مغربی طاقتوں کی اسلحے کی دوڑ اور غریب ممالک کی ڈوبتی ہوئی معیشت
(Syed Anees Bukhari, Karachi)
بھوک، ننگ، غربت، ہتھیاروں اور
جدید اسلحے کی تجارت میں ملوث بڑے بڑے بین الاقوامی ہتھیار فروش پوری دنیا
کے امن کو تباہ اور تہہ و بالاکرکے نہ صرف اپنے معاشی نظام کو ہتھیاروں کی
فروخت سے مضبوط سے مضبوط تر بنا کر عالمی منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم
رکھے ہوئے ہیں بلکہ وہ پوری دنیا میں ایک ایسے معاشی نظام کو فروغ دے رہے
ہیں جس میں صرف چند مغربی طاقتوں کی اجارہ داری ہو اور وہ پوری دنیا کو
اپنے اشاروں پر ہانک کر انکی معیشت پر قبضہ آور ہوں۔ جسکی سب سے بڑی مثال
پوری دنیا کے غریب ممالک میں مغربی ممالک کی مختلف اشکال میں پائی جانے
والی دہشتگردی، اسلحے کی فروخت، بھوک ، ننگ ، جہالت ، بیماریاں اور موت کے
منڈلاتے ہوئے وہ سائے ہیں جو ہمیں تیسری دنیا میں ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔
اسلحے کی دوڑ اور دہشت گردی، نے غذائی قلت پیدا کرکے پوری دنیا میں غربت
اور بھوک کو ترویج دی ہے۔ اسوقت تقریباً سالانہ دو کھرب ڈالر کا اسلحہ
مختلف ممالک میں فروخت کیا جا رہا ہے اگر یہ رقم پوری دنیا میں انسانیت کی
فلاح کیلئے خرچ کی جائے تو پوری دنیا میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو
امن اور چین ہو اور ہر طرف بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔ اسلحے کی فروخت کے
بڑے بڑے فروخت کنندگان امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس ، جرمنی اور چین وغیرہ
ہیں جن سے افریقی ممالک، سعودی عرب، انڈیا، یونائیٹڈ عرب امارات ، پاکستان
، بنگلہ دیش، تائیوان، کوریا اور دوسرے ممالک اسلحہ خریدتے ہیں ۔ یونائٹید
نیشن سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممبر پوری دنیا میں اسلحے کی سمگلنگ اور اسکی
تجارت میں سر فہرست ہیں جو اس مارکیٹ میں اپنا مکمل قبضہ جمائے ہوئے ہیں
اور وہ مستقل طور پر پوری دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے اسلحے کی فروخت
کیلئے وہاں پر دہشت گردی، جنگ و جدل اور مار دھا ڑکو زبردستی غالب رکھنا
چاہتے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں اور ان ممالک کی معیشت کو
کمزور سے کمزور تر کرکے وہاں پر غربت اور جرائم کے عفریت کو برقرار رکھا
جائے ۔ شام، افریقہ، افغانستان،پاکستا ن اورعراق وغیرہ سے تقریباً ساڑھے
تیرہ لاکھ سے بھی ذیادہ لوگ اپنے ممالک کوچھوڑ کر دوسرے ممالک میں ہجرت کر
چکے ہیں انکے گھر تباہ و برباد ہو چکے ہیں انکے بچے اور عزیز و اقارب مارے
جاچکے ہیں اور انمیں سے جو بچ چکے ہیں وہ مکمل طور پر یا پھر جزوی طور پر
اپاہج ہو چکے ہیں اور بعض بچے اپنے پیاروں سے بچھڑ چکے ہیں ۔ بنیادی طور پر
قدیم معیشت اور سیاسی قیاس اور نظریہ اسلحے کی وہ دوڑ ہے جس میں ایک ریاست
دوسری ریاست پر چڑھائی کرتی ہے اور اسکے رد عمل میں اپنے بچاؤ کیلئے وہ
ریاست اپنا بچاؤ کرتی ہے اور اسلحے کی خریداری کرتی ہے ۔ ایک ریاست دوسری
ریاست کو دھمکاتی ہے ڈراتی ہے اور اسکے نتیجے میں ملٹری جنون پیدا ہوتا ہے
جو ممالک کی جنگ کی کیفیت اختیار کر لیتا ہے پھر اسلحے کا استعمال ہوتا ہے
اور یہ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ کسی بھی ریاست کے پاس اسلحے کی خریداری کیلئے
دو راستے ہیں اسے اسلحہ خریدنا چاہئے یا نہیں۔لیکن اسکی قیمت اور فوائد کے
بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ اسکے حریف پر منحصر ہے کہ اسکا
حریف کتنا بدمعاش اور طاقتور ہے اور خطے میں اسکی بدمعاشی کتنی طاقت رکھتی
ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہم یہ کہیں کہ اسکی قیمت اور فوائدپر سوچ بچار
کرنا اور غور کران سماجی ، معاشرتی، اخلاقی ، سیاسی اور نفسیاتی طور پر کسی
بھی ریاست کے حکمرانوں اور وہاں کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہوتی ہے تو غلط نہ
ہوگا۔
اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک خاص طور پر امریکہ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ
اپنے خریداروں سے اچھے تعلقات کو فروغ دے اور ایسے حالات پیدا کئے رکھے جس
سے وہاں پر افرا تفری ، مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رہے اسکے
لئے وہ وہاں پر ہمسایہ ممالک میں ایسے حالت پیدا کئے رکھنا ہوتا ہے جس سے و
ہ آپس میں دست و گریبان رہیں جس کی سب سے بڑی مثال، ایران، عراق ،
افغانستان، پاکستان ، انڈیا، کوریا، وسطی ایشیائی ممالک ، افریقی ممالک اور
دوسرے غریب ممالک ہیں جو اپنا ذیاد ہ تر سرمایہ اسلحے کی دوڑ میں صرف کر
دیتے ہیں جبکہ انکے یہاں غربت کو فروغ مل رہا ہے۔ نیٹو کے ساتھ مل کر مختلف
ممالک کی عوام پر حملے کرکے انہیں تہہ و تیغ کرنا وہاں پر دہشت گردی کے
ذریعے حالات کو خراب کرنا اور اندرونی حالات کو خرا ب کرنا حکومت کے مقابلے
میں دہشت گرد تنظیموں کو فروغ دینا انہیں ٓآپس میں لڑوانا اور دہشت گردی
کرنا اسکے اہم مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔ ایسے ممالک کیخلاف زہر اگلنا اور
پراپیگنڈہ کرنا ، ڈاکومینٹری فلموں کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو ابھارنا اور
وہاں کے حالات خراب کرنا اور پھر وہاں پر خانہ جنگی کروانا سب اسی مصلحت کے
تحت ہوتا ہے۔ اتحادی نیٹو سے مل کر دوسرے ممالک پر حملہ آور ہونا اور وہاں
کے حالات خراب کرنا جیسا کو کوسو و ، ہیٹی اور دوسرے ممالک میں کیا گیا اور
اپنے اسلحے کے فروخت کو فروغ دیا گیا۔ اسکے علاوہ چھوٹے اسلحے کی فروخت اور
دوسرے ممالک میں اسکی سمگلنگ کرکے اسے وہاں کے عام لوگوں میں پہنچانا بھی
اسی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ وہاں پر حالات کو خراب کیا جائے ۔ چھوٹے
اسلحے کی سمگلنگ اور عام لوگوں تک اسکی پہنچ کو آسان بنانا بھی اسی حکمت
عملی کا حصہ ہے تاکہ وہاں کے حالات کو خراب کیا جائے وہاں پر ڈکیٹیاں
،ماردھاڑ اور جنگ و جدل کو ہوا دی جائے اور اسطرح اسلحے کی فروخت سے سرمایا
کو بڑھایا جائے اور ایسے ممالک میں انکی اہم تنصیبات کو اپنے ہاتھوں میں
لیا جا سکے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ اندرون خانہ مداخلت سے جن ممالک
کے حالات خراب کرنے میں امریکہ اور مغربی ممالک نے انتہائی اہم اور گھناؤنا
کردار ادا کیا ہے جس سے ان ممالک کی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہاں کے
عوام مختلف جرائم کا شکا ہو کر حکومتوں کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ان ممالک
میں ڈکیتیاں، قتل عام، ٹارگٹ کلنگ، زمینوں پر قبضے، سٹریٹ کرائم اور خون
ریزی عام طور پر ہیں ایسے معاشروں میں صرف وہ ہی محفوظ رہتے ہیں جو طاقت ور
ہوتے ہیں۔ شورش زدہ معاشروں میں جہاں جان بوجھ کر ایک پلاننگ کے تحت ایسے
