دنیا میں جس قدر ایجادات میں
اضافہ ہوتا گیا انسانی زندگی میں اُتنی ہی سہل پسندی کے ساتھ ساتھ
پریشانیوںمیں بھی اضافہ ہوتا گیا ،اب اسی الیکٹرانک میڈیا کوہی دیکھ لیں یہ
تو ایسا عفریت بن چکا ہے جس نے انسانی زندگی سے سکون کو ایسا غائب کیا ہے
کہ ڈھونڈنے کو ملتا ہی نہیں، موبائل ہو یا انٹرنیٹ چند سہولیات سے قطع نظر
ان میں سوائے شر کے اور کچھ نہیں، شومئی قسمت ایسی سب چیزیں ہیں بھی
شروروفتن کے منبع یہود کے کنٹرول میں جو صدیوں سے دجالی ایجنڈے کی تکمیل کے
لئے کوشاں ہیں، آج کے دور میں جتنا ان سے دور بھاگنے کی سعی کی جائے گرد سے
بچنا پھر بھی محال ہے، آپ چاہو کہ زندگی میں کچھ سکون ہو تو دور کسی پہاڑ
کے دامن میں بسیرا کر لو جہاں موبائل کے سگنل نہ آتے ہوں، ٹی وی اور
کمپیوٹر جیسی مصیبتوں کے لئے بجلی تک مہیا نہ ہو، ویسے جہاں تک صرف بجلی کا
معاملہ ہے تو وہ عوام دوست حکومت کی مہربانی سے خطہ ارض پاک سے تقریباً
ناپید ہونے کے قریب ہے لیکن پھر بھی اس کے متبادل ذرائع شہروں میں استعمال
ہو رہے ہیں اس لئے بہترین حل وہی ہے گوشہ نشینی ورنہ وہ دن دور نہیں جب ان
خرافات کے سیل رواں نے ہر چیز خس وخاشاک کی طرح بہالے جانی ہے۔
ایسی جگہ جا کر بیٹھنے میں کونسا فائدہ حاصل ہوگا؟اپنے دوست کے سانس لیتے
ہی میں نے سوال جڑ دیا جو کئی گھنٹوں سے مجھے سکون حاصل کرنے کے فری نسخے
عنایت فرماتے فرماتے میرا مغز کھا رہا تھا، نجانے کیا سوجھا کہ میں اُسے
کہہ بیٹھا : یار!اخبارات پڑھو یا انٹرنیٹ پر سرچنگ کرو ہر جگہ بری خبریں ہی
ملتی ہیں، اچھی خبریں یا تو وقوع پذیر ہوتی نہیں یا اُن کو دانستہ چھپا دیا
جاتا ہے، بس جناب اس کے بعد موصوف نے جو لیکچر شروع کیا اگر نماز کا وقت نہ
ہو جاتا تو شاید میرے سر کے بال جھڑ جاتے، اُن کا لیکچر ختم کرنے کا موڈ
نہیں تھا لیکن ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ان کی ہر بات سوا سولہ
آنے درست تھی چلیے آپ کو بھی سنائے دیتا ہوں تاکہ آپ بھی اس افلاطونی لیکچر
سے کام کی باتیں چُن لیں۔
بھئی فائدہ کیوں نہیں ہوگا، وہاں تمہیں کوئی بُری خبر سننے کو نہیں ملے گی
تمہارا بی پی کنٹرول رہے گا اور صحت پہلوانوں جیسی ہو جائے گی بس اللہ اللہ
کرتے رہنا، اتنی واضح بات نہیں سمجھ پا رہے کہ جہاں ٹی وی انٹرنیٹ، اخبارات
اور موبائل جیسی چیزیں ہونگی ہی نہیں تو ان کے مضرات سے محفوظ ہوگے ناں؟
اور اگر ویرانے میں بسیرا کرنے کی وجہ سے امریکہ کے نزدیک مشکوک ٹھہرا تو
القاعدہ کا لیبل لگا کر سیدھا کیوبا پہنچا دیا جاؤں گا پھر کیا ہوگا؟ میں
نے دوسرا سوال تھوپ دیا۔
ارے تم مسلمان ہو کہ نہیں؟انہوں نے اُلٹا مجھ سے سوال کردیا،لاحول ولاقوۃ
الاباللہ یہ کیا بے ہودہ سوال ہے، کیا میں تمہیں اب مسلمان بھی نظر نہیں
آتا؟ میں نے جھلا کر پوچھا ،ایسی بات نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ تم مسلمان
ہو لیکن میرے بھئی امریکہ کے نزدیک تو ہر مسلمان داڑھی والا القاعدہ کا رکن
اور اس کا دشمن عظیم ہے تم اپنی پہچان کو تو چھپانے سے رہے لہٰذا مریکہ
والا غم مت پالو اگر ایسا ہو بھی گیا جس کے دور دور تک بظاہر کوئی امکانات
نظر نہیں آتے تو اُن استقامت کے پہاڑوں کو یاد کر لینا جو کئی سالوں سے
امریکی قید کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں،اگر ہمارے جسموں پر بھی دین کی
