عرب لیگ ایک تجزیہ ایک تعارف

عرب ریاستوں کے اتحاد کی نمایٔندہ تنظیم "عرب لیگ" کے قیام کو آج انہتّر سال ہونے کو ہیں․عرب ممالک خاص کر مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں نے ترقی کے بہت سے زینے عرب لیگ کے بل بوتے پہ طے کیے ․ لیگ نے رکن ممالک کے ہمسایہ ملکوں جن میں سرفہرست ایشیائی ممالک ہیں کے ساتھ بالعموم اور کئی بین الاقوامی تنظیموں اور یونینز کے ساتھ بالخصوص کئی شعبوں میں تعاون اور تعلقات بڑھانے کے حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ․ افریقہ کے تیسری دنیا کے ممالک کو مختلف قسم کے بحرانوں سے نکالنے اور انہیں صنعت ، زراعت ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، ٹیلی کام سروسز اور مواصلاتی نظام میں خود کفیل کرنے میں لیگ نے مقدور بھر سعی کی ہے۔

عرب لیگ وسائل اور افرادی قوت میں یورپی یونین کے ہم پلہ ہے ،مگر کثرتِ وسائل کے باوجود عرب ممالک کے عوام کی اس سے وابستہ امیدوں پہ پورا نہ اترنے کی بنا پر مختلف حلقوں کی جانب سے اسکے کردار پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

طویل العمر ہونے کی وجہ سے لیگ پر کئی گرم سرد مراحل آئے ،حتی کہ اس کی بقا کے لیے اس کے کرتا دھرتاکو کئی ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑے ، نازک صورتِ حال تو اس وقت پیدا ہوئی تھی، جب تاسیسی اراکین میں سے مصر نے لیگ کی بنیادی پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر ملکی سلامتی اور قومی مفادات کی خاطر ۱۹۷۹؁ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہِ صلح کر لیا ، جس کے نتیجے میں اس کی رکنیت معطل کر دی گئی اور ہیڈ آفس قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا گیا ، تاآنکہ ۱۹۹۰؁ء میں یہ معاہدہ منسوخ ہوا،تو مصر کی رکنیت بحال کر دی گئی۔

یہ لیگ اگرچہ عرب ممبر ممالک پر مشتمل ہے، مگر اس کے قیام میں بنیادی کردار برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اینتھونی ایڈن کا ہے ․ یہ شخص ۱۲ جون ۱۸۹۷؁ء میں پیدا ہوا ․ ۱۹۲۳؁ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا ․ ۱۹۳۱؁ء میں نائب وزیر خارجہ بنا ، بہترین کاردگی کے نتیجے میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان سپرد کیا گیا ․ ایک لمبے عرصے تک خدمات سر انجام دینے کے بعدجیمبر لین کی پالیسیوں سے تنگ آکر وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہو گیا پھر ۱۹۵۱؁ء میں وزیر اعظم کے نائب کے لیے اس کا چناؤ ہوا ، جس کے ٹھیک چار سال بعد ۱۹۵۵؁ء میں "سر ونسٹن چرچل" کی جگہ برطانیہ کے وزارتِ عظمیٰ جیسے عہدے پر فائز ہو گیا ،لیکن ایک سال بعد ہی ۱۹۵۶؁ء میں مصر حملے میں عوامی مینڈیٹ کھو بیٹھا اور وزارتِ عظمیٰ سے معزول کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کساد بازاری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، جس کے بد اثرات استعمار ی قوتوں پر بھی ظاھر ہوئے ․ برطانیہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا تھا ،ایک طرف تو نو آبادیاں ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھیں ، دوسری طرف جنگ عظیم میں سرمائے کا معتد بہ حصہ دھونک چکا تھا ، اب معاشی خسارہ پورا کر نے اور برطانوی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں کی اسے تلاش تھی ، ایسے میں مذکورہ برطانوی وزیر خارجہ اینتھونی ایڈن نے ۲۹ مئی ۱۹۴۱؁ء میں پارلیمنٹ کے سامنے عرب ریاستوں کے اتحاد کا پلان پیش کیا، جسے دوسرے ممبران نے بھی سراہا ، پھر طویل بحث و تمحیص کے بعد ایڈن نے بعض عرب فرمانرواؤں سے ۲۴ فروری ۱۹۴۳؁ء میں اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے ملاقات کی اور پھر ٹھیک ایک سال بعد مصر کے وزیر اعظم مصطفی النحاس ، شام کے وزیر اعظم جمیل مردم بک ، اردن کے امیر عبداﷲ اور معروف عرب لیڈر بشارۃ الخوری کے درمیان ایک اہم میٹنگ قاہرہ میں ہوئی ، جس میں ان لیڈران نے عرب اتحاد کے ابتدائی اور بنیادی خدوخال متعین کیے ،مرکزی ڈھانچے کی تشکیل کے حوالے سے گفت و شنید کی اور اس کے بعد ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۴؁ء میں "اسکندریہ پروٹوکول" (Alexandria Protocol) کی منظوری نے عرب ریاستوں کے اتحاد کے لیے راہیں ہموار کر دیں ․ معاملے کی سنجیدگی اور اہمیت کو بھانپتے ہوئے ۳ جنوری اور ۵ فروری ۱۹۴۵؁ء کو بالترتیب سعودی عرب اور یمن بھی تاسیسی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے ․ مشرقِ وسطیٰ کے اپنی نوعیت کے پہلے اتحاد کی خطے میں بڑھتی مقبولیت کا اندازہ لگاتے ہوئے عرب سربراہان نے "اسکندریہ پروٹوکولز" کو آئینی اساس قرار دے کر ۲۲ مارچ ۱۹۴۵؁ء کو با ضابطہ طور پر اعلان کر دیا اورجامعۃ الدول العربیۃ (League of Arab States) نام تجویز کیا گیا ․ قیام کے اہم مقاصد میں سے خطے کی ریاستوں کے مختلف سیاسی ، جغرافیائی اور اقتصادی حوالے سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور ان کے لیے مناسب حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، صنعت، سائنس و ٹیکنالوجی ، مواصلاتی شعبوں میں ترقی اور علاقائی کلچر کا فروغ شامل ہیں․ انسانی حقوق کا تحفظ ، نفاذ اور عرب معاشرے میں ان کی اہمیت اجاگر کرنا بھی لیگ کے اہداف میں سے ہے․ اور اس کے علاوہ عرب اسرائیل تنازع کے منصفانہ حل کے لیے مختلف بین الاقوامی فورموں پر آواز اٹھانا ، ایران کی ہمسایہ ریاستوں سے جاری کشیدہ صورتحال اور اس کی غیر معتدل پالیسیوں کی مانیٹرنگ ، خطے میں جاری اسلحے کی دوڑ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے عملی اقدامات اور مضبوط و مستحکم بنیادوں پہ عرب اسلامی ممالک کا اتحاد بھی لیگ کے قیام کے بنیادی مقاصد ہیں۔

