آخرانکارِ حدیث کیوں؟ قسط اول

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ .
اما بعد!
مذہب اسلام کیلئے موجودہ دور میں جو سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں، ان میں حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف سلام) کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات بالخصوص توجہ طلب ہیں۔
۱- حدیث کا مرتبہ اسلام میں کیا ہے؟
۲- حدیث سے شریعت اسلامیہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟
۳- حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے تواس سے دین کو کیا نقصان ہوگا، دور حاضر میں انکار حدیث کی جو وباء پھوٹ پڑی ہے، یہ کن جراثیم کا نتیجہ ہے؟
سطور ذیل میں ہم ان سوالات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔
واللّٰہ الموفق والمعین.
لیکن اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند اصولی امور ناظرین کی خدمت میں پیش کردیں جن سے نظر وفکر کی مزید راہیں کھل سکیں۔
۱- نبی امت کی عدالت میں
انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔
اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟
تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔
بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)
۲- فتنہ کی شدت
فتنہ کی کجی ملاحظہ کیجئے۔ دین قیم کے وہ صاف، واضح، روشن اور قطعی مسائل جن میں کل تک شک وتردد کا ادنیٰ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا؛ کل تک ملت اسلامیہ جن کو یقینی مانتی چلی آئی تھی، شکی مزاج طبیعتیں آج ان ہی مسائل کو غلط اور ناقابل قبول ٹھہراتی ہیں۔
ایک رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا۔ امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لئے آپ کی ذات آخری عدالت تھی اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علماء، صلحاء، صوفیاء، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے فالی اللہ المشتکی.
اف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث حجت ہے یا نہیں، دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے اس سے رک جانا ضروری ہے۔
رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا کہ یہ ”حکم آپ اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے“ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محروم کئے رکھتا ہے۔
شرح تحریر میں ہے۔
”حجیة السنة سواءٌ کانت مفیدة للفرض او الواجب أو غیرہما (ضرورةٌ دینیةٌ) کل من لہ عقل وتمیز حتی النساء والصبیان یعرف أن من ثبت نبوتہ صادق فیما یخبر عن اللّٰہ تعالی ویجب اتباعہ“ (تیسیر التحریر ص:۲۲ ج۳)
ترجمہ: سنت خواہ مفید فرض ہو یا واجب یا ان کے علاوہ کے لئے مفید ہو، اس کا حجت ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے جس میں طلب دلیل کی ضرور نہیں، جس کو ذرا بھی عقل وتمیز ہو، عورتوں اور بچوں تک بھی، وہ جانتا ہے کہ جس کی نبوت ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتلائے گا اس میں قطعاً سچا ہوگا اور اس کی بات کی پیروی واجب ہوگی۔“
منکرین حدیث کی کورچشمی ملاحظہ کرو۔ اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رسول برحق ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ علم و عرفان کے سرچشمہ ہوتے ہیں الغرض آفتاب طلوع ہوچکنے کے بعد، بحث اس پر ہورہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد دن ہوتا ہے، یا رات ہوتی ہے۔ زبان وقلم، عقل وفہم اور دل ودماغ کی قوتیں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ رسول کو رسول ماننے کے بعد اس کی کسی بات (حدیث) پراعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو خیرہ چشم طلوع آفتاب کا اقرار کرنے کے باوجود ”دن نہیں رات“ کی رٹ لگارہا ہو اور چاہتا ہو کہ تمام دنیا اسی کی طرح آنکھیں موندلے، بتلایا جائے کہ آپ ایسے سوفسطائی کو کس دلیل سے سمجھاسکتے ہیں۔
اسی طرح محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا زبانی اقرار کرنے والوں سے جب سنا جاتا ہے کہ جس ذات کو ہم رسول مانتے ہیں اسی کا کوئی قول اور فعل ہمارے لئے حجت نہیں تو بتلائیے ایسے محرومان بصیرت کے لئے کونسا سامان ہدایت سود مند ہوسکتا ہے؟ کاش ان کو چشم بصیرت نصیب ہوجاتی۔ ﴿فَانَّہَا لا تَعْمَی الأبْصَارُ وَلکِنْ تَعْمَی الْقُلُوب الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾”کیونکہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوچکے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں۔“
۳- منکرین حدیث کی بے اصولی
حدیث کا جو ذخیرہ اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے اس کے دو جز ہیں۔