خاطر چند تمغے سج گئے تو قیامت میں شفاعت کی امید بر آئے گی ،اچھا تو میں
تمہیں بتا رہا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے عفریت نے ہمارے معاشرے سے اسلامی
اقدار تک عنقا کردی ہیں، لوگوں کے برین واشنگ کا یہ ایسا ذریعہ ہے جس کی
بدولت یہود پوری دنیا پر قابض ہیں، وہ چاہتے یہی ہیں کہ لوگوں میں مذہب سے
دوری پیدا کردی جائے، ایسی خبریں ایسے مناظر لوگوں کے سامنے لائے جائیں جن
میں مذہب کی تذلیل کا پہلو نمایاں ہو اور ہر ایسی خبر کی تردید اور اسے عام
لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے جس سے مذہب سے وابستگی کو تقویت ملتی
ہو، یا لوگوں کا رجحان خیر کی طرف جاتا ہو، وہ لوگ صدیوں کی اس ناپاک کوشش
میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں اس کو جاننے کیلئے تم اپنے اردگرد دیکھ لو
کتنے فیصد لوگ اس میڈیا سے متاثر اور ڈسے ہوئے ہیں اور کتنے فیصد محفوظ
ہیں۔
بچے ہوئے لوگ بھی وہ ہیں جن کا کچھ نہ کچھ تعلق اور ربط مسجد، خانقاہ اور
چٹائیوں پر بیٹھے فقیر منش اللہ والوں سے ہے، انہی سے حاصل کردہ روشنی سے
وہ کفر کی ان ظلمتوں سے محفوظ رہتے ہیں، ان کا مقابلہ کرتے ہیں ورنہ دجالی
ظلمتیں تو ہر ذی نفس کو گمراہی کی آگ میں دھکیلنے کو مصروف ہیں، بے راہ
روی، مادرپدر آزاد معاشرے کی تخلیق، تشدد اور طمع وہوس جیسے ہتھیاروں سے
لیس دجالی لشکر پورے کرّوفر سے بڑھتا جا رہا ہے اگر کہیں اس کے آگے
بندباندھا ہے تو انہیں فاقہ مست درویشوں نے جو الحکم اللہ کا درس پڑھتے آئے
ہیں اور پڑھا رہے ہیں، اسی کی بدولت مملکت پاکستان ابھی تک اُن طوفانوں سے
بچا ہوا ہے ورنہ غلاموں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی سفینہ ڈبونے کی، انہیں
آزادی کی قدر معلوم نہیں، یہ جانتے نہیں کہ کس قدر قربانیوں کے بعد یہ خطہ
صرف اور صرف لاالہ الااللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے، آزاد مملکت میں رہ
کر ان کی ذہنیت اور کردار کا یہ حال ہے کفر کے زیرسایہ رہ کر شاید یہ ایمان
تک سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور انہیں پرواہ بھی نہیں ہو، ابھی چند دن قبل میری
نیٹ پر ایک انڈین مسلمان لڑکے سے بات ہوئی یقین مانو اسلام اور پاکستان کے
بارے میں اس کے خیالات اور اعتراضات سن کر مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے
میں کسی ہندو سے بات کررہا ہوں، یہ ہے میڈیا کا زہر جو ذہنوں میں اس طرح
سرایت کرجاتا ہے کہ پھر اچھے بُرے، اپنے پرائے کی پہچان تک سے اذہان کو
مفلوج کردیتا ہے، آج کل معلوم ہے میڈیا کس گتھی کو سلجھانے کی تگ ودو میں
سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے؟ نہیں مجھے معلوم نہیں، میں تو آج کل اخبارات
بھی کم دیکھتا ہوں ٹی وی تو دور کی بات ہے، میرا نفی میں جواب سن کر وہ پھر
گویا ہوئے، ارے آج کل میڈیا ایک بہت اچھے پروجیکٹ کی تکمیل میں مصروف ہے،
یہ پروجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تو ملک میں ترقی کی ریل پیل ہوگی
،معیشت کو سہارا مل جائے گا، سوکھے دریا بہنے لگیں گے، پھر اس پانی سے ملک
میں لگی دہشت گردی کی آگ اور بلیک واٹر کو دھو دیا جائے گا، بجلی اتنی وافر
مقدار میں پیدا ہوگی کہ فی یونٹ ایک پیسے میں عوام کو ملے گی، اچھا وہ
