۱۔’’بارش میں دھوپ‘‘(تروینیاں)
صفحات:۱۶۰، قیمت:۲۰۰ روپے
۲۔’’ترنگ/جلترنگ‘‘ (ثلاثیاں) صفحات:۱۷۶، قیمت:۲۰۰ روپے
۳۔ ’’ماہیارے ماہیا‘‘(ماہیے) صفحات:۱۴۴، قیمت:۲۰۰ روپے
مصنف:ڈاکٹر طاہر سعید ہارون
ناشر: بزمِ رنگِ ادب، کراچی
مبصر: صابر عدنانی
ڈاکٹر طاہرسعیدہارون ۵؍ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بنیادی طور پر
وہ طبیب ہیں۔شاعری، خصوصاً دوہانگاری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انجمنِ
ترقّیٔ اردو پاکستان سے شائع شدہ کتاب’’پاکستان میں اردو دوہے کی روایت‘‘
(مرتّبہ: کنول ظہیر) میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی دوہانگاری پرتفصیلی
اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
ڈاکٹرطاہرسعید ہارون تقریباًچالیس سال سے شعرکہہ رہے ہیں۔ اب تک ان کے کئی
مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں، جن میں’’رفعتِ انجم‘‘ (۱۹۸۴ء)،’’نئی رُتوں
کا سراغ‘‘ (۱۹۸۹ء)، ’’سحر کی پہلی کرن‘‘(۱۹۹۳ء)، ’’من موج‘‘(۲۰۰۱ء)، ’’نیلا
چندرماں‘‘ (۲۰۰۳ء)، ’’ پریت ساگر‘‘(۲۰۰۴ء)،’’من بانی‘‘(۲۰۰۵ء)، ’’میگھ
ملہار‘‘ (۲۰۰۷ء)، ’’بھورنگر‘‘(۲۰۰۸ء)، ’’پریم رس‘‘(۲۰۰۹ء)، ’’کوک‘‘، ’’بارش
میں دھوپ‘‘(تروینیاں)، ’’ترنگ/جلترنگ‘‘ (ثلاثیاں) اور ’’ماہیارے
ماہیا‘‘(ماہیے)(۲۰۱۰ء) قابلِ ذکر ہیں۔ہم یہاں سالِ رواں میں شائع ہونے والی
آخرالذّکر تین کتابوں کے حوالے سے اظہارِخیال کررہے ہیں۔
تروینی، ماہیے اور ثلاثی میں فرق کو سمجھنے ہی سے اِن اصناف کی واضح صورت
سامنے آسکتی ہے۔ تروینی کے پہلے دونوں مصرعے ہم قافیہ (اور ہم ردیف) ہوتے
ہیں جب کہ آخری مصرع قافیے (اور ردیف) کی مناسبت سے پہلے دومصرعوں سے
مطابقت نہیں رکھتا۔ پنجابی میں ماہیا ڈیڑھ مصرعوں پرمشتمل ہوتا ہے، لیکن
اردو میں لکھنے والوں نے ماہیے کے ڈیڑھ مصرعوں کو تین مصرعے بنادیا ہے۔
ماہیے میں پہلے اور تیسرے مصرِع کا قافیہ (اور ردیف) یکساں ہوتا ہے، جب کہ
بیچ کا مصرع قافیے (اور ردیف) کے اعتبار سے باقی دونوں مصرعوں سے الگ ہوتا
ہے۔ ثلاثی میں بھی پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ( اور ہم ردیف) ہوتا ہے اور
درمیان کا مصرع پہلے اور تیسرے مصرِع سے قافیے (اور ردیف) کے لحاظ سے
مناسبت نہیں رکھتا۔ ماہیے اور ثلاثی میں فرق یہ ہے کہ ماہیے کی ایک مخصوص
بحر ہوتی ہے، جب کہ ثلاثی کسی بھی بحر میں لکھی جا سکتی ہے۔
’’بارش میں دھوپ‘‘ تروینیوں پر مبنی کتاب ہے۔ اِس میں ڈاکٹر صاحب نے دوہے
کی کیفیت تروینی میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے،دوہا ڈاکٹر
صاحب کے رگ و پے میں رچا بسا ہے، جو اِنھیں کسی صورت خود سے الگ نہیں ہونے
دیتا۔ تروینی کے موجد گلزار ہیں۔ گلزار نے اِس صنف کو جس طرح برتا اور پھر
اہلِ علم کے سامنے پیش کیا، اُس پر اہلِ علم مختلف تجربات کررہے
ہیں۔ڈاکٹرطاہرسعید ہارون نے تروینی میں اپنے مخصوص انداز کا جادو جگایا ہے،
اُنھوں نے پوری کوشش کی ہے کہ تروینی کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا
جائے۔ کہیں کہیں اُنھوں نے ہندی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں، ساتھ ہی حاشیہ
لگا کر اُن کے معنی بھی دیے ہیں۔تروینی میں یاورامان، فوقیہ مشتاق، شاعرعلی
شاعر، زیب النسا زیبی اور دیگرشعرا بھی تجربات کررہے ہیں۔ اِس صنف میں
تجربات سے قاری کے لیے نئے در وا ہوئے ہیں اور وہ تین مصرعوں میں
پُرمغزمعنی حاصل کرتا ہے۔
