مگراسے یہ سمجھائے کون؟

مودی سرکارنے جب سےاقتدارسنبھالاہے،انتہاپسندہندومہاسبھائی کھلم کھلابھارتی سیکولزازم کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھارت کوایک مکمل ہندوریاست بنانے کیلئے تمام اقلیتوں پرظلم کے پہاڑتوڑرہے ہیں۔ کہیں انہیں جبراًہندودھرم میں داخل کیاجارہاہے اورکہیں ان کوزندہ جلایا جارہاہے حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو بھی ان کی عصبیت کاشکار ہو رہے ہیں۔مودی اوربی جے پی کی حکومت کے وزاراء نے ایک ماہ قبل ہندو انتہا پسندتنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ(آرایس ایس) کے اجلاس میں شرکت کی اورانتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات ،بھگوادہشتگردی پھیلانے اوربابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیرکے سلسلے میں اب تک کیے جانے والے اقدامات سے متعلق رپورٹیں پیش کیں جس پرآرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اوردیگرلیڈروں نے اطمینان کااظہار کیا ا ور اپنی کارکردگی پرانہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بھارت کومکمل ہندوریاست میں تبدیل اورمسلمانوں سے نجات حاصل کرنے کا کھلا اعلان کیاگیا۔

اگرچہ بھارت کی بعض سیاسی جماعتوں نے نریندرمودی سمیت حکومتی وزاراء کی آرایس ایس کے اجلاس میں شرکت اوربھگوادہشتگردی کی باتیں کرنے پراعتراضات اٹھائے تاہم مغربی ممالک سمیت کسی بین الاقوامی ادارے کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی اورسب خاموشی سے تماشادیکھتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس اجلاس کے بعدمسلم کش فسادات اور دیگر اقلیتوں پربھارت کے پالتودہشتگردوں کے حملوں میں شدت پیداہوگئی اورحملہ آور برسرِعام آگ وخون کی ہولی کھیلنے لگے۔کچھ عرصہ قبل تک ہندوستان میں صرف مسلمانوں اور عیسائیوں پرحملے ہو رہے تھے لیکن اب سکھوں کوبھی علیحدگی پسندی کی تحریک میں حصہ لینے کے الزام میں نشانہ بنایاجارہاہے۔

بدھ کوبھارتی پنجاب کے شہر کوٹ کپورہ میں ایک گردوارہ کے قریب سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب کی بے حرمتی کی گئی اورایک سو سے زائد مسخ شدہ صفحات بکھرے ہوئے پائے گئے۔اس خبر کامنظرعام پرآناتھاکہ سکھ قومیت کے پردھان اورسکھ مذہب سے وابستہ ہزاروں افرادنے جائے موقع پر پہنچ کراحتجاج شروع کیاتوبجائے اس کے کہ حکمت عملی کے ساتھ ان کے جذبات کو قابو میں رکھاجاتااورانہیں اس واقعے کے ذمہ داروں کو گرفتارکرکے کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کروائی جاتی،ریاستی پولیس نے مجمع کو منتشر کرنے کیلئے نہ صرف بدترین لاٹھی چارج اورواٹر گنوں کابے دریغ استعما ل کیابلکہ فائرنگ کرکے چارسکھوں کوہلاک اورسوسے زائدافرادکو زخمی کردیا جس پرمظاہرین بکھری ہوئی لاشوں اورزخمیوں کودیکھ کر اشتعال میں آگئے اورکئی مرکزی شاہراہیں بند کرکے متعدگاڑیوں اور املاک کونذرِآتش کردیا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے رویے کے باعث یہ احتجاج شدت اختیارکرچکاہے اورمشرقی پنجاب کے ضلع فریدکوٹ،ٹھنڈو،برنالہ، فیروز پور،ضلع موکہ اورکوٹ کپورہ میں مکمل ہڑتال اورزبردست مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔بی جے پی کی نااہلی کااندازہ اس امرسے لگایا جاسکتاہے کہ نذرآتش کی گئی سکھوں کی مذہبی کتاب گردوارے سے جون میں چوری کی گئی تھی، اس دوران سکھوں کی جانب سے احتجاج کیا جاتا رہالیکن اس کتاب کوچوری کرنے والے مجرموں کی گرفتاری اورمذہب سکھ سے وابستہ افرادکومطمئن کرنے کی سرے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اب لاواپھٹ پڑا اور ہندو انتہاپسندوں کے ظلم وزیادتیوں کاشکارسکھوں کوکنٹرول کرنابھارتی حکومت کیلئے مشکل ہورہا ہے۔

