الیکشن کمیشن پاکستان نے
اس سال آخر کار عدالت عظمیٰ کے بار بار تنبیہ کے بعد بلدیاتی انتخابات
پنجاب اور سندھ مین کرانے کیلئے تین مرحلہ سلسلہ شروع کیا جس میں پہلا
مرحلہ اکتیس اکتوبر کو کیا ، پہلے مرحلے میں پانچ افراد پنجاب میں اور
گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔انیس نومبر کو دوسرے مرحلہ میں خدشہ ظاہر کیا جارہا
ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پرخون ریزی کا خدشہ ہے،کہا جارہا ہے
کہ دوسرے مرحلہ میں ایسے شہر ہیں جن پر کئی سالوں سے کسی ایک پارٹی کی
حکمرانی رہی ہے اور سندھ کی سیاسی صورتحال کے تحت انتخابات ایک بڑا چیلنج
ثابت ہونے کے سبب یہ عمل سامنے آسکتا ہے ، عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ تیرا
مرحلہ پہلے اور دوسرے سے کہیں زیادہ ہنگاموں اور فسادات کی نذر ہوسکتا ہے
کیونکہ تیسرے مرحلہ میں کراچی ہے۔ ددٹرز نے شکوہ ظاہر کیا ہے کہ بڑی سیاسی
جماعتوں اور صوبائی سطح پر بڑی جماعت نے کئی سالوں سے ان کے ووٹ لیکر
کامیابیوں کے سہرے سجائے لیکن نہ سندھ کی دیہی آبادیوں میں ترقیاتی کام
کیئے گئے اور نہ شہروں کو جدید مزین کیا گیا حتیٰ کہ پینے کا پانی کا
فقدان، بجلی کی غیر اعلانیہ تواتر سے جاری لوڈ شیڈنگ کا عوام کو تحفے دیئے
گئے۔ عوام کا کہنا یہ بھی ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم
لیگ نون ، پاکستان پیپلز پارٹی، جمارت اسلامی اور سندھ کے شہروں علاقوں میں
متحدہ نے مایوس کیا۔بار بار حکومت میں آنے کے باوجود عوامی مسائل کے بجائے
اپنے ذاتی جھگڑو اور ایوان کو مسلسل جنگی ماحول میں بنائے رکھا۔ عرصہ تیس
سال سے زائدجمہوریت کا نام لیکر یہ جماعتیں سوائے عوام کو ذہنی ، جسمانی
اذیت دینے کے کچھ نہ دیا، عوام کے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں
تحریک انصاف سے کچھ امید تھی لیکن وہ بھی مانند پڑتی جارہی ہیں۔ عوام کہتی
ہے کہ اگر فوج اور ذیلی فوجی ادارے ملک کے نظام کو بہتر کریں گے اور
جمہوریت کے دعویداروں کے کرپشن، لوٹ مار، اقربہ پروری ، عسکری ونگ کا خاتمہ
کریں گے تو پھر جمہوریت کہاں رہی!! کیوں یہ ہمیں جمہوریت کے نام پر مسلسل
دھوکہ دے رہے ہیں ،عوامی حلقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کو
منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ پرانے سیاسی جماعتیں اب بھی وہی حربہ
استعمال کررہے ہیں جو ہمیشہ سے کرت چلے آئے ہیں یعنی جھوٹے وعدے، جھوٹے
خواب، جھوٹی تسلیاں ۔ سندھ کے عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز
پارٹی نے بینظیرکے انتقال کے بعد لوٹ مار اور بلیک میلنگ کی راہ سمجھتے
ہوئے اس پلیٹ فارم کو پھیلا دیا ہے یہاں نوکریاں فروخت، میرٹ تباہ، غریبوں
پر ظلم، مہنگائی کا طوفان گویا اشرفیہ کیلئے شاہی نظام بنادیا گیا ہے اور
غریب عوام آریاؤں کی تہذیب کی طرح شودر بنادی گئی ہیں یہی عمل شہروں میں
کامیاب ہونے والوں نے بھی کیا ہے۔ سندھ کے عوام اسی بابت خدشہ ظاہر کررہے
ہیں کہ یہ پرانی سیاسی شکاری اپنی کامیابی کیلئے ہر جائز و نائز راہ اختیار
کریں گے اور پہلے مرحلہ سے کہیں زیادہ خون ریزی کرکے کامیابی کا جشن منائیں
گے۔عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں کی ترقی اگر
کسی دور میں ہوئی تھی تو وہ پرویز مشرف کا دور تھا، جس میں پرویز مشرف کی
ذاتی دلچسپی کے بنا فنڈ میسر کیئے گئے اورترقی و تعمیرات کا بڑا سلسلہ شروع
کیا گیا جس نے کراچی سمیت سندھ کے دیگر بڑے شہروں کا چہرہ نکھار دیا جبکہ
سندھ کی حالیہ جمہوری تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت
اسلامی، ایم کیو ایم کے مثالی نظریات و فکریات کا جنازہ ان کے چند ایک
