یہ ہے زمانہ کوئی برا نہ منانا

 آج کے اس زمانہ میں جب کوئی دین اسلام کا نہیں ۔نماز ۔روزہ ۔حج ۔زکوۃ سب کچھ بھول چکے ہیں ۔آج جب مسجدوں میں آذان ہو رہی ہوتی ہے ۔توہم اس اذان کا احترام نہیں کرتے ۔کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہے ۔تو کوئی گانے بجانے کی محفل سجا کر خود کو بہت بڑا تیس مار خان سمجھے بیٹھا ہے۔موت تو آج کے مسلمانو ں کو بھول چکی ہے۔ان کو نہیں معلوم کہ ایک دن مرنا بھی ہے ۔تو اس وقت جا کر اپنے پیارے رب کو کیا منہ دکھانا ہے۔کئی ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کو نماز نہیں آتی ۔نماز جنازہ نہیں آتا۔آج ہم کو اپنے بچوں کی سکول کی تعلیم تو یاد ہے۔ مگر یہ بھول گئے ہیں۔کہ یہ بس دنیاوی ہے سب کچھ اصل تو اس وقت اس تعلیم نے ہی کام آنا ہے۔جو راہ نجات کا ذریعہ ہے۔لیکن افسوس آج اگر کسی گھر میں چار بھائی ہیں ۔تو ان کے ماں باپ کے الفاظ ہوتے ہے کہ میرا بڑا بیٹا انجینئر بنے گا۔دوسرا ڈاکٹر۔تیسرے کو پایئلٹ بنائیں گئے۔اور خاموش ہوگئے۔تو جس سے بات کررہے تھے ۔اس نے کہا کہ آپ نے اپنے چوتھے بیٹے کا نام کیوں نہیں لیا۔تو وہ بولا کہ اس کا نام لینے سے کیا فائدہ وہ تو انتہائی نالائق ہے ۔جب دیکھیں اس کو پڑھائی میں کم نمبر ملتے ہے۔ساتھ ہی بڑے عجیب اندذ میں بولا ہم اس کو مولوی بنا دیں گے۔مسجدجائے گا ۔مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرئے گا۔اور پھر بعد میں اس کو مسجد کا مولوی بنا دیں گے۔مسجد میں جماعت کروائے گا۔تو خدا نے اس کی اسی وقت سن لی ۔اس کا ایک بیٹا ڈاکٹر۔دوسراانجینئر۔تیسرا پائلٹ بن گئے۔جتنا ماں باپ نے ان کی تعلیم وتربیت پر پیسہ لگایا۔ان کو ٹائم دیا۔اب ان کے پاس اپنے ماں باپ کو دینے کیلئے نہ ٹائم ہے ۔اور نہ ہی اخراجات اور وہ جس بیٹے کو ناکارہ کہتے تھے ۔وہی اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے لگا۔وہ قرآن پاک کا حافظ بن گیا تھا ۔اور بعد میں نمازیوں کو نماز پڑہاتا تھا۔اب وہی اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے لگا ۔یہ بات دوسرے بھائیوں کو بری لگی۔کہ یہ غریب والدین کی کیا خدمت کرئے گا ۔یہ تو خودایک غیریب انسان ہے۔وہ جب اپنے والدین کو اس کے پاس سے لینے آگئے۔توبولے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے تو ماں باپ نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔اور کہا کہ پہلے ہم سے بہت بڑی غلطی ہوچکی ہے ۔اب ہم اس کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔آپ لوگ جاؤ آج تم کو یاد کیسے آگئی۔تو ان میں سے ایک بولا کہ لوگ ہم کوباتیں کر رہے ہے۔ان کا باپ بولا کہ تم کو لوگوں کی باتوں کا ڈر ہے ۔لیکن اس کو اپنے رب کا ڈر ہے اب ہمارے پاس آپ لوگوں کودینے کو کچھ نہیں آپ جاؤں یہاں سے۔جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ آپ لوگوں کے پڑہنے لکھنے پر لگا دیا ۔جو بچا تھا وہ آپ لوگوں نے میرے سے ویسے ہی لے لیا۔ہم نے تو تم لوگوں کی شادیاں بھی کروائی دی ۔اب ہمارے پاس تم کو دینے کو کچھ نہیں تم لوگ تو اپنے بھائی کا بھی حق کھا چکے ہوں ۔اب اس سے ماں باپ کا پیارے بھی لینا چاہتے ہو۔آج اس خود غرض دینا میں کوئی کسی کا نہیں ۔ایسے لوگ ہے کہ جب مطلب ہوتا ہے ۔اس وقت رشتے دار دوست یاد آجاتے ہے ۔اور جب کام نکل جائے ۔پھر توکون میں کون۔