بھارت میں پیداہونے والے حالات کابغورجائزہ لیاجائے توپوری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بی جے پی کوطے شدہ منصوبے کے مطابق اقتدار دلوایا گیاتاکہ خطے میں پیداہونے والے حالات کے تناظرمیں پاکستان کومزید مشکلات سے دوچارکیاجاسکے۔مودی نے بھی برسراقتدار آ کر پاکستان کو نقصانات سے دوچارکرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔کبھی کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے عام پاکستانیوں کوشہیدکیاگیاتوکبھی بلوچستان ،سندھ اوردیگرصوبوں میں دہشتگردی کی آگ بھڑکائی گئی۔یہ سب کچھ آرایس ایس کی چھتری تلے کیاجا رہاہے لیکن دوسری طرف اس کا لازمی یہ نتیجہ نکلا ہے کہ بھارت کے اندر بھی بھگوادہشتگردی پروان چڑھاناشروع کردی اورمودی سرکارکوبھی انتخابات میں کیے گئے وعدے پورے کرنے کیلئے انہیں کھلی چھوٹ دینی پڑی جس پر مسلمانوں کی مساجداورمدارس کی طرح عیسائیوں کے گرجاگھروں پر حملے ہوئے اورمسلمانوں اورعیسائیوں کوزبردستی ہندوبنانے کی مہم تیزکردی گئی۔

اس وقت ہندوستان میں کوئی اقلیت ہندوانتہاپسندوں کے ظلم سے محفوظ نہیں ہے۔مختلف حیلے بہانوں سے جگہ جگہ فسادات کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ چنددن قبل ریاست اتر پردیش میں بھی گریٹر نوئیڈا کے داری علاقے میں گائے کاگوشت گھرمیں رکھنے کے جرم میں اخلاق نامی مسلمان کوشہیداوراس کے بیٹے کوشدیدزخمی کردیاگیابعدازاں تحقیق کے بعد گوشت بکری کاثابت ہوا۔اس طرح مدھیہ پردیش ،گجرات،راجستھان اوردیگرکئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں سرکاری سرپرستی میںفسادات پھیلائے جارہے ہیں۔گزشتہ دنوں فیض آبادشہرکی جامع مسجد اورقریب ہی واقع مندرپرپٹرول بموں کے الگ الگ واقعات پیش آئے ہیں۔ہندوستانی پولیس اورایجنسیاں یہ بتانے سے قاصرہیں کہ مسجد اور مندرپربیک وقت حملوں کامقصدکیاہے؟اصل حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے برسر اقتدارآنے کے بعدخفیہ ایجنسیوں اوران اداروں میں جن کی ذمہ داری ملک میں قانون کانفاذہے،ان میں چن چن کرانتہاپسندافسرتعینات کیے گئے ہیں ۔ اس کاثریہ ہواکہ پولیس اوردیگرادارے فسادات کے دوران شرپسندوں کی کاروائیوں پرخاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اوربعدمیں فسادات میں ملوث اہلکاروں کی بجائے مسلمانوں یادوسری اقلیتوں کوہی ملزم بناکران کی گرفتاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔پچھلے کئی مہینوں میں مظفرنگرسمیت جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں،ہرجگہ یہی دیکھنے میں آیاہے جس کی گواہی بھارتی میڈیابھی دے رہاہے۔بہرحال بی جے پی اقتدارکی سیاست کومسلمانوں،عیسائیوں اوردیگر اقلیتوں کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال کررہی ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی خودآرایس ایس کے بنیادی رکن اورمسلمہ دہشت گرد ہیں ۔گجرات کے ہزراوں مسلمانوں کے قتل عام پرامریکانے بھی ان پر پابندیاں لگائیں،اگرچہ امریکاکی اب ترجیحات بدل چکی ہیں تاہم بہرحال حقائق ہیں جنہیں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔بی جے پی کی قیادت میں این آئی اے جیسے تحقیقاتی ادارے سمجھوتہ ایکسپریس و مالیگاؤں بم دہماکوں میں ملوث کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ ٹھاکرجیسے ہندو لیڈروں کو رہا کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں اورفردِ جرم عائدکرتے وقت مذکورہ ہندولیڈروں کے نام نکالنے کی خبریں منظرعام پرآرہی ہیں جبکہ دوسری جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو گھروں سے اٹھاکرجیلوں میں ڈالامیں جارہاہے کہ آنے والے وقت میں مسلمان پڑھی لکھی قیادت سے محروم رہیں ۔پچھلے کئی عرصے میں کئی ہندو دہشت گردوں کوعدالتوں میں مودی سرکارایجنسیوں کی جانب سے کمزورمؤقف اختیارکرنے پررہائی مل چکی ہے ۔ اگرہندودہشتگردوں کی رہائی کاسلسلہ یونہی جاری رہتاہے تومسلم کش فسادات اورعیسائیوں ودیگراقلیتوں پر حملے اورزیادہ شدت اختیار کرسکتے ہیں لیکن یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ جس قدرآگ کو بھڑکایاجائے گا،ہندوستان میں نظریہ پاکستان مزیدپروان چڑھے گا اورمسلمانوں کی طرح سکھ اوردیگراقلیتیں بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں توپھراسے اپناوجودبھی برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔وقت آگیاہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک بھارت میں مسلمان،عیسائی اوردیگراقلیتوں پرہونے والے مظالم کے خلاف بھرپورآوازبلند کریں اورہندو دہشتگردی کو پوری دنیامیں بے نقاب کریں تاکہ ان کے عزائم خاک میں ملاکرامن سوزحرکات کااستیصال کیا جاسکے۔