ماہیے کی صنف کا تعلّق بنیادی طور پر پنجابی زبان سے ہے۔ ’ماہی‘ کے ایک
معنی’ محبوب‘ کے بھی ہیں۔ اِس صنف میں بالعموم محبوب سے خطاب ہوتا ہے۔
ماہیے اور دوہے گیت کے انداز میں گائے جاتے ہیں، کیوں کہ ڈاکٹرصاحب دوہے کے
ماہر ہیں اور دوہے کے انداز میں ماہیا اُن کے فطری جذبے کا نتیجہ ہوسکتا
ہے،جواُنھیں دوہے سے دُورنہیں ہونے دیتی اور اِنھیں نئے انداز سے تجربات کی
طرف راغب کرتی ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی کتاب ’’ماہیارے ماہیا‘‘ ایک منفرد تجربہ
ہے۔
ثلاثی حمایت علی شاعر کی اختراع ہے، ڈاکٹر صاحب نے ثلاثی کوبھی اپنے تجربے
کی کسوٹی پر پرکھا اور اس میں کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹرصاحب کا’’ثلاثی ‘‘ سے
متعلق نیا تجربہ تروینی ہی کے انداز میں ہے۔ اُنھوں نے ’ثلاثی‘ اور
’تروینی‘ کی صنف کو الگ الگ برتا، مگر اُن کااسلوب ایک ہی ہے۔یہاں ہم تینوں
اصناف میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی لکھی ہوئی حمدیں پیش کررہے ہیں۔دیکھیے،
ایک ہی موضوع کو تین مختلف مختصر اصناف میں اُنھوں نے کس کس طرح برتا ہے۔
تروینی میں ’’حمد‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹرصاحب کا تجربہ ملاحظہ ہو:
سورج، چاند، ستارے تیرے
جگنو، دیپک سارے تیرے
جلوہ تیرا چار دشائیں
اسی طرح ’’ماہیے‘‘ میں ’’حمد‘‘ دیکھیں:
دن راتیں تیری ہیں
کلیوں کے لب پر
بس باتیں تیری ہیں
ثلاثی میں’’ حمد‘‘کا انداز دیکھیے:
ہر سو تیری ٹھور(۱)
تیری دھوپ اور چاندنی
تیری رینا، بھور(۲)
((۱)نشان (۲) صبح)
ڈاکٹر سعید ہارون کی تروینیوں، ماہیوں اور ثلاثیوں میں اُن کا مخصوص مزاج
پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ اِس تروینی میں موسم کی گل افشانی دیکھیے:
گل بوٹوں کے سندر گہنے
ہریالی کا چولا پہنے
دلہن بن کر ساون آیا
یہاں ساون کے موسم کو دلہن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ساون میں
رونما ہونے والی ہریالی اور گُل بوٹوں سے بھرے باغات کو اپنی تروینی میں
خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔
’’ماہیے‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے فن کی گہرائیوں کا اندازہ کیجیے:
دونوں پہ جوانی ہے
بانکا راجا ہے
البیلی رانی ہے
اِس ماہیے میں ڈاکٹرصاحب نے جوانی کی انفرادیت کا اظہار کیا ہے۔ جوانی میں
انسان بے فکری کی زندگی گزارتا ہے، اچھے اچھے خواب دیکھتا اور اُن کی تعبیر
کے لیے تگ و دود کرتا ہے، یہاں ڈاکٹرصاحب نے ایسے ہی دونوں کرداروں کا ذکر
کیا ہے جو دنیاومافیہا سے بے خبر صرف جوانی کے نشے میں جیتے اور مرتے ہیں۔
ہر نوجوان لڑکا اپنی جگہ بانکا راجا اور ہر نوجوان لڑکی اپنے زعم میں
البیلی رانی ہوتی ہے۔
چاند رات سے متعلّق ثلاثی کے یہ مصرعے دل کو چھو لیتے ہیں:
بھیگی بھیگی رات
چندرماں٭ کی چاندنی
تاروں کی بارات
(٭مہتاب )
اِس ثلاثی میں چاندرات میں چاند کی وہ چمک اور روشنی اور تاروں کی جھلملاہٹ
اور ہجوم دیکھ کرانسان کے اندر قدرتی حُسن سے متعلق جذبات کو پیش کیا ہے۔
ڈاکٹرطاہر سعید ہارون بڑے دوہانگار توہیں ہی،تاہم تروینی، ماہیے اور ثلاثی
میں بھی اُنھوں نے خوب جم کر لکھا ہے۔ اُن کی شاعری قاری کو اپنے سحر میں
جکڑ لیتی ہے،وہ بے اختیار اُن کی شاعری سے لطف اندوز ہوتا چلا جاتاہے۔
قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ اُن کی شاعری ایک خاص سطح سے نیچے کبھی نہیں
آتی۔زیرِتبصرہ تینوں کتابوں کی طباعت اور پیش کش دیدہ زیب ہے۔ |