آج کے اس دور میں لوگ بڑے فخر سے کہتے ہے۔کہ میرا بیٹے نے ایم اے۔بی اے۔کرلیا ہے اگر اس سے پوچھا جائے ۔کہ دین اسلام کی تعلیم بھی دی اپنے بیٹے کو کہ نہیں ۔توکچھ ایسے لوگ ہوں گئے جن کا سرشرم سے جھک جاتا ہوگا۔ایسے لوگوں سے پوچھا جائے ۔تو اگر کل مرجائے گا ۔تو اس وقت تیرا بیٹا تیرا نماز جنازے میں کیا پڑھے گا۔جب اس کو نمازے جنازہ آتی ہی نہیں تو اس نے کیا پڑھنی ہے۔اس کو دین اسلام کے بارے پتہ ہی نہیں ۔جس کو نماز عید۔نماز جمعہ کا پتہ نہیں تو اس کے اس علم کا کیا فائدہ۔اس کو تو اپنے پڑوسی کے حققوق کے بارے نہیں پتہ ہوگا؛کہ پڑوسی کے کیا حققوق ہے۔رشتے داروں کے حقوق کا اس کو علم نہیں ہوگا ۔کہ اپنے ہی غریب رشتے دار کے ساتھ کیسا سلوک رکھا جاتا ہے۔اگر کوئی آپ کو امانت دے جائے اس کی امانت میں خیانت نہیں کرنی۔ایسے نہیں جیسے آج کے لوگ غاسب بن کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا حق کھا رہے ہے۔سرکاری دفتروں میں ہی دیکھ لیں۔سب تو ایک جیسے نہیں پر اکثریت ایسے لوگ ہے ۔جواپنے ہی بھائیوں کو لوٹ رہے ہیں ۔اب جیسا کہ ٹی ایم جھنگ۔لوکل گورنمنٹ اور پبلک ہیلتھ کے کام چل رہے ہے ۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا کام کس محکمہ کا ہے ۔احکام بالا اگر اپنی خصوصی ٹیموں کو جھنگ بھیجے تو ان کو بھی پتہ چلے کہ کام کیسا کروارہے یہ کروڑوں روپے کے کام ٹی ایم اے نے کروائے۔اور ابھی کروا رہا ہے۔یہی حالت پبلک ہیلتھ اور لوکل گورنمنٹ کی ہے ۔مگر شہر میں جس طرف بھی دیکھوں گردوغبار مٹی اڑتی نظر آئے گئی۔ضلع جھنگ نے کیا ترقی کرنی ہے تحصیل جھنگ کو ہی دیکھ لے جس کے آج تک کسی چوک میں کوئی ٹریفک اشارے تک نہیں لگائے گئے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے۔کہ لاری اڈا جھنگ کے ٹھیکہ 2001/2002میں 55لاکھ اور ٹھیکیدار نے جو ملازمین کو تنخواہیں دی وہ9لاکھ55ہزارتھی۔2002/2003میں جوٹینڈر ہوا 71لاکھ روپے اور اس ٹھیکیدار نے جو ملازمین کو تنخواہیں دی وہ18لاکھ 42ہزار۔جو ٹینڈر 2003/2004میں ہوئے۔تقریبا98لاکھ روپے اورملازمین کو تنخواہیں دی ۔20لاکھ 71ہزار روپے ۔جو ٹینڈر 2004/2005کو ہوئے ۔90لاکھ اور ملازمین کی تنخواہیں دی 25لاکھ 19ہزار ۔2005/2006کو جو ٹینڈر ہوئے ۔97 لاکھ۔ ملازمین کی تنخواہیں دی۔25لاکھ 57ہزا۔ جو ٹینڈر 2006/2007۱یک کروڑ 15 لاکھ 50ہزارروپے۔ملازمین کو تنخواہیں دی ۔35لاکھ 45ہزار۔2007/2008میں جو ٹینڈر ہوئے 46 لاکھ 30ہزار ۔یہ ٹھیکہ چھ ماہ چلا۔اس میں ملازمین کو تنخواں 39 لاکھ ۔2008/2009میں لاری اڈا کی وصولی ٹی ایم اے نے شروع کی جس کی آمد 9لاکھ۔2009/2010 میں وصولی 9لاکھ 20ہزار۔2010/2011میں 10لاکھ 87ہزار۔2011/2012میں 7لاکھ 43ہزار۔2012.2013میں 9لاکھ 57ہزار۔2013.2014میں 2لاکھ 21ہزار دو سو۔2014.2015۔میں 2لاکھ 25ہزار۔کیا یہ افسران کی نا اہلی نہیں کہ کروڑ کا جو ٹھیکہ ہوتا تھا۔ آج اس کی آمد دو لاکھ 25ہزار کیوں رہ گئی ہے۔اور ملازمین کو تنخواہیں بھی ٹی ایم اے دے رہا ہے۔اس کی طرف کیوں کوئی افسر توجہ نہیں دے رہے۔اس کے ذمہ دار کون سے افسران ہیں ۔جھنگ انتظامیہ نے کیوں اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ کوئی تو نیک اور فرض شناش افسر ہوگا ۔جو جھنگ کا لاری اڈا آباد کروائے گا۔اور ہر چوک میں ٹریفک اشارے لگوائے گا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Shafqat Sial
About the Author: Shafqat Sial Read More Articles by Shafqat Sial: 34 Articles with 30854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.