اب تک انگریز آقا سے منسلک ہیں۔ وہ روز مرہ زندگی میں انگریزی وضع قطع کو
ترقی کا زینہ سمجھتا ہے اس لیے اسکی اردو زبان کو ملک میں رائج کرنے میں
غیر سنجیدگی سمجھ میں آتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود نو منتخب چیف جسٹس جناب
جواد۔ایس۔ خواجہ نے پہلی دفعہ اردو میں حلف اُٹھا کراردو کے خلاف منفی
ہتھکنڈے پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اسکے بعد آفس کے باہر اپنے نام کی
پلیٹ اردو میں لکھوائی،اور اب آرٹیکل 251کے تحت قومی زبان کو بلا تعطل رائج
کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ، پاکستان کی انگریزی اشرافیہ کیلئے یہ صورت
حال کوئی خوش کن نہیں کیونکہ اردو کو ہر شعبہ زندگی میں رائج کرنے کا مطلب
کروڑوں عوام کو زبان دینا ہے۔ اب تک انگریزی عرضی نویسوں کو ڈھونڈنا پڑتا
تھا لیکن نئی صورت حال میں ایک دم عرضی لکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں
پہنچ جائے گی جو یقیناً سرکاری اہلکاروں اور بیورو کریسی کیلئے خاصی
پریشانی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دیار غیر میں کوئی ہم وطن مل
جائے تو آدمی اپنی زبان بول کر منہ کی تھکاوٹ کم کرتا ہے ۔توقع ہے کہ عوام
بھی اپنی 68 سال کی دفتری زبان کی لاچارگی سے چھٹکارہ حاصل کرے گی۔ اس
سلسلے میں پرنٹ میڈیا پر تو کہیں کہیں تجزیہ نگار تجزیہ کرتے ہوئے نظر آئے
ہیں لیکن الیکٹرونک میڈیا میں ماڈل ایان علی کو تو اہمیت حاصل ہے جو
انگریزی وضع و قطع کو نمایاں کرتی ہے لیکن کسی بھی چینل نے ارد و کو اہمیت
دینے کی تاحال جسارت نہیں کی، اردو کے ساتھ منفی ہتکنڈوں کے باوجود ہمیں
توقع کرنی چاہیے کہ بڑے بڑے انگریزی فارمز،سرکاری شرائط،بینک کے رولز،دفاتر
کے قوانین،عدالتوں کے فیصلے، سمیت عوام کے پاس علم و آگاہی کا سمندر آجائے
گا ۔ ہم دعا گو ہیں کہ عدالت عظمیٰ کو چیف جسٹس جواد ۔ایس خواجہ جیسے صاحب
علم اور وطن پرست ججز نصیب ہوتے رہیں۔اب انکے ریٹائر منٹ کے بعد بھی توقع
کرتے ہیں کہ اردو کے مکمل نفاذ کا فیصلہ ان فیصلوں میں شامل نہ ہو جو سنائے
تو گئے لیکن عمل درآمد سے محروم رہے اور اب مزید منفی ہتھکنڈوں کا استعمال
متروک قرار پائے۔گزشتہ دنوں حکومت نے ا ردو کو سرکاری طور پر رائج کرنے کے
لئے کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیاجو کہ خوش آئند ہے۔جبکہ شعبہ
ہائے زندگی کے تمام طبقات میں اردو کی ترویج کو پزیرائی حاصل ہو رہی ہے
لیکن اسکے با وجود حکومتی حلقے منفی ہتھکنڈوں کی جانب مائل دکھائی دے رہے
ہیں
اپناؤ گے جو تم دوستوں اردو زبان کو
روک سکے گا پھر نہ کوئی تمھاری اُڑا ن کو |