کتاب میلہ ۔کتاب کلچر کا فروغ وقت کی ضروری

ایکسپو کراچی میں منعقدہ کتابوں کی نمئش ٢٠١٥ئ کا +غاز، +نکھوں دیکھا حال۔
کراچی ایکسپو سینٹر میں گیارواں کتاب میلہ 12نومبر کو سج گیا پروگرام کے مطابق یہ 16نومبر تک جاری رہے گا۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ایسو سی ایشن قابل مبارک بادہے کہ وہ ایسے حالات میں جب کہ لوگ کتاب کی جانب مائل نہیں، پڑھنے کا رجحان ختم ہوچکا، لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے آجانے کے بعد کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اب اگر کسی کو کچھ پڑھنے یا لکھنے کی ضرورت ہو تو انٹر نیٹ اس کی یہ علمی ضرورت آسانی سے پوری کر دے گا۔ ایسا ہر گز نہیں کتاب کی اہمیت اور ضرورت انٹرنیٹ کی آمد سے کم ہر گز کم نہیں ہوئی کتاب آج بھی اسی طرح تمام ذرائع حصول علم میں سر فہرست ہے۔ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گذراجو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر کتاب سے آزاد ہوجائے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ شیخ سعدی کا قول ہے کہ ’اچھی کتابوں کا مطالعہ دل کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے‘،البیرونی نے کہا ’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروں کا کام دیتی ہیں‘، یہ معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل ہیں،حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔ کتابیں بولتی ہیں ،یہ ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے تمام ادوار یعنی ماضی،حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔کتاب کا حصول اس قدر آسان ہے کہ کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کتاب ہمیں اسلاف اور ان لوگوں کے حالات بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کتاب جیسا ساتھ کسی کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنے پر تیار ہو جائے اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی رہے، آپ کی خواہش ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔ جب تک آپ چاہیں خاموش رہے اور جب آپ کا جی اس سے بولنے کو چاہے تو چہکنے لگے۔آپ کسی کام میں مصروف ہوں وہ خلل انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ اسے شفیق ساتھی محسوس کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے۔شاعر خیال آفاقی کے بقول ؂
نئے ذریعۂ بلاغ خوب ہیں لیکن
کتاب میں جو مزاہ ہے ، کتاب ہی میں رہا

کراچی میں کتاب میلے کا افتتاح قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کرتے ہوئے کہا کہ کتب میلے کا انعقاد خوش آئند ہے ایسے کتب میلے اندرون سندھ کے شہروں میں بھی ہونا چاہیں۔اس سے لوگوں کو فائدہ ہوگا اور لوگوں میں شعور اجاگر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تعلیم کو نظر انداز کردیا ہے جس کی وجہ سے ہم یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ ہم پڑھی لکھی قوم ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلیمی بجٹ کم ہے ۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ہم نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا یا کہ ہمارے ہاں 62فیصد شرح خواندگی ہے۔ دنیا اس کو تسلیم نہیں کرتی۔وہ از خود وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں اپنے دور کی تعریفیں اور اپنے دور میں کیے گئے اقدامات کی فہرست پیش کی۔ سچ تو یہ ہے کہ بے وقوف تو ہمارے سیاست دان اور حکمراں آج تک پوری قوم کو بناتے چلے آرہے ہیں۔ حزب اختلاف میں ہوں تو لمحہ موجود کے حکمرانوں میں کیڑے نظر آتے ہیں ، اپنا دور حکمرانی بھول جاتے ہیں، تعلیمی بجٹ کم ہے ، آج نظر آرہا ہے، جب خود حکومت میں تھے تب تعلیم کا خیال نہیں آیا۔ خیر یہ باتیں ایک الگ موضوع کا تقاضہ کرتی ہیں۔ کراچی کے بہتر حالت میں تقریب قابل تعریف تھی۔ ترکی کے کونصل جنرل مورات ایم انارت بھی تقریب کا حصہ تھے انہوں نے بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے بتا یا کہ انہوں نے ترکی زبان میں لکھی گئی 42کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ تقریب سے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ز ایسو سی ایشن کے چیرٔ مین عزیز خالد ، کتب میلے کے کنوینر اویس جمیل مرزا،قاضی اسد عابد اور آغا مسعود حسین نے بھی خطاب کیا۔ کتاب میلے میں کراچی کے عوام پہلے ہی دن میلے میں جوق در جوق پہنچے۔ اس بار کتاب میلہ زیادہ سلیقے اور سجاوٹ کے ساتھ سجایا گیا ہے۔ اسے کتابوں کی تاریخ کا سب سے بڑا میلہ کہا جارہا ہے۔ پہلے ہی روز ریکارڈ خریداری ہوئی۔ ایکسپو سینٹر کراچی کے تین وسیع ہالوں میں رنگا رنگ، چمکتے دھمکے اسٹال لوگوں کی توجہ اپنے جانب متوجہ کررہے ہیں۔