حالات پیدا کئے گئے ہیں وہاں پر سال سالہال سے وہاں کی حکومتیں ان حالات سے
نبرد آزما ہیں اور دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے مغربی ممالک سے اسلحہ اور
ہتھیار خرید کر جہاں اپنے معاشروں کو محفوظ بنانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں
وہیں ان معاشروں کی عوام انتہائی مشکل حالات کا شکار ہیں ان معاشروں میں
بھوک ننگ ، بے روزگاری اور جرائم کی شرح عام ہے تعلیم اور صحت عام لوگوں کی
رسائی سے باہر ہیں اور انکی معیشت انتہائی کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہے
اور وہ کار ہائے حکومت اور اپنے ملک کو چلانے کیلئے قرضوں پر اکتفاء کرتے
ہیں اور پھر یہ قرضے بھی انہیں ممالک سے انتہائی کڑی اور سخت شرائط پر ملتے
ہیں یہاں پر یہ مثال صادر آتی ہے کہ تمہارا اور تمہارے ہی جوتے۔ایسے میں
عالمی سطح پر جہاں اسلحہ اور ہتھیار خریدنے میں کمیشن مافیا کروڑوں اور
اربوں ڈالروں کی کرپشن میں ملوث ہوتا ہے وہیں وہ انسانوں کی مشکلات اور غم
بڑھانے میں اپنا خوفنا ک کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مختلف تحقیقات سے یہ
بات سامنے آئی ہے کہ اپنے اسلحے کی فروخت کیلئے پروپیگنڈہ اور الیکٹرانک
میڈیا کا استعمال، ہمسایہ ممالک میں ایکدوسرے کے خلاف نفرت کو ہوا دینا،
نفرت آمیز مواد کے ذریعے عوام میں بد گمانیاں پیدا کرنا فلموں ، ڈراموں اور
فکشنز کے ذریعے انکے جذبات کو ابھارنااور اس پروپیگنڈے سے عوام کی رائے کو
تبدیل کرنا، فوجی سازو سامان کی نمائش اور دوسرے ممالک کے عوام کو راغب
کرنا اور پھر میڈیا کے ذریعے اس خریدے ہوئے فوجی سامان کے بارے میں دشمن
ممالک کے عوام کو اسکی طاقت سے خوفزدہ کرناایسے معاملا ت ہیں جن سے بین
الاقوامی طور پر اسلحے کی فروخت کو بڑھاوا دینا ہی انکے اصل اہداف ہوتے
ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں لندن میں غربت ، مہنگائی، بے روزگاری اور اسلحے
کے پھیلاؤ کے خلاف ملین مارچ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ لوگ اب حالات سے
تنگ آ چکے ہیں اور وہ سڑکوں پر نکل کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پر امن
رہنا چاہتے ہیں اسلحے کی اس عالمی دوڑ سے دور رہنا چاہتے ہیں ، انہیں دو
وقت کی روٹی چاہئے، انہیں روزگار چاہئے ، انہیں پینے کیلئے صاف پانی درکار
ہے، انہیں صحت چاہئے اور وہ تعلیم حاصل کرکے پوری کائینات کے بارے میں
جاننا چاہتے ہیں مگر دوسری طرف وہ عالمی طاقتیں جو انتہائی طاقتور ہیں وہ
نہیں چاہتیں کہ غریب ممالک ان تمام چیزوں کو حاصل کر سکیں وہ تو بس اپنے
معاشروں تک ان چیزوں کو محدود کرکے انہیں کمزور سے کمزور کرنا چاہئتے ہیں
تاکہ غریب اور تیسری دنیا کے ممالک ہمیشہ انکے دست نگر رہیں اور وہ ترقی کی
منازل طے نہ کر سکیں۔ لہٰذا پوری دنیا کے ترقی پزیر ممالک کو اقوام متحدہ
میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور مغربی ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے
آواز بلند کرکے انکی پیش رفت کو روکنے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ آنے والے
وقتوں میں ہم اپنی معیشت کو مضبوط کر سکیں اور اپنی عوام کو درپیش مسائل سے
چھٹکارہ دلا سکیں اور انہیں امن، سلامتی، سکھ، چین، روزگار، روٹی ، تن
ڈھانپنے کیلئے کپڑا اور دوسرے لوازمات دئے جائیں ۔ |
|