لیگ کے ماتحت بہت سی ذیلی تنظیمیں اور ضمنی ادارے اہداف کے حصول میں مگن ہیں․ جن میں سرفہرست "عرب لیگ فاؤنڈیشن برائے تعلیم ، ثقافت اور سائنس" (Foundation of The League of Arab States for Education, Cultare and Science) ، معاشی بہتری کے لیے "کونسل برائے متحدہ عرب اقتصادیات (The Council of Arab Ecnomic Unity) مصروفِ عمل ہیں․ جبکہ "عرب فاؤنڈیشن" ،"عرب اسلامک ریپبلک" ، "فیڈریشن آف عرب ریپبلک" اور "یونائیٹڈ عرب ریپبلک" ایسے اداروں کی خدمات کا دائرہ کار وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے ۔

لیگ کے تنظیمی سطح پہ تعلقات کا دائرہ کار یورپی یونین ، ایشیا ، افریقی اتحاد اور جنوبی امریکہ کو شامل ہے․دو طرفہ تعلقات میں چین ، پاکستان ، امریکہ ، فرانس،برطانیہ ،بھارت ،روس ، ترکی اور ایران شامل ہیں ․ لیگ کے اراکین کی تعداد ۲۲ ہے اور ان کے علاوہ ۴ ایسے ممالک ہیں کہ جنہیں بطور مبصر رکنیت جاری کی گئی ہے ،وہ حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتے، ان میں برازیل ، ایرٹریا(Eritrea) ، وینزویلا اور ۲۰۰۷؁ء میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود لیگ کا بین الاقوامی اثر و نفوذ اس کے حجم سے کہیں کم ہے ، اپنی طویل تاریخ میں لیگ عرب ریاستوں کو درپیش سنگین مسائل میں سے کسی ایک کو بھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ، چاہے وہ عرب اسرائیل تنازع ہو یا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایران کے تین جزائر کا جھگڑا ہو ،مسائل سارے کے سارے جوں کے توں ہیں․ یہاں تک کہ چند سالوں سے عرب اور بعض افریقی ممالک میں لاقانونیت کی بھڑکتی آگ اور شدت پسندی کے دھاڑتے عفریت کے بارے میں لیگ کی طرف مسلم دنیا پرامید نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر لیگ کا کردار رسمی اجلاسات و بیانات سے آگے نہ بڑھ سکا۔

عالم عرب کے علاقائی وسیاسی حالات پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا عرب لیگ کے حوالے سے کہنا ہے "کہ دراصل لیگ کی بنیاد خطے کے مسائل کے حل کرنے پہ نہیں رکھی گئی ہے بلکہ بیرونی مفادات کے تحفظ پر ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کا اثرورسوخ عرب ریاستوں میں بڑھتا جا رہا ہے ، ان کی مصنوعات سے عرب منڈیاں کشاں کشاں بھری پڑی ہیں جبکہ مسائل روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں ، مرکزی عہدوں پہ ایسی شخصیات کو لایا جاتا ہے جنکا مغربی رجحان زیادہ ہوتا ہے ۔

فعال اور قابلِ اعتماد عرب لیگ کے لیے ایک ایسی آئینی اساس کی ضرورت ہے جس کی وضع عالمِ اسلام کے مسائل ، وسائل اور احوال کو مد نظر رکھ کر کی جائے!!!

اور یہ کام ممبر عرب ریاستوں کی باہمی مشاورت اور ازسرِنو جائزے کے بغیر ممکن نہیں ہے ․ اﷲ سے دعا ہے کہ عالمِ عرب اور امتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پرو دے․ اٰمین۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877691 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More