انتخابات کا ڈھول بج رہا ہے اور عوام اس ڈھول
کی تھاپ پر رقص میں محو ہیں۔ ڈگڈگی بجانے والے میدان میں ہیں اور یہ رقص جب
تھمے گا جب عوام رقص کے بعد کچھ سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ ان کے
ساتھ ہوا کیا ہے۔ ابھی تو میڈیا کے پنڈت سرجوڑ کر بیٹھے ہیں اور اس پر
تجزیہ ہو رہا ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلہ میں کس نے کتنی شاندار کامیابی
حاصل کی ہے اور کس طرح حاصل کی ہے؟ کوئی جیت کے طبلے بجا رہا ہے تو کوئی
جیب کٹ جانے کا واویلا مچا رہا ہے۔
ایسے شور میں جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو میں بھی عوام کی طرح آنکھیں اور کان
بند کرلیتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ عوام کیا محسوس کرتی ہے۔ آپ
کسی کے درد کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس درد سے آپ بھی گزریں یا اسے خود پر
محسوس کریں تو یقینا آپ درست نتائج پر پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے بھی ایسا ہی
کرنے کی کوشش کی ہے۔آئیے آپ بھی میرے ساتھ اس تجربہ میں شامل ہوجائیں ۔
ذہن کو بالکل خالی کردیں ہر قسم کے تجزیوں اور خواہشات سے…… آپ خود کو ایک
نئی دنیا میں محسوس کریں گے۔ ایک ایسی دنیا جو خواب نہیں حقیقت ہے۔ جہاں دو
اور دو چار ہوتے ہیں ۔ ان کو جوڑ کر بائیس نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری عوام
ہمیشہ سے تین حصوں میں تقسیم رہی ہے۔ ایک وہ جو کسی پارٹی یا جماعت کا
باواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہے اور وہ اسی کو ووٹ کاسٹ کرتی ہے۔ دوسری عوام وہ
ہے جو ہوا کے ساتھ چلتی ہے ،چڑھتے سورج کو دیکھتی ہے اور پھر اپنا فیصلہ
سناتی ہے۔ تیسری عوام وہ ہے جو کسی پارٹی یا جماعت کو پسند نہیں کرتی یا
سیاست کو ہی پسند نہیں کرتی ۔عرف عام میں وہ اپنی دنیا میں مگن رہتی ہے۔ان
کو کسی کے آنے جانے سے کوئی غرض نہیں ہے۔
انتخابات میں عموماً پارٹیاں یا جماعتیں اپنے کارکنان، ووٹرز یا حامیوں کو
متحرک کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا پھر ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ
دوسری قسم کی عوام کو ایسا لگے کہ اگلی بار وہی پارٹی یا جماعت آرہی ہے۔
پہلی قسم کی عوام اپنی جماعت سے خوش یا ناراض ہوتی ہے تو وہ اس کا اظہار
انتخابات کے نتیجہ میں اثر انداز ہو کرکرتی ہے۔خوش ہوتو ووٹ کاسٹ کرتی ہے
ورنہ عموماً کسی کو بھی ووٹ نہیں دیتی۔ یہ تعداد ہر جماعت کی مخصوص ہوتی ہے
اس میں اضافہ یا کمی جماعتوں کے نیٹ ورک پر منحصر کرتی ہے۔جس طرح کسی علاقہ
میں سگنل اسی وقت آتے ہیں جب وہاں قریب میں کوئی انٹینا موجود ہو۔ نیٹ ورک
کی غیر موجودگی میں آپ پہلی قسم کی عوام کا ووٹ حاصل نہیں کرتے بلکہ دوسری
قسم کے عوام آپ کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔ پہلی قسم کا ووٹ ہمیشہ دوسری قسم
کے ووٹ سے تناسب میں بہت کم ہوتا ہے۔
آئیے ہم دوسری قسم کے عوام سے یہ جانتے ہیں کہ وہ جماعتوں میں کیا تلاش
کرتے ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو تین ہی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک نظریہ،
دوسرا شخصیت اور تیسرا مفادات۔ اگر کسی جماعت کا نظریہ اس قسم کو متاثر کرے
اور اسے یہ یقین ہوجائے کہ وہ جیت جائے گی تو وہ اسی جماعت کو ووٹ ڈالتی ہے
۔ لیکن اگر نظریہ پسند نہیں اور شخصیت سے متاثر ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ
جیتے گا تو وہ اسے ہی ووٹ دیتا ہے۔ لیکن اگر نظریہ اور شخصیت بھی سامنے