(۱) متن (۲) سند۔ یعنی ایک تو حدیث کے وہ جملے ہیں جو قولاً یا فعلاً یا تقریراً صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہیں کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا یا آپ نے فلاں عمل کرکے دکھایا یا آپ نے فلاں کام کی ... جو آپ کے سامنے کیاگیا، تصویب فرمائی۔ دوم اساتذہ حدیث کا وہ سلسلہ ہے جو امت اورامت کے نبی صلى الله عليه وسلم کے درمیان واسطہ ہیں۔ مثلاً امام بخاری جس حدیث کو روایت کریں گے وہ ساتھ ہی یہ بھی بتلاتے جائیں گے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے یہ حدیث کن کن واسطوں سے ہم تک پہنچی۔
پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی حدیث جن لوگوں نے خود آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سنی وہ سننے والوں کے حق میں اسی طرح قطعی تھی جس طرح قرآن کریم قطعی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک سے جو حکم بھی صادر ہوا بالمشافہ سننے والوں کے لئے اس کا درجہ وحی خداوندی کا ہے اگر آپ نے اس کو قرآن میں لکھنے کا حکم دیا تو وہ وحی جلی کہلائے گا ورنہ وحی خفی۔
قسم اوّل (وحی جلی) کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تھے۔
قسم دوم (وحی خفی) کا مضمون منجانب اللہ ہوتا تھا، الفاظ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ہوتے تھے، بہرحال وحی کی یہ دونوں قسمیں چونکہ منجانب اللہ ہیں اس لئے دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کا قبول کرنا اہل ایمان کے ذمہ ضروری ہوا۔ البتہ روایت حدیث کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں ہوجاتی ہیں جن کی تفصیل کو مع ان کے احکام کے اپنی جگہ بیان کیاگیا ہے۔
اب منکرین حدیث کی بے اصولی دیکھئے کہ وہ ان دونوں اجزاء (متن حدیث اور سند حدیث) کے متعلق مخلوط بحث کریں گے۔ حالانکہ بے اعتمادی کا زہر پھیلانے سے پہلے انصاف ودیانت کا تقاضا یہ تھا کہ محل بحث کو طے کرلیا جاتا کہ کیا ان کو نفس حدیث ہی پر اعتماد نہیں خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو؟ یا نفس حدیث پر ان کو اعتماد ہے اور وہ اسے دینی سند بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن موجودہ ذخیرہ حدیث کے متعلق ان کی بے اعتمادی کا سبب یہ ہے کہ پوری امت میں ان کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی یہ امانت امت تک صحیح پہنچادی ہو اس لئے اس کو موجودہ ذخیرہ حدیث سے ضد ہے۔ مثلاً امام مالک کی وہ روایت جو مالک، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مروی ہیں، جو شخص ان روایات پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس کا فرض نہ ہوگا کہ وہ اپنی بداعتمادی کی وجہ بتلائے کہ آیا اسے حدیث کے ان تین ناقلین، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہم پر ہی اعتماد نہیں۔ معاذ اللہ۔ یا خود ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر اعتماد نہیں۔ استغفراللہ۔
بہرحال جب تک موضوع کی تنقیح اور تعین نہ کرلی جائے، اس وقت تک کسی بھی مسئلہ پر بحث لغو اور لایعنی مشغلہ ہے۔ لیکن آپ منکرین حدیث کو پائیں گے کہ وہ کبھی نفس حدیث پر بحث کریں گے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور کبھی بے چارے ناقلین حدیث پر تبرا شروع کردیں گے کہ ان لوگوں نے اُمت کی یہ امانت بعد میں آنے والی امت تک کیوں پہنچائی۔ لیکن انکار حدیث کا منشاء متعین کرنے سے وہ گریز کریں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ حدیث پر سے اعتماد اٹھانے کا اصل حل تلاش کرو اور محل بحث تلاش کرنے کے بعد افہام و تفہیم کریں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قصور وار ناقلین روایت ہوں اور فرد جرم خود حدیث پر عائد کردی جائے۔ یا اعتماد نفس حدیث پر نہ ہو،اور اس کی سزا حدیث روایت کرنے والی پوری امت کو دی جانے لگے۔
۴- انکار حدیث کا عبرتناک انجام
حدیث پر اعتماد نہ کرنے والوں کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ذات نبوی صلى الله عليه وسلم یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہوگا استغفراللہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زیدکا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں لیکن اس کے باوجود کہے، کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں بلکہ مطلق حدیث کا ہے۔ جب اس کا انکار کیا جائے گا اور اسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی ذات سے اعتماد اٹھانا ہوگا یا پوری امت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکار حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں۔ اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم یا چودہ سو سالہ امت سے اعتماد اٹھالیا جائے تواس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں، کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں۔ اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہئے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 350437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.