لوگوں نے نکال دیا اگر ایسا نہ ہوتا تو عوام ان سیاسی جماعتوں سے شکوہ نہ
کرتیں اور نہ مایوس ہوتیں۔ دانشور و سیاسی محققین کا کہنا ہے کہ سندھ کی
بڑی جماعتوں کو اپنا عملی قبلہ درست کرنا ہوگا اور حقیقت میں اپنی اپنی
جماعت میں منافقوں، خود غرضوں، لالچی، حاسد،کرپٹ اور بدعنوانوں کا محاسبہ
کرکے نکال باہر کرنا ہوگا ،نہ رشتہ نہ قربت کا خیال کرنا ہوگا بصورت یہ
موقع ان کیلئے آخری ثابت ہو۔ سیاسی محققین کے مطابق سابقہ دوروں میں کسی
ایک نے بھی عوام کیساتھ انصاف نہ برتا ہے ان جماعتوں کیساتھ مسلم لیگ نون
بھی پیش پیش رہی ہے جس نے ہمیشہ اپنی ذاتیات و عیش و عشرت کی خاطر قرض کے
انباروں کی انتہا کردیتی ہے اور اب بھی ملکی اداروں کیساتھ ایسا سلوک کیا
جارہا ہے جس کی مثال نہیں ملتی، دانشور کہتے ہیں کہ ملک کی تباہ کاری میں
اس وقت کی تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں چاہے حکومت میں ہو یا حزب اختلاف
میں ۔ سیاسی محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے فراز اب نشیب
کی جانب ہیں اور یہ نشیب خود ان کے پیدا کردہ ہیں کیونکہ انھوں نے اقتدار
کو ہوس کی تمنا پورا کرنے کا راستہ سمجھ لیا ہے ۔کیا اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے آئین کے مطابق ایوان مین بیٹھنے والے اہلیت کے حامل ہیں ، کتنے
لوگ ایسے ہیں جنہیں قرآن کی آیتیں یاد ہیں یا یوں کہ لیجئے کہ آیت کے
تحت منتخب ہونے کیلئے جو شرائط ہیں کون کون اس پر پورا اترتا ہے ،یقیناً
چند !! پھر ایسے لوگوں کی گرفت کیوں نہیں !! کیا آئین و قانون سے بڑھ کر
حکمران ہیں؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سیاسی محققین کہتے ہیں اور ان کے مطابق
اگر جمہوری نظام کو درست نہ کیا جس میں انتخابات کا نظام، آئین کے مطابق
امیدوار کی شرائط پر اترنا، انتخابات کے دوران اور قبل اخلاقی پابندیوں پر
کاربند رہنا تو شائد ممکن ہو سکے کہ عوام جسے چاہتے ہیں منتخب کرلیں لیکن
لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ایسا ہونہیں سکے گا اس کی سب سے بڑی وجہ
الیکشن کمیشن خود ہے، الیکشن کمیشن کا سربراہ سیاسی مشاورت سے طے کیا جاتا
ہے اور ظاہر ہے اسی منصب دیا جاتا ہے جو ان سیاسی لیڈران کیلئے رکاوٹ کا
باعث نہ بنے۔شرم اور حیا کی بات ہے کہ بھارت جیسے غریب ملک میں بھی ووٹنگ
کے نظام مکمل طور پر با ضابطہ جدید انداز میں ہے اسی لیئے بڑی سے بڑی سیاسی
جماعتیں غیر مقبولیت کی بنا پر ہار جاتی ہیں جبکہ پاکستان ایسے نظام سے
محروم ہے۔ جہاں تک فورسس کا تعلق ہے کہ وہ بارڈر کیساتھ کیساتھ سول سوسائٹی
کے نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں وہیں انہیں انتخابات
کے موقع پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ سیاسی محققین نے امید ظاہر
کی ہے کہ عوام جس وقت اپنے حقیقی ووٹ کا حق رکھے گی اور آزادانہ ووٹ کاسٹ
کریگی تب ہی نظام کی تبدیلی واقع ہوسکے گی اس کیلئے لوہے کے چنے چبانے
ہونگے کیونکہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی طور ایسا ہونے نہیں دیں
گیں۔غریب پروری، حق پرستی کے نعرے لگانے والے تمام سیاسی جماعتیں خود ان کے
حقوق کو تلف کرتے رہے ہیں کسی ایک جماعت نے عوام کیلئے نہیں سوچا۔ سیاسی
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غلطی تو معاف کی جاسکتی ہیں لیکن عادت معاف
نہیں کی جاتیں کیونکہ سیاسی جماعتوں نے غلطی نہیں اپنی عادتیں بنالی ہیں کہ
جب ووٹ کا وقت آئے تو مظلومیت کا نعرہ لگادیا جائے اور تمام تر قصور مخالف
پر ڈال دیا جائے گویا یہ دودھ کے دھلے ہوں، یا پھر یہ پانے غنڈوں کے ذریعے