نہیں ہے جو اسے متاثر کرسکیں تو وہ اپنا مفاد دیکھتا ہے لیکن یہاں بھی وہ
اسے ہی ووٹ دیتا ہے جو جیت رہا ہو۔ اس قسم کی عوام ہارنے والے گھوڑے پر
کبھی اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتی۔
اب آئیے حقیقت کی دنیا میں جیتنے والوں پر یہ فارمولا لگا کر دیکھتے ہیں کہ
یہ کام کرتا ہے کہ نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں جمہویت سے زیادہ آمریت کادور
طویل دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ دوسری قسم کی عوام ہے جو ہر چڑھتے سورج کو
پوجتی ہے۔ اس میں اپنا نظریہ، شخصیت اور مفادات تلاش کرتی ہے۔ پھر جب ان
تینوں چیزوں میں اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ
مقبولیت کھونے لگی ہے۔ پہلی قسم کی عوام کبھی بھی آمروں کو سلام نہیں کرتی۔
یہ بس خاموشی میں ہی عافیت سمجھتی ہے اور خاموشی خاموشی میں ہی اپنا کام
کرتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب آمریت کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے
یہاں آنے والے تمام جرنیلوں نے انتخابات کرائے اور اس میں حصہ بھی لیا۔
انہوں نے عوام کو نظریہ بھی پیش کیا اور مفادات کا چارہ بھی دیا۔آمریت میں
شخصیت ہی سب کچھ ہوتی ہے اس طرح دوسری قسم کی عوام کا ان کو باآسانی مینڈیٹ
مل جاتا ہے کیونکہ یہ جیت کا نشان ہوتے ہیں۔
جمہوری حکومتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے جو بڑی جماعتیں
دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ بھی اسی فارمولے کے مطابق آتی اور جاتی ہیں۔ مسلم
لیگ نواز جو ابھی حکومت میں ہے۔ اس میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی
ہیں۔ پہلی قسم کی عوام کا نیٹ ورک ان کے پاس پورے پاکستان میں موجود ہے ۔
دوسری قسم کی عوام کی اکثریت بھی نواز شریف کے ساتھ ہے۔ اس کو یہ یقین ہے
کہ وہ جیت جائیں گے ۔( اس کی وجوہات بہت سی ہیں کہ عوام کو کیوں یہ یقین ہے
؟ میں یہاں اس کا جائزہ پیش نہیں کررہا) ان سے نظریہ پاکستان بھی عوام کو
مل رہا ہے ،آپ اس سے اتفاق کریں یا انکار مگر دوسری قسم کی عوام یہی سمجھتی
ہے۔ نواز شریف صاحب کی شخصیت بھی عوام میں مقبول ہے جس کی وجوہات کا جائزہ
لیا جاسکتا ہے اور تیسرا مفادات بھی اس جماعت سے دوسری قسم کی عوام کو حاصل
ہو رہے ہیں۔ نواز حکومت سے قبل زرداری کی حکومت رہی ہے اس لیے ان پر یہ
فارمولا لگا کردیکھتے ہیں۔ پہلی قسم کی عوام کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں
اس جماعت کے پاس موجود ہے ۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد یہ تاثر عام ہوچلا تھا
کہ یہی جماعت جیتے گی، جس کے نتیجہ میں دوسری قسم کی عوام کا جھکاؤ اس کی
طرف غیر محسوس انداز میں گرا۔ اس جماعت سے روٹی، کپڑا اور مکان کا نظریہ
عوام کوملتا ہے جو مفادات سے بھی قریب تر ہے اور بھٹو کی شخصیت کا آئینہ
بھی موجود ہے۔ ان تینوں چیزوں کی موجودگی میں دوسری قسم کا ووٹ لے کر یہ
جماعت برسراقتدار آئی تھی۔ لیکن پانچ سال مفاہمت کی سیاست کے نظر ہوگئے۔ یہ
پہلا اتفاق تھا کہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کیے تھے۔ پاکستان کے
عوام کی دوسری قسم ہمیشہ سے باری کی قائل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیاست
کی تاریخ میں جماعتیں آتی اور جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی ایک جماعت نے
دوبارہ انتخاب نہیں جیتا۔ یہی تاثر دوسری قسم کی عوام کے ذہنوں میں رہتا
ہے۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی باریاں لگی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ میں
یہاں آمریت کے دور میں آنے والی جمہوری جماعتوں کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ وہ
آمریت ہی کے بل پر آتی ہیں۔ مفادات کا ٹولہ ہمیشہ آمروں کے ساتھ دکھائی دے
گا۔
ان باریوں کے درمیان ایک مزید سیاسی جماعت تحریک انصاف بھی اپنی جگہ بناتی
دکھائی دیتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سیاست میں نوآموز ہے اسی لیے اس کا نیٹ ورک
بھی پورے پاکستان میں پوری طرح نہیں بن پایا۔ پہلی قسم کی عوام میں نئے
ووٹرز کو اس جماعت نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ دوسری قسم کی عوام کو تبدیلی
کا نظریہ اس جماعت میں دکھائی دے رہا ہے۔ دیگر دونوں جماعتوں سے ناراض عوام
بھی اس جماعت کی طرف متوجہ ہیں ۔ان کو اپنے مفادات بھی اس جماعت سے پورے
ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان کی شخصیت کے سحر میں عوام پہلے ہی
دیوانی ہے۔اس طرح تینوں چیزوں کی موجودگی اور جیت کا یقین دوسری قسم کی
عوام کو اس کی طرف بھاری تعداد میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی
سے پہلی قسم کی عوام کا نیٹ ورک نہ ہونے کے باعث اس کو وہ کامیابی نہ مل
سکی جو اسے حکومت میں لانے میں کامیابی دلا سکتی کیونکہ ووٹر کا ووٹ اسی
وقت کیش ہوتا ہے جب آپ کا بینک علاقہ میں موجود ہو بصورت دیگر آپ کا چیک
کیش نہیں ہوسکے گا۔
آخر میں اس فارمولہ پر ایم کیو ایم کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں جسے یہ گمان
ہے کہ وہ پورے پاکستان کی جماعت ہے لیکن اب تک اسے بھی سندھ کے شہری علاقوں
کے علاوہ دیگر جگہوں پر اس طرح کامیابی نہیں مل سکی جیسا کہ دیگر دو
جماعتوں کو ملی ہے۔ پہلی قسم کی عوام کا دائرہ اب تک پورے پاکستان میں نہیں
پھیل پایا۔ دوسری قسم کی عوام کو نظریہ مہاجر سے اب تک ایم کیو ایم نہیں
نکال پائی۔ کہنے کو تو وہ یہی کہتی ہے کہ وہ نچلے طبقے کی متوسط جماعت ہے
اور وہ وڈیرہ شاہی سے نجات چاہتی ہے لیکن اس نظریہ کو پورے پاکستان میں اس
لیے پذیرائی نہیں ملی کہ ایم کیو ایم پر مہاجر نظریہ کی چھاپ اب تک نہیں مٹ
پائی اور اس میں اس جماعت کا اپنا قصور بھی ہے کیونکہ وہ جب بھی بند گلی
میں داخل ہوتی ہے فوراً مہاجر کارڈ استعمال کرتی ہے۔ دوسری قسم کی عوام کو
یقین نہیں کہ یہ پورے پاکستان میں کامیاب ہوکر حکومت بناسکتی ہے اسی لیے اس
کا ووٹر اب تک شہری سندھ تک محدود ہے جہاں دوسری قسم کی عوام کو مہاجر
نظریہ ، الطاف حسین کی شخصیت اور مفادات حاصل ہورہے ہیں اور یہ یقین بھی کہ
وہ جیت جائیں گے ۔
میں نے یہاں صرف ان جماعتوں کا تجزیہ پیش کیا ہے جو پورے پاکستان میں اپنے
امیدوار اتنی بڑی تعداد میں کھڑے کرتے ہیں کہ جس سے عوام کو امید ملے کہ وہ
جیت کر حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ملک میں نہ جیتیں کم از کم صوبے میں تو
حکومت حاصل کرہی لیں گے۔ اسی امید کے پیچھے دوسری قسم کی عوام بھاگتی ہے۔
اپنے مفادات حاصل کرتی ہے اور اگر حاصل نہ ہوں تو پھر اگلے الیکشن کا
انتظار کرتی ہے۔ تیسری قسم کی عوام کا تذکرہ میں نے صرف بطور تبرک کیا ہے
جس طرح سیاسی جماعتیں ان کے نام لے کر حکومتیں کرتی ہیں۔ ورنہ یہ قسم نہ
تین میں ہے نہ تیرہ میں ہے۔ آپ کا شمار کس قسم میں ہوتا ہے ذرا خود ہی
جائزہ لیں۔ لیکن میں یہ بات باآسانی کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم تیسری قسم کی
عوام میں آپ کا شمار نہیں ہوتا کیونکہ یہ قسم اس قسم کے مضامین کبھی نہیں
پڑھتی۔کیوں کیا خیال ہے؟؟…… |