انسان کا خاصہ ہے کہ وہ سداامید کا دامن تھامے
رکھتاہے۔سخت سے سخت صورتِ حا ل بھی اس سے اس کی امیدوں کو نہیں چھین سکتی۔
نا مساعد حالات اور ناقابلِ برداشت گھڑیوں میں زندہ رہنا انسان ہی کا خاصہ
ہے اور زندہ رہنے کا یہ حو صلہ اسے امید عطا کرتی ہے۔عسرت، تنگ دستی، جبر
اور مشکلات میں امید کی شمع انسان کیلئے زندگی کا نیا پیغام لاتی ہے اور وہ
سب کچھ بھول کر مستقبل کے سہانے سپنے بننے لگتا ہے۔انسان اور حیوان میں خطِ
امتیاز امید کی یہی کرن ہے جو اس کی ساری سر گر میوں کا محو رو مرکز ہو تی
ہے۔اگر کسی انسان کو زندہ در گور کرنا مقصود ہو تو پھر اس سے اس کی ساری
امیدیں چھین لو وہ خود بخود موت کی وادی میں پہنچ جائیگا۔ امیدیں ان ستاروں
کی مانند ہوتی ہیں جو اندھیری رات میں ستاروں کا کام دیتی ہیں اور مایوس
انسانوں کو زندہ رہنے کا ہنر عطا کرتی ہیں۔ جس انسان میں امیدوں کوجگانے کا
مادہ جتنا زیادہ ہو گا وہ اتنا ہی پر سکون، شاد اں و فرحان اور مایوسی سے
دور ہو گا کیونکہ امیدیں اس کیلئے خوشنما رنگوں کی ایسی تصویر بناتی ہیں جو
اسے غم و اندوہ سے دور کر دیتی ہیں ۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ یہی حال معاشروں
کا بھی ہوتا ہے۔جب کبھی کسی معاشرے میں ظلم و عدوان اور نا انصافی کا دور
دورہ ہو جائے تو پھر اس کے خلاف عوام کی نفرت اس کے خاتمے کے خواب سجاتی ہے
لیکن کم ظرف حکمرانوں اور استحصالی طبقے کے جبر کے باعث یہ خواب حقیقت کا
جامہ پہننے سے قاصر رہتے ہیں لیکن عوام پھر بھی مایوس نہیں ہوتے بلکہ
منصفانہ معاشرے اور استحصال سے پاک سوسائٹی کی جدو جہد جاری رکھتے ہیں اور
پھر کوئی ایسا قائد جو طبقاتی معاشرے سے دل و جان سے نفرت کرتا ہو ان کی
راہنمائی کیلئے سامنے آ جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی ہلے میں
استحصالی دیوایں منہدم ہو جائیں کیونکہ استحصا لی طبقات اتنے مضبو ط ہو تے
ہیں کہ انھیں شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ حکومت اور
اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہوتے یں لہذا کسی نہ کسی بہانے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے
میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔یہ ایک جنگ ہوتی ہے جو استحصالی طبقات اور اس کا
شکا ر ہونے والوں کے درمیان ہو تی ہے اور اپنے منطقی انجام تک جاری رہتی ہے
۔ محروم طبقات قدم سے قدم ملائے معاشرے کو بدلنے کیلئے نکل کھڑے ہوتے
ہیں۔ان کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ سچائی کا
کمال یہی ہوتاہے کہ اس کے چاہنے والوں کی تعداد کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ
امید کبھی نہیں مرتی ان کی ساری جدو جہد کا نقط ماسکہ ہوتا ہے۔،۔
پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے ان میں دھشت گردی، کرپشن اور نا انصافی سرِ
فہرست ہیں ۔اگر میں ان سب کو ایک لفظ میں سمونے کی کوشش کروں تو وہ لفظ ہو
گا کرپشن کیونکہ کرپشن کی کوکھ سے دھشت گردی اور نا نصافی جنم لیتی ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے ایک خاص طبقے نے اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑ
رکھا ہے اور انھیں کسی بھی حال میں رہا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔یہ طبقہ
سرمایہ دار بھی ہے ، جاگیر دار بھی ہے ،صنعتکار بھی ہے، سمگلر بھی ہے اور ذ
خیرہ اندوز بھی ہے لہذا عوام کیلئے انھیں شکست دینا انتہائی دشوار ہوتاہے ۔
ایک وقت تھا کہ ان طبقات کو ذولفقار علی بھٹو نے دسمبر ۱۹۷۰ کے انتخابات
میں شکستِ فاش دی تھی لیکن یہ طبقہ پھر بھیس بدل کر ان کا ساتھی بن گیا اور
ایک دن اسی کا قتل کر کے اس کی لاش اس کے ورثاء کے حوا لے کر دی ۔ان طبقات
کے انتقام کا نداز ایسا ہی ہوا کرتا ہے کہ جو کوئی ان کے مفادات اور من
مانیوں کو لگام ڈالنے کی کوشش کرتا ہے یہ اسے ہی ختم کر دیتے ہیں ۔مجھے
اچھی طرح سے یاد ہے ان انتخابات میں غیر معروف اور غریب و نادار افراد نے
ان طبقات کے سارے برج الٹ دئے تھے اور ان کے لئے منہ چھپانا مشکل ہو گیا
تھا ۔ کہاں تاج محمد لنگاہ جیسا فقیر شخص اور کہاں پاکستان کا انتہائی ذہین
اور وڈیرہ سیاستدان ممتاز دولتانہ لیکن شکست ممتاز دولتانہ کا مقدر بنی
کیونکہ جب نعرہ یہ ہو کہ ( طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ) تو پھر امراء کی ہار
پکی اور عوام کی جیت یقینی ہو جاتی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کی ولولہ انگیز
قیات اور عوام کا سیلِ رواں تبدیلی کا استعارہ بنا تھا۔اب اس بات کو نصف
صدی ہونے کو ہے وہ قوتیں جھنیں ۱۹۷۰ میں شکست ہوئی تھی زیادہ قو ت سے ایک
بار پھر باہم متحد ہو گئی ہیں اورمعاشرتی استحصال کی نئی داستان رقم کر رہی
ہیں۔ عوام ان کے آہنی پنجوں میں تڑپ رہے ہیں لیکن ان سے رہائی کی کوئی صورت
انھیں نظر نہیں آ رہی ۔ظلم و جبر اور مایوسی کے ان گھپ اندھیروں میں تحریکِ
انصاف کے عمران خان ایک نئے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے تو عوام دیوانہ
وار ان کے گرد جمع ہو گئے ۔انھیں مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات میں حکومتی دھاندلی
کی بدولت وہ حمائت تو نہ مل سکی جو بظاہر نظر آ رہی تھی لیکن عوام نے
موجودہ سسٹم سے ا پنی نفرت کا جس طرح بر ملا اظہا رکیا تھا وہ حیران کن تھا
۔۱۲۶ دنوں کے دھرنے نے جس طرح حکومت کو گھٹتنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا وہ
ایک الگ داستان ہے۔پورا پاکستان اس دنوں میں رات کو ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ
جاتا تھا اور عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب ہوتاتھا کیونکہ
عمران خان تبدیلی کا استعارہ تھا ۔ابھی یہ تحریک دھیرے دھیرے اپنے منطقی
انجام کی جانب بڑھ رہی تھی کہ ۱۶ دسمبر۲۰۱۴ کو کو پشاور پبلک سکول پر دھشت
گردوں کے حملے نے عمران خان کو اپنا دھرنا سمیٹنے پر مجبور کر دیا لیکن کیا
اس دھرنے کے سمیٹنے سے وہ امیدیں جو اس نظام کو بدلنے کیلئے تھیں وہ بھی دم
توڑ گئیں؟ بالکل نہیں کیونکہ امیدیں مر انہیں کرتیں۔حکومت نے دھرنا ختم ہو