کیسے؟میں نے حیران ہو کر پوچھا بھائی تم بھی عجیب ہو، ایک پاکستانی کرکٹر
انڈین ٹینس اسٹار سے شادی رچا رہا ہے، اگر وہ اپنی اس اننگز میں کامیاب
ہوگیا تو گویا پاکستان کے وارے نیارے ہیں، میڈیا نے ہر مسئلے کو پینڈنگ میں
رکھ کر اس مہم کو سرِفہرست لیا ہوا ہے، ہر طرف اس کے چرچے ہیں، سروے کیے جا
رہے ہیں، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے انٹرویو نشر کیے جا رہے ہیں جو اس کی
مخالفت کرتے ہیں انہیں چھوڑ کر اُن کے خیالات نشر کردیئے جاتے ہیں جو توصیف
ومدح کے ٹوکرے برساتے ہیں، زوردار مباحثے ہو رہے ہیں جیسے کشمیر کا مسئلہ
حل ہوا ہی چاہتا ہے اور تو اور ہمارے وزیرخارجہ صاحب نے مکمل حمایت کا
اعلان کردیا ہے کہ کرکٹر کو دلہن لانے میں کوئی دشواری ہے تو ہم اس کے ساتھ
ہیں ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کی جائے گی اتنا تو سب جانتے ہیں کہ ہمارے
وزیرخارجہ صاحب جس کام کا بیڑہ اٹھالیں وہ اسے سر کر کے چھوڑتے ہیں اس کے
لئے انہیں کسی سے بھی سر جوڑنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی، پارلیمنٹ کے بہت سے
اراکین نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے ان میں سے کسی کو آج تک ان ملت کے جوانوں کا خیال تک
نہیں آیا نہ ان کی زبانیں حرکت میں آئیں جو بھارتی قید میں سالوں سے مصائب
و آلام کی بھٹیوں میں جل رہے ہیں صرف اور صرف اس خطے کی بقا کے جرم میں جس
پر بیٹھ کر یہ خاکی پتلے خدائی کے دعویدار بنے پھرتے ہیں، میں نے افسوس سے
آہ بھری ان کو تو چھوڑو ان کے ضمیر کب کے مردہ ہو چکے ہیں،’’ آزاد اور بزعم
خویش حق کا پرچار کر میڈیا‘‘ کی تیزیاں ملاحظہ کرو جو اس قصے کو فوکس کیے
ہوئے ہے جیسے پورے ملک کے مسائل کا حل اسی میں مضمر ہے، عوام بھی پوری طرح
ان کی گرفت میں ہیں، آج جہاں چلے جاؤ ایک ہی بات زیر بحث نظر آئے گی، عوام
لوڈشیڈنگ، مہنگائی، کرپشن غرض ہر چیز بھلائے بیٹھی ہے اور اس سوچ وفکر میں
غلطاں ہے کہ کب ’’قوم کی بہو‘‘ پیا گھر سدھارتی ہے، یہ میڈیا کے ذریعہ برین
واشنگ کی واضح ترین مثال ہے کہ ایسے لوگوں کو جن کے کردارو افعال کی تفصیل
کوئی غیرت مند انسان سننے کی تاب نہیں رکھتا انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش
کیا جا رہا ہے.
سادگی اپنوں کی غیروں کی عیاری بھی دیکھ
ایسا صرف اور صرف قرآن کریم سے دوری کی وجہ سے ہے، آج ہماری حالت یہ ہے کہ
قرآن کریم کے بتلائے ارشادات نعوذ باللہ افسانے لگتے ہیں اور ٹی وی اسکرین
پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ حق سچ مانا اور جانا جا رہا ہے اس رنگا رنگی
اور ناچ گانے کے شور میں کشمیری ماؤں بہنوں کی آہیں کب سنائی دینگی؟غزہ کے
بھوک سے بلکتے معصوم پھول کہاں نظر آئیں گے؟جب کسی قوم سے احساس زیاں جاتا
ہے تو پھر بڑے بڑے طوفان بھی انہیں غفلت کی نیند سے جگانے میں قاصر رہتے
ہیں، آج وہی حالت ہم پر مسلط ہو چکی ہے کہ قوم کی بیٹی دشمن کو بیچ دی گئی
ہماری قوم، ہمارا میڈیا، ہماری پارلیمنٹ سوئی رہی اور آج تک خوابغفلت میں
ہے، جذبوں میں کوئی ارتعاش نہیں کیونکہ دل ودماغ پر اغیار کا قبضہ ہے جو
میٹھے زہر سے تقریباً مردہ ہو چکے ہیں.
یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
آمین، یا ارحم الرحمین |