یہ حقیقت تسلیم کی جاچکی ہے کہ نریندرمودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت میں صورتحال بدترہوئی ہے۔علاقائی اوربین الاقوامی سطح پریہ تبصرہ ایک حقیقت بن چکاہے کہ انتہاء پسند ہندوؤں کوخوف،دہشت اور تشددپھیلانے میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔اکھنڈبھارت کے داعی دراصل یہ تسلیم کرنے کوتیارنہیں کہ ان کی منفی سرگرمیاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کواس بات پرمجبورکررہی ہیں کہ وہ بھی اپنے بھرپور ردِّعمل کا اظہار کریں۔ شیو سینا بھارتی سماج میں ایسی افراتفری پھیلارہی ہے جس کے اثرات طویل المدتی ہو سکتے ہیں۔

تقسیم ہندکے بعد جواہرلال نہرواور اس وقت کے رہنماؤں نے دانستہ طورپر سیکولرازم کانعرہ لگایا۔ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعدسمجھ بوجھ رکھنے والے ہر بھارتی رہنماء نے جمہوریت اور سیکولرازم کاپرچارجاری رکھا مگر اب بھارتی سیاست میں ایسے قدکاٹھ کے لوگ بہت کم ہوچکے ہیں جو مستقبل کے تقاضوں سے شناسائی رکھتے ہوں۔مذاہب اورزبانوں کی بناء پر سیاسی دوکان چمکانے والے شایدبھول رہے ہیں کہ یہ کھیل خود ان کے اپنے وجودکوتباہ کرکے رکھ دے گا۔اس سے انکار نہیں کہ دنیاکے ہرکونے،ہرخطے میں انتہاء پسندی کاعفریت موجودہے۔ مذہب اور زبان وغیرہ کے امتیازات سے قطع نظرایسے افرادکاموجودہونابھی حیران کن نہیں جوخودکوحق کانمائندہ سمجھتے ہوئے دوسروں کی زندگی ختم کرنے میں عارنہیں سمجھتے۔ نریندر مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں اورمظلوموں کے خون سے جوہولی کھیلی اسے فراموش کرناممکن نہیں مگراس کے تدارک یا ندامت کی بجائے جبرودہشت کوبڑھاوادینے ہی کے اقدامات روبہ عمل لائے گئے ہیں۔

سرحدکے اس پارسیاست ہی میں نہیں ،صحافت میں بھی وہ عناصرغیرمعمولی طاقت پکڑچکے ہیں
جوہندوانتہاء پسندی ہی کوتمام مسائل کاحل سمجھتے ہیں۔ اکھنڈبھارت پروثوق کے ساتھ یقین رکھنے والے سرحدوں کے اندراورباہر ایسا ماحول تشکیل دینے کیلئے کوشاں ہیں جوخالصتاً ہندودھرم کے ''مفادات''کو تحفظ دینے کاموجب بن سکے۔جدیددنیامیں یہ بڑی حدتک واضح ہوچکاکہ انتہا پسندی کومسلمانوں تک ہی محدودرکھناسراسرغلط ہے۔ہندو،عیسائیت،بدھ مت اور یہودیوں میں ایسے افرادبکثرت موجودہیں جومذہب کے نام پر دوسروں کاقتل عام کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتے۔نائن الیون کے بعدمسلمانوں اور اسلام کوبالخصوص نشانہ بنایاگیامگررفتہ رفتہ حقائق سامنے آچکے ہیں۔اسرائیل، بھارت اوربرما جیسے ممالک میں سرعام انتہاپسندی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں مگرخداہی بہترجانتاہے انسانی حقوق کے علمبردارکن مشاغل میں گم ہیں۔ بھارت دہشتگردی میں سب کوپیچھے چھوڑگیاہے اوراس کابالآخرسب سے زیادہ نقصان بھی بھارت ہی کو ہوگامگراسے یہ سمجھائے کون؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.