دنیا میں جو انسان مذہب پر یقین
رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی مذہب کے ماننے والے ہیں، ان میں سے 95فیصد ایسے
ہوتے ہیں جن کا تعلق ان کے مذہب سے پیدائشی ہوتا ہے۔ وہ جس خاندان،جس گھر
اور جن والدین کے گھر جنم لیتے ہیں، انہی کا مذہب شعوری طور پر بھی اپنا
لیتے ہیں۔ مذہب پر یقین رکھنے والے بمشکل پانچ فیصد دنیا میں ایسے اولعزم
افراد ہوں گے جو سوچ سمجھ کر، تحقیق کر کے سچے دین کے لیے اپنے پیدائشی دین
کو چھوڑ تے ہیں ۔ ہم میںسے بھی سب ہی الحمدللہ پیدائشی مسلمان ہیں ، ہم اس
بات کے ذکر کے ساتھ الحمدللہ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم سچے
دین کے پیروکار ہیں … پھرہم تو ’الحمدللہ‘ خاص اس نیت سے بھی کہتے ہیں کہ
جب اپنے باطن میں اس پہلو سے جھانکتے ہیں کہ کیا ہم ایسی صلاحیت رکھتے ہیں
کہ اگر ہم خدانخواستہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے ہاں پیدا ہو جا تے تو
تحقیق کر کے اسلام جیسی نعمت عظمیٰ تک پہنچ سکتے تو بے اختیار لبوں سے یہی
نکلتا ہے کہ نہیں، خدا کی قسم ہر گز نہیں! … کوئی بھی توفیق الٰہی کے بغیر
اس نعمت عظمیٰ کو پا ہی نہیں سکتا ۔ ہم نے تو جب بھی سچائی کے ساتھ اپنے
باطن پر نظر ڈا لی تو اپنی حقیقت سامنے آگئی کہ اگر ہم تحقیق سے’ حق‘ کو
پا بھی لیتے تو وہ جرأت ہرگز نہیں کر سکتے تھے ،جو اپنے پیدائشی دین، اپنے
ماں باپ، اپنے بہن بھائی، بیوی بچے، خاندان کو یکلخت چھوڑنے اور اپنے
معاشرے میں اجنبی ہونے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔
سو ثابت ہوا کہ دین اسلام اور پھر دین اسلام میںبھی تمام گمراہ فرقوں سے
بچتے ہوئے صراط مستقیم یعنی اہل سنت و الجماعت کے راستے پر چلنا صرف اور
صرف عطائے خداوندی اور توفیق الٰہی ہے!جب یہ چیز ایک مسلمان سمجھ لے تو پھر
اس کے نزدیک اس کا کوئی عمل یہاں تک کہ اس کی مسلمانی بھی اسے اپنا کمال
نہیں نظر آتی۔اسے پھر کسی کی کوئی کمی، کسی گناہ گار کا کوئی گناہ اسے
حقارت کی نگاہ سے دیکھنے نہیں دیتا!
اس بات کو سمجھنے کے لیے اسلاف میں سے ایک بزرگ ابو عبداللہ اندلسی رحمہ
اللہ کا واقعہ بے حد عبرت انگیز ہے ،جو اکثر اہل عراق کے پیر و مرشد اور
استاذ حدیث تھے۔ واقعہ تواتر سے ہمارے بزرگوں نے نقل فرمایا ہے۔ حضرت شیخ
الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے تفصیل سے اپنی کتاب’تکبر ام الامراض‘میں
اور ان کے بعد مفتی شفیع رحمہ اللہ نے ایک مستقل کتاب میں اس واقعہ کو نقل
فرمایا ہے۔ واقعہ تو کافی تفصیل لیے ہوئے ہے، مختصریہ کہ جب ایک بار شیخ
اندلسی نے سفر کا ارادہ فرمایا تو تلامذہ اورمریدین کی ایک بڑی جماعت بھی
آپ کے ساتھ چل پڑی۔ ان میں حضرت جنید بغدادی اور حضرت شبلی رحمہم اللہ
جیسے نامور شیوخ تصوف بھی تھے، دوران سفران کا گزرنصرانیوں کی ایک ایسی
بستی سے ہوا، جہاںآفتاب پرست، یہودی اور بت پرست بھی رہتے تھے ۔ وہاں ان
کے مذہبی پیشوا پادری اور بچاری وغیرہ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف تھے۔
کوئی آگ کو ڈنڈوت کر رہا تھا، کوئی آفتاب کو پوجتا تو کوئی صلیب کو اپنا
قبلہ حاجات بنائے ہوئے تھا۔ شیخ اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں دیکھ
کر یکلخت میرے دل میںتکبر اور اپنی بڑائی پیدا ہوئی کہ ہم مومن موحد ہیں
اور انہیں دیکھو کم بخت کیسے جاہل اور احمق ہیں کہ بے حس و بے شعور چیزوں
کی پرستش کرتے ہیں؟
بس اسی وقت ایک غیبی آواز سنائی دی کہ: ’ ’یہ ایمان و توحید کچھ تمہارا
ذاتی کمال نہیں بلکہ سب کچھ ہماری توفیق سے ہے، اور اگر تم چاہو تو ہم
تمہیں ابھی بتلا دیں!‘‘
شیخ اندلسی فرماتے ہیں کہ مجھے اسی وقت محسوس ہواکہ میرے قلب سے ایک پرندہ
سا نکل کر اڑ گیا، جو درحقیقت ایمان تھا! اس کے بعد شیخ کی سخت آزمائش کا
دور شروع ہو گیا۔اس میںکافی تفصیل ہے، ایک عیسائی لڑکی کی محبت ان کے دل
میںپیدا ہو گئی، جس کے غلبے نے انہیں اس عیسائی لڑکی کے باپ کے سور بھی
چروانے پر مجبور کر دیا !
یہ انتہائی عبرت انگیز واقعہ حضرت شبلی قدس سرہ نے بیان فرمایا۔ ان کے شیخ
اندلسی رحمہ اللہ اپنے زمانے کے بڑے عارف ، زاہد و عابد اور امام حدیث تھے
،مگر دوسروں کے لیے حقارت کے جذبہ اور اپنی بڑائی پر ان کو کیسی سخت تنبیہ
ہوئی۔
تو بہنو! یہ بات دل میں جمانے کی ہے کہ اگر ہم مسلمان اورصراط مستقیم پر
ہیں تو اس میں ہمارا کوئی ذاتی کمال نہیں، محض توفیق الٰہی ہے۔ اس پر اللہ
رب العزت کا بے حد شکر کرنا واجب ہے۔ حضرت والا مفتی رشید احمد رحمہ اللہ
فرمایا کرتے تھے کہ کم ازکم روزانہ سات بار اپنے مومن ہونے پراللہ رب العزت
کا شکر ادا کیا کرو … اس سے نہ صرف ’لئن شکرتم لا زیدنکم‘ کے تحت ایمان میں
اضافہ ہو گا بلکہ ان شاء اللہ ایمان پر خاتمہ بھی نصیب ہوگا۔
اس طرح پھر اپنی کسی خوبی پر نظر نہیں جائے گی اور نہ کسی دوسرے کی کمی اس
کی طرف حقارت سے دیکھنے دے گی… نفرت بیمار سے نہیں بیماری سے کرنی چاہیے،
سو نفرت گناہ گار سے نہیں، گناہ سے کیجیے … اس پر ترس کھائیے، اس کے لیے
دعا کیجیے اور ایسی محنت کیجیے کہ وہ گناہ کی دھوپ سے توبہ کے ٹھنڈے سائے
میں آ جائے! |