طاقت و دھونس دکھا کر ڈرا دھمکا کر کمزور عوام کو بھیانک نتائج کا عندیہ
دیکر اپنے مضموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بار بھی کرنے کی
کوشش جاری ہیں۔ سندھ کے عوام ان سیاسی جماعتوں سے تنگ نظر آرہے ہیں اسی
لیئے عوام چاہتی ہے کہ ان کو ایسا نظام دیاجائے جس میں سیاسی ، حکومتی،
اندرونی و بیرونی دباؤ نہ ہو ۔ پولیس اور سیاسی غنڈوں کا راج نہ ہو، فون
کی نگرانی میں انتخابات ہو تاکہ صحیح اور اچھے لوگوں کا انتخاب کیا جاسکے ،
انتخابات کے دوران وزرا اور مشیروں کی مداخلت ہی نقص امن کا باعث بنتی
کیونکہ اقتدار میں رہنی والی سیاسی جماعت ریاستی طاقت کو اپنا غلام سمجھتے
ہوئے بھرپور طریقے سے استعمال کرتی ہے جو سراسر غیر آئینی و غیر اخلاقی
ہے۔۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں
کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے عدالتیں اپنا امیج کھو بیٹھی ہو ،جہاں انصاف
اشرفیہ کی دہلیز پر پہرہ دیتا ہو، جہاں انتظامیہ و پولیس ہاتھ باندھے کھڑے
ہوتے ہوں ،جہاں سیاسی غنڈوں کی حفاظت ہوتی ہو، جہاں غریب عوام کا قتل بے
معنی ہوں، جہاں عصمتیں لوٹتی ہوں، جہاں تعلیم کمرشل ہوتی ہوں، جہاں فرقہ
واریت کو پروان چڑھایا جاتا ہو، جہاں تعصب و عصبیت کا زہر پھیلایا جاتا
ہوں، نفرتوں سے جینا سیکھایا جاتا ہو، جہاں ایمان کی جگہ روپیہ پیسہ اہم
ہو، جہاں صحت ناپید ہوچکی ہو، جہاں ملاوٹ سر عام کی جاتی ہو، جہاں حرام
اشیا کی فروخت ہو، جہاں تہذیب و تمدن کا جنازہ نکالا جاتا ہو، جہاں ظلم و
بربریت کا راج ہو، جہاں حکمران قرض پر قرض لیکر اپنی نسلوں کو نوازتے ہوں،
جہاں ملکی قیمتی ادارے و اشیا مٹی کے بھاؤ فروخت کی جاتی ہوں، جہاں سرکاری
املاک جلائی جاتی ہوں اور جہاں مولوی مساجدوں میں دہشت گردی کا درس دیتے
ہوں ایسا پاکستان کس طرح ترقی کی جانب رواں دواں ہوسکتا ہے ۔کراچی ،
حیدرآباد اور میرپورخاص وہ خاص شہر ہیں جن میں منتخب ہونے والے شہری
نمائندوں نے پانی اور بجلی سے عوام کو محروم کیئے رکھا ہے ، کنڈا سسٹم اور
پانی کی چوری کا عمل جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، ناگن چورنگی
سے انڈہ موڑ تک سات سالوں سے پانی کا بحران پیدا کیا ہوا ہے ان علاقوں کا
پانی نیو کراچی انڈسٹریل کو فروخت کیا جارہا ہے یہاں کے باشندوں نے منتخب
نمائندگان کو آگاہ بھی کیا لیکن کچھ نہ ہوااور اب چاہتے ہیں کہ یہ لوگ
بلدیاتی اتخابات مین انہیں اور ان کی جماعت کو منتخب کریں ، تجزیہ کار کہتے
ہیں کہ عوام کیا سوچ و افکار سے خالی ہے، یا ان کے صبر کو کس حد تک لے جانا
چاہتے ہو ، محققین کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی پریس کانفرنس، میڈیا میٹنگ، جلسے
و جلوس میں خطابات ان کے اعمال پر پردہ نہیں ڈال سکتی بہتر یہی ہے کہ اپنے
اندر پانے والے مجرموں کا سخت احتساب کریں اور لوٹ مار کے سلسلہ کو بند
کردیں کیونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی میں پسی ہوئی ہے کہیں عوام برداشت سے
باہر نہ ہوجائے۔ اب دیکھنا ہے کہ سندھ کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی
مقام کس حد تک قائم رکھ سکتی ہیں اگر انھوں نے اب بھی اپنے اندر کی خامیاں
دور نہ کیں تو وہ وقت دور نہ ہوگا جب عوام مکمل طور پر مسترد کردیں گے،
سیاسی نشیب کسی کے کرنے سے نہیں ہوتے بلکہ یہ خود لیڈران ، رہنماؤں کی غلط
پالیسیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں ، جب عمل اچھا ہوگا تو کامیابی قدم چومے گی
بد عمل سے کبھی بھی نیکی اور کامیابی میسر نہیں آتی۔ اللہ پاکستان کا حامی
و ناظر رہے آمین۔ پاکستان زندہ باد ،پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔ |