ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے۔؟

انسانی احتیاجات میں تیزی سے پیدا ہونے والی نمو نے پوری دنیا میں افراط زر میں بہت خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔ جن ممالک میں معاشی سرگرمیاں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام یا امن و عامہ کی صورتحال کی وجہ سے ڈھیلی ڈھالی چل رہی تھیں وہاں افراط زر کی وجہ سے مہنگائی میں ہوشروبا اضافہ ہو چکا ہے۔پاکستانی معیشت کا پہیہ جس طرح چل رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ٹیکس کلچر نہیں ہے اور نہ تجارت میں ایمانداری کا عنصر موجود ہے۔جب ریاست کے پاس اپنے انتظام و انصرام کے لیے ریونیو نہیں ہوگا تو وہ کس طرح چل پائے گی۔حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ پاکستانی معیشت کی بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی فوج کا لازوال کردار ہے۔ کراچی میں امن و امان کی بحالی نے وہاں روشنیاں بکھیر دی ہیں۔ پاکستان کی معاشی حب کراچی میں امن آنے کا مطلب سیدھا سادا سا یہ ہے کہ اب کاروبار میں تیزی آئے گی۔ حکومتِ پاکستان کو محصولات میں جو کمی کا سامنا ہے اِس کی بڑی وجہ ایف بی آر کے کرپٹ افسران ہیں۔ پاکستان میں ا حتساب کا ادارہ صرف سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر حرکت میں آتا ہے اگر ایف بی آر کے افسران اپنی محنت کرنے کا حق ادا کریں۔ تو پھر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر پروان چڑھ سکتا ہے ۔ یک جنبش قلم اگر یہ حکم صادر فرما دیا جائے کہ ایف بی آر کے افسران کے اثاثہ جات اور اُن کا موجود ہ رہن سہن کا انداز اور اُن کے بچوں کی تعلیم کے اخرجات کتنے ہیں اوراُن کی تنخواہ کتنی ہے۔افسوس جب بھی ہمارئے ملک میں آمریت آئی وقتی طور پر تو اُنھیں چھوٹی موٹی کامیابیاں ملتی رہیں لیکن بعد ازاں آمریت کے سردار سیاستدانوں کو اپنے گرد جمع کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔یوں پھر اقتدار کو طول دینے کے چکر میں پڑنے والے ہمارئے فوجی سپہ سالار نے پہلے دن جو قوم کے ساتھ انقلابی وعدئے کیے ہوتے ہیں اُن کو مفادات کی نظر کردیا جاتا ہے اور پھر وہ بے ڈہنگی چال سے نظام فیض یاب ہوتا رہتا ہے جس بے ڈھنگی چال کو آمر نے ٹھیک راہ پہ چلانے کے لیے سیاسی اداروں کو روندا ہوتا ہے۔چند روز قبل ایک کالم نگار نے ایک بات کہی تھی کہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمیں جو آمر ملتا ہے وہ بھی جینون نہیں ہوتا۔یوں وطن کے ساتھ محبت کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں نوکر شاہی اور ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کا گٹھ جوڑ اور کرپٹ سیاسی مہرئے ایسے ہیں جو کہ گجرات کے چوہدریوں کی طرح سیاست کرتے ہیں کہ بس حکومت میں رہنا ہے خواہ مشرف ہو خواہ زرداری ہو۔خواہ جمہوریت ہو خواہ آمریت ہو اُنھیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چوہدریوں کی سیاست کا تو میں نے بطور استعارہ استعمال کیا ہے سیاسی قبیلے میں ہر طر ف ایسا ہی ہے۔ جیسے ہی پیپلز پارٹی کی حالت کمزور ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی کے سیاست دان تحریک انصاف کی کشتی میں دھڑا دھڑ بیٹھ رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہی کہ ٹکٹ ملے گی اور اقتدار حاصل کریں گے۔ نظریات والا معاملہ صرف سیاسی جماعتوں کے منشور میں لکھے ہوئے الفاظ تک محدود ہے۔ملٹری اسٹیبلیشمنٹ جب چاہتی ہے اقتدار میں آجاتی ہے جب چاہتی ہے فوجی آپریشن کرتی ہے جب چاہتی ہے ملک میں امن و امان ہو جاتا ہے۔ سب کچھ تو فوج کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح کا ہمارا ہمسایہ دشمن ہے جو کہ پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتا ان حالات میں پاکستان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے سوائے فوج پر انحصار کے اور کوئی حل نہیں ۔ اسی لیے توتو اِس وقت فوج عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے کہ دہشت گردی کا قلع قمع کردیا ہے۔ معاشی حوالے سے ممکنہ تبدیلی نظر آرہی ہے۔ چین کی جانب سے بھر پور معاشی تعاون نے پورئے خطے کی حثیت تبدیل کر دینی ہے۔دیگر الفاظ میں یہ کہنا سب سے زیادہ مناسب ہوگا کہ فوج کی کمان ہی ملک کی کمان ہے۔ پاکستان کے منظر نامے میں کلیدی کردار اس وقت جنرل راحیل شریف کا ہے۔ نواز حکومت لگتا یہی ہے کہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے۔ انسانی آزادیوں کا شور مچانے والے معاشی دہشت گرد خود تو عوام سے دور رہتے ہیں۔ علحیدہ ہاوسنگ سو سائٹیاں ، علحیدہ سکول، علحیدہ شفا خانے ۔ کچھ بھی تو نہیں ہے اشرافیہ کا اور عوام آپس میں کوئی تعلق۔ انگریز جس طرح اقلیت میں رہ کر حکومت کرتا تھا ۔ ہماری نوکر شاہی بھی یہ ہی حال ہے۔عمران خان کی پارٹی میں سب وہی لوگ ہیں جو کہ دہائیوں سے سیاست میں ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں میں سے نکل کر تحریک انصاف میں آئے ہیں وہی روایتی جاگیر دار، سرمایہ دار ہر پارٹی میں ہیں۔ تبدیلی کہاں سے آئے گی۔ٹیکس چور تاجر نہیں ہیں۔ٹیکس چوری نوکر شاہی کرواتی ہے۔ تاکہ رشوت چلتی رہے ملکی خزانے نے خاک بھرنا ہے جب باہر مک مکاء کرنے کا سہرا اِسی کرپٹ نوکر شاہی کے سر پر ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے ماحول نے ملک ی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ پاکستان سے تیزی سے سرمایہ کاری باہر منتقل ہوگئی ہے۔ حتی ٰ کہ صنعت کار بنگلہ دیش میں جا پہنچے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے انرجی کا بحران اور امن و مان کی صورتحال کا پیدا ہونا۔امریکی مداخلت اور ساتھ بھارت کا گٹھ جوڑ ۔ پاکستانی کے عمرانی اور سماجی ڈھانچے کی ہیت تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ ہوس نے ڈیرئے ڈالے ہوئے ہیں۔ خانگی نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ تعلیمی نظام تباہ و برباد ۔ڈگریوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ کہاں ہے احتساب کمیشن، کہاں ہے نیب کے افسران۔ سارئے کام اگر فوج سے ہی ٹھیک کروانے ہیں تو ملک کے لیے ناسور بن جانے والی کرپٹ انتظامی مشینری کو جہنم رسید ہی ہو جانا چاہیے۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430438 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More