قدرتی آفات اور نفسیاتی اثرات

زلزلہ ، سیلاب یا آندھی طوفان ، کوئی بھی قدرتی آفت آئے تو اس کے آنے کا نہ تو وقت مقرر ہے اور نہ ہی شدت کا اندازہ ۔ ذرائع ابلاغ اسے فوراََ اپنے اپنے انداز سے پیش کرنے لگتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سی معلومات کارآمد اور آگاہی کے لحاظ سے فائدہ مند ہوتی ہیں جن کی وجہ سے فوری ضروریات اور امدادی کاموں کا علم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی خبریں بھی پیش ہوجاتی ہیں جو پریشان کُن اور ذہنی طور پر کنفیوژ کر دیتی ہیں ۔

بچے خاص طور پر ایسی خبروں سے بہت زیادہ بے چین اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ سب سے زیادہ توجہ بچوں اور نوجوانوں کو دی جائے تاکہ ان پر اس آفت ناگہانی کے منفی نفسیاتی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ہمارا معاشرتی نظام خاندان کا مل جل کر رہنا ہے۔ اس مشترکہ نظام میں گھر کے بزرگوں اور والدین پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبروں اور تصاویر جو بچوں کو پریشان کر سکتی ہیں ان سے دور رکھیں۔میڈیا کے اثرات بھی حالات کے مطابق مختلف ہوں گے۔ اگر کسی گھرانے کے رشتے دار اس علاقے میں ہیں جو آفت زدہ ہے تو وہ لوگ اور طرح سے محسوس کریں گے۔ ان میں جلد از جلد رابطے اور خیریت معلوم کرنے کے لئے فکر مندی ہوگی ۔ گھر کا ماحول اس پریشانی سے بہت زیادہ متاثر ہوگا۔ اگر خاندان خود متاثر ہوا ہو تو انہیں اپنا ماضی کا وہ سارا دُکھ یاد آجائے گا اور وہ لوگوں کی تکلیف کا زیادہ محسوس کریں گے ۔ گھر کے ماحول میں اُداسی کا عنصر شامل ہوجائے گا ۔ اپنے تجربات کی بنیاد پر زیادہ بات کی جائے گی ۔ زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ٹی وی ، ریڈیو اور اخبار سے معلومات لیتے ہیں ۔ انہیں براہ راست تو کوئی خطرہ نہیں ہو تا لیکن لوگوں کے گھر بار اُجڑے دیکھ کر ، مرنے والوں کی خبر، زخمیوں کی تکلیف اور بے گھر لوگوں کی بے بسی انہیں دل گرفتہ کر دیتی ہے ۔ یہ سب کچھ جب بچے بھی دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان میں عدم تحفظ اور ذہنوں میں خوف طاری ہوجاتا ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی یہ سب نہ ہو۔

ٹی وی کے مختلف چینلز جس طرح خبروں میں زلزلے کو پیش کر رہے ہیں اس سے بچوں میں تشویش اور خوف بڑھ جاتا ہے ۔ اس میں ا ن خبروں کے دورانیے اور بار بار دکھانے کا بھی بہت دخل ہے۔ جتنا زیادہ بچے ٹی وی پر اس طرح کی خبریں دیکھیں گے اتنا ہی زیادہ منفی اثرات کا خطرہ ہوگا۔ اب تو بہت سے چینلز کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے مختلف واقعات اور تباہی کے مناظر پیش کرتے ہیں ۔ بچوں کو نئی نئی چیزیں دیکھنے کا زیادہ شوق ہوتا ہے۔ ان کو وہ زیادہ غور سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں جس سے وہ پریشان ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ چھوٹی عمر کے بچے ماضی ، حال اور مستقبل کو الگ الگ نہیں سمجھ پاتے۔ جب بار بار تواتر کے ساتھ واقعات دکھائے جاتے ہیں بچے اسے ماضی کا حصہ سمجھنے کے بجائے یہی سوچتے ہیں کہ وہ قدرتی آفت اب بھی جاری ہے۔ اس طرح وہ مسلسل خوف میں مبتلا رہتے ہیں جس سے ان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو ان کے روزمرہ زندگی کے معمولات کو متاثر کرے۔

ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ بحیثیت والدین اور اساتذہ ہم ان بچوں کی ذہنی صحت کی حفاظت کریں تاکہ ان پر منفی اثر نہ ہو جو مستقبل میں ان کی شخصیت میں پیچیدگیاں پیدا کرے اور وہ مسائل کا شکار ہوں۔ اس کے لئے بشچوں کو ایسی خبریں دیکھنے اور سننے سے زیادہ سے زیادہ دُور رکھا جائے ۔ بچوں کو ان کی دلچسپی کے کاموں کی طرف راغب کیا جائے ۔ بچے اپنی کوئی گیم کھیل لیں یا پسندیدہ فلم دیکھ لیں۔ بچوں کو ایسی جگہ لے کر بیٹھیں جہاں ٹی وی ، ریڈیو یا انٹر نیٹ نہ ہو ۔ اگر کچھ دیکھ یا سُن لیں تو اس مواد کے متعلق بات کریں ۔ وضاحت سے غلط فہمی دُور کریں ۔ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہیں ۔ کھانا کھاتے ہوئے، ہوم ورک کرواتے ہوئے اور دیگر گھر کے امور میں بچوں کو شامل کریں ۔ ان کے احساسات ، خیالات اور فکر مندی کو اہمیت دیں اور ان کی عمر اور ذہنی سطح کے مطابق بات کو سمجھیں اور سمجھائیں ۔ انہیں احساس دلائیں کے وہ محفوظ ہیں اور کسی بھی خطرے کی صورت میں ان کی حفاظت کے تمام انتظامات ہیں ۔ گھر میں عموماََِ سب لوگ قدرتی آفت یا حادثے کے بارے میںؓ بڑھ چڑھ کر اپنی رائے دیتے ہیں اور خبروں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ بچوں کے بارے میں اکثر یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ وہ نہ تو بڑوں کی بات کو سن رہے ہیں نہ سمجھ رہے ہیں ۔ یہ سب غلط سوچ ہے۔ بچے سنتے ہیں لیکن ان باتوں کو اپنی عمر اور سوجھ بوجھ کے مطابق مطلب دیتے ہیں جو کہ ناپختہ ہوسکتا ہے۔ والدین کو خود بھی بچوں کے مختلف رویوں کے بارے میں کم معلومات ہو سکتی ہیں اور وہ بچوں کے رویے میں تبدیلی کی وجہ سے فکر مند ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے والدین ، بزرگوں اور اساتذہ سے اس سلسلے میں بات کریں تاکہ اپنے بچوں کو سمجھ سکیں اور مناسب راہنمائی کر سکیں۔

اسی طرح نوجوان بھی بہت حساس ہوتے ہیں ۔ انہیں بھی احساس تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سوچ سوچ کر بہت پریشان ہوتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کم کرتے ہیں اس لیے کہ ہم اپنے گھروں میں انہیں بار بار بڑے ہونے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہتے رہتے ہیں ۔ لیکن ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے وہ اکثر گھبرا جاتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر ان کے احساسات اور خدشات کا ادراک اور ان سے ایسی خبروں کے بارے میں تبادلہ خ؁ال موثر ہوتا ہے اور انہیں ذہنی پریشانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے لوگ بعض اوقات خبروں کے ساتھ ساتھ گھرانے کے افراد اور بچوں سے بھی سوال کر دیتے ہیں کہ وہ کیسا محسوس کررہے ہیں ؟ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟بچے بعض اوقات ذہنی طور پر ان باتوں کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے یہاں بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے بچے کو بعد میں مایوسی یا شرمندگی ہو۔ والدین اس سلسلے میں راہنمائی کر سکتے ہیں اور اپنی نگرانی میں بچوں کے تاثرات ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔

بچوں کو تسلی و تشفی دینے کے لئے امدادی کاروائیوں کے بارے میں معلومات دینی چاہئیں کہ کس طرح حکومت ، فوج اور دیگر ادارے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں ، فوج کیسے دشوار گزار علاقوں میں پہنچ کر لوگوں کی مدد کر تی ہے اور انہیں طبی امداد پہنچاتی ہے۔ محفوظ مقامات پر کیسے منتقل کیا جاتا ہے۔ اس طرح بچوں اور نوجوانوں کو نہ صرف تسلی ہوگی بلکہ وہ بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں گے کہ وہ کس طرح کر سکتے ہیں ۔ یہ رویے ان کی شخصیت کو مضبوط اور عملی زندگی میں مثبت سوچ اور بہتر فیصلوں کے امین ہوں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.