نے پر سکھ کا سانس لیا لیکن وہ طبقے جو ایک نئے پاکستان کا خوب دیکھ رہے
تھے انھیں مایوسی ہوئی کیونکہ انھیں منزل بالکل سامنے نظر آ رہی تھی۔اب یہ
دھرنا کب ہو گا اور نیا پاکستان کیسے بنے گا کسی کو کچھ خبر نہیں لیکن اتنا
طے ہے کہ ایسا ہو کر رہنا ہے۔اسی دوران پاک فوج نے کراچی اپریشن کا ڈ ول ڈا
لا اور وھشت گردوں اور کرپٹ عناصر کے خلاف ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا جس
میں نائن زیرو پر رینجرز کی یلغار بھی شامل تھی ۔اس اپریشن کے انتہائی حو
صلہ افزا نتائج بر آمد ہوئے لہذا وہ کراچی جہاں لوگوں کو دن دھاڑے لوٹ لیا
جاتا تھا محفوظ و مامون ہو گئے۔بھتہ خور،ٹارگٹ کلنگ اور تاوان برائے اغوا
کی وارداتیں بالکل ختم ہو گئیں جس سے کراچی شہر کی ساری رونقیں بحال ہو
گئیں ۔ اب عمران خان کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف عوامی امیدوں کا
مرکز بنا ہوا ہے۔اس کے معنی یہ نہیں کہ عمران خاں کا خواب اپنی افادیت کھو
چکا ہے ۔عمران خان اب بھی دھرنے والے ایام کی طرح عوام میں مقبول ہیں اور
سیاسی میدان میں اپنا فریضہ تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو
احتجاج اور پروٹسٹ کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے اب طاقت کی زبان سمجھ رہے
ہیں ۔ان میں سے اکثر تو پاکستان سے ہی فرار ہو گئے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے
کہ انھوں نے کس پیمانے کے گھپلے کئے ہوئے ہیں ۔کل تک جو اس ملک کے خدا بنے
ہوئے تھے آج وہ در بدر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی کرپشن نے انھیں
کہیں کا نہیں چھوڑا۔عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ دینے کے ساتھ ساتھ جو سب
سے بڑا کام کیا وہ یہ ہے کہ خیپر پختونخواہ میں ایجوکیشن،صحت،پٹوار اور
پولیس میں انقلابی اصلاحات متعارف کروائیں جو اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں
کہ اگر وفاقی سطح پر تحریکِ انصاف کو حکومت مل گئی تو عمران خان ان اہم
شعبوں میں انقلاب برپا کر کے رہیں گئے ۔ اس قوم کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں
پر ایجو کیشن کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ با اثر حلقے نہیں چاہتے کہ
عوام با شعور ہو جائیں کیونکہ اس طرح ان کی بالا دستی کے غبارے سے ہوا نکل
جائیگی اور عوام انھیں خدا سمجھنے کی بجائے جوابدہی کی جانب گھسیٹیں گئے ۔پاکستانی
تاریخ میں تحریک انصاف کی پہلی صوبائی حکومت ہے جس نے اپنے کئی وزرا کو
کرپشن کے الزامات میں بر طرف کیا ہے حالانکہ تحریکِ انصاف کو اسمبلی میں
سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے اور اتحادیوں کو کھونے کی صورت میں وہ صوبائی
حکومت سے فارغ بھی ہو سکتی ہے اور پھر جس صوبے میں مولانا فضل الرحمان اپنی
حکومت قائم کرنے کیلئے ہمہ وقت متحرک ہوں اس صوبے میں حکومت کے چلے جانے کے
خوف سے بالا تر ہو کر کرپشن کے خلاف اس طرح کا جرات مندانہ موقف صرف عمران
خان کی ذات سے ہی ممکن ہو سکتا تھا اور شائد اسی میں اس کی کی مقبولیت کا
راز پنہاں ہے ۔،۔ |