اردگان کی فتح
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
ترکی الغائے خلافت کے بعد
سیکولرزم کا تجربہ کر کے پھر سے اسلام کی طرف آرہاہے،نقاب وحجاب
پرپابندیاں اٹھ رہی ہیں،عربی زبان وحروف کو اپنانے کیلئے اقدامات کئے جارہے
ہیں، اسلامی شعائراپنانے کی اجازت مل گئ ہے،مسجدیں،اور مدارس آباد ہورہے
ہیں، پاکستان اور عالم اسلام سے تعلقات بڑھائے جارہے ہیں، نجم الدین اربکان
کی رفاہ پارٹی پہلی سیاسی جماعت تھی،جس نے ترکی کو ازسرنو حلقہ بگوشِ اسلام
کرنے کی کوششیں کیں، رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمٹ پارٹی جو دراصل
رفاہ پارٹی کاتسلسل ہے،نےدھیرے دھیرے ترکوں کو اپنے عظیم اسلاف سے ملادیاہے،
اردگان کی قیادت میں ترکی ایک نیاجنم لے رہاہے، گزشتہ کچھ سالوں سے فکری
ونظریاتی سطح پر ہی نہیں،اقتصادی طورپر بھی ترکی دنیا میں اپنا ایک پروقار
مقام حاصل کرچکاہے،g 20کا رکن ہے،آج کل ترکی میں اس تنظیم کا اجلاس منعقد
ہورہاہے، جس کے لئے متعلقہ سربراہانِ ممالک یکے بعد دیگرے تشریف لارہے
ہیں،اس وقت ترکی کے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے، یونان اقتصادی میدان میں
دیوالیہ ہونے کاشکارہے، یورپی یونین ایک مرد بیمارہے، ایران اندر اور باہر
سے شدید خطرات کے زدمیں ہے، کوہ قاف کے آس پاس یوکرین اور بحر اسود میں
روسی یلغار مچی ہوئی ہے، شام میں خانہ جنگی ،روس، ایران ،عراق، اور مغربی
عسکری مداخلت نے خون کے سیلاب بہادئے ہیں،عراق میں داعش کا عفریت سر چڑھ
کرسامنے آیاہواہے، ترکی ان تمام تر صورت حال میں ایک چٹان کی طرح آج اپنی
جگہ قائم ودائم ہے، اور ترقی کے منازل طے کر رہاہے، یہ سب قیادت کاکمال ہے،
قائد میں زیرکی اور اخلاص کے اوصاف نے خود قائد اردگان اور اس کے ملک کو
ہرطرح کی مشکلات سے نبرد آزمائی کاحوصلہ دیاہواہے،بڑےبڑے چیلنجز کا مقابلہ
ہے،مگر حالیہ انتخابات میں کامیابی نے یہ بتادیا کہ اردگان ترکی کے پاس ہو
اور ترکی اردگان کے پاس، تو پھر تمام تر مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کیا
جاسکتاہے، پوری دنیا کی تجزیہ ٹیمیں اپنے تبصروں میں عدل پارٹی کو اس بار
کمزور دکھا رہی تھیں، پر نتائج نے ثابت کر دیا کہ عدالت پارٹی نہایت مضبوط
اور اردگان مردآہن ہے، اردگان اور ترکی کویہ فتح مبارک ہو، نہ صرف امہ اور
عالم اسلام بلکہ چہاردانگ عالم کو ترکی کایہ استحکام خوش آمدید۔
البتہ اردگان کی شخصیت کے دوپہلوہیں، ایک اقتصادی ، دوسرا اخوانی، اقتصادی
میدانوں میں اس نے ترکی کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف اول میں لا
کھڑاکیاہے،اس وقت شرق وغرب میں ترکی اٹھارواں اقتصادی بڑاملک ہے،ایک وقت وہ
تھا،جب ترکی یورپی یونین کو درخواستوں پے درخواستیں دیتاتھا کہ ہمیں اپنے
اتحاد میں شامل کیاجائے، اور یورپ نخروں پر نخرے کیا کرتاتھا، کبھی اقتصادی
کمزوری کا اعتراض، کبھی انسانی حقوق اور کبھی حقوق نسواں واطفال کا مسئلہ ۔آج
وہی یورپ ترکی کو قائل کرنے کی کو ششیں کر رہاہے،کہ آئیں اور اتحاد میں
شمولیت اختیار کریں،اردگان نے ترک قوم ،ملک اور فوج کا سر فخرسے بلند
کردیاہے،حقیقت یہ ہے کہ انصاف اور ترقی کی راہوں میں طیب اردگان ایک کامیاب
اور مثالی لیڈربن کرابھراہے ،اس نے کمال اتاترک کے بعد اپنی قوم اور پوری
دنیا میں عظیم مرتبہ حاصل کرلیاہے، وہ ترقی پذیر ملکوں کو ترقی یافتہ ممالک
میں بدلنے کیلئے ایک ماڈل اور ہیروہیں،انہوں نے اور مہاتیر محمد نے جمہوری
جدوجہد کے ذریعے ترکی اور ملائشیا میں انقلاب برپا کئے ہیں، بد قسمتی سے
ہمارے یہاں کچھ لیڈر بطور خاص عمران خان مہاتیر محمد کا بے تکان تذکرہ کیا
کرتے تھے،اور شریف برادران طیب اردگان کا، مگر انہوں نے پاکستان میں وہ کچھ
نہیں کیا یا نہ کر سکے، جو ان دونوں عظیم لیڈروں نے اپنے ملکوں میں انقلابی
اقدامات کر کے ملک وقوم کو باعث افتخار بنادیا۔ نوازشریف نے لبرلزم تک کی
بات کی،جبکہ دنیا مذہب کی طرف آرہی ہے، ترکی اس کی ایک مثال ہے،یہ تر قیاں
ان برادر ملکوں، ان کی عوام اور رہنماؤں کیلئے سببِ تبریک ہیں، ہاں ایک
نکتہ ہے جورجب طیب اردگان کے رول ماڈل بننے میں حائل نظر آتاہے،وہ ان کا
اخوان اور مرسی کی طرف میلان ہے، مصری حکومت ،فوج اور عوام ان کے اس میلان
سے نالاں ہیں، وہ کہتے ہیں،کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے ،اس میں آپ کا
دخل در معقولات صحیح نہیں ہے،ہمارے یہاں وادی سینا اور طور سینا میں داعش
ہے، اندر اخوان کامضبوط نیٹ ورک ہے،ان کی اخلاقی تائید بھی مصر کو انتشارکا
شکار کر سکتی ہے، لیکن وہ بضد ہے کہ مرسی ہی حقیقی صدر اور مصرکا منتخب
نمائندہ ہے،ضد سے ہٹ کر کسی ڈیل کے ذریعے اردگان اپنے دوست مرسی کو بچابھی
سکتا ہے، زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے قطر کی طرح ترکی کو بھی کوئی
درمیانی راہ اختیار کرنی چاہئے ، تاکہ مصر خانہ جنگی سے بچ سکے اور ترقی کی
راہوں پر گامزن ہو، اخوان ایک دعوتی وتبلیغی تحریک ہے،وہ اپنابنیادی مشن
اور رفاہی ماٹو کو اجاگر کرکے میدان میں کام کریں، وقت کا انتظار کریں ،
اگر کل کلاں قوم نے انہیں چاہا،تو وہ دوبارہ بھی برسر اقتدارآسکتی ہے،
مرسی اب ماضی کا حصہ ہے،بقول ہمارے چوھدری شجاعت ‘‘مٹی پاؤ’’۔ |
|