میلے کی ایک اچھی بات کتابوں پر پچیس سے پچاس فیصد ریاعت دینا ہے ۔ کتابیں خریدی جارہی ہیں، دھڑا دھڑ لوگ کتابیں خریدرہے ہیں،حکیم محمد سعید جن کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم سب سے کم وقت اور سب سے کم دولت جس چیز پر خرچ کرتے ہیں ، وہ کتاب ہے‘اگر وہ زندہ ہوتے تو کتابوں کی خریداری کو دیکھ کر ان کا دل یقینا باغ باغ ہوجاتا۔ گھر کے پورے پورے افراد چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ میلے کا رخ کرتے نظر آرہے ہیں۔ کل رات ہم بھی گئے اس میلے سے کچھ حاصل کرنے۔ ہمارے ہمراہ بیگم، بیٹا، بہو اور پوتا ارسل نبیل بھی تھا گو یا کراچی میں موجود میری کل کائینات میرے ہمراہ تھی۔ کتاب میلے میں جانا میری فیملی کا معمول ہے۔ جوں ہی میلے کا چرچہ اخبارات میں شروع ہوتا ہے میری بہو ڈاکٹر ثمرہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ کتاب میلے میں جانا ہے۔ میلے میں جاکر خوش گوار احساس ہوا، اچھا لگا، ہم سال بھر جس قسم کی تقاریب اور محفلوں میں جاتے ہیں یہ تقریب ان تمام سے مختلف اور پر لطف تھی۔ تمام ہی اسٹالوں پر گئے، اچھی اچھی کتابیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ سب ہی کتابیں خرید لائیں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ بیگم نے اسلامی کتب کے اسٹالوں پر زیادہ وقت گزارا اور متعدد اسلامی موضوعات کی کتابیں خریدیں ۔ ہماری بہو ڈاکٹر ثمرا نے اپنے بیٹے کے ہمراہ بچوں کی کتابوں کے اسٹالوں سے ارسل صاحب کے لیے بچوں کی کتابیں خریدیں، بیٹے صاحب ڈاکٹر نبیل تمام اسٹالوں کو دیکھ کر ہی اپنا جی خوش کرتے رہے۔ ہم فیض ؔ کی شاعری کے مجموعوں نقش ِ فریادی، دستِ صبا، زندہ نامہ ، دست ِ تہہ سنگ، سروادیٔ سینا ، شام شہریاروں، مرے دل مرے مسافر اور غبار ایام شامل ہیں، ان مجموعوں پر مشتمل کلیات فیض بعنوان’’نسخہ ہائے وفا‘‘ وہ بھی پاکٹ سائز لینے کی خواہش میں تھے۔کئی اسٹالوں پر معلوم کیا بڑے سائز میں تو تھا لیکن پاکٹ سائز صرف ایک اسٹال پر تھا لیکن وہ ختم ہوچکے تھا۔ پاکٹ سائز لینے کا فلسفہ اب یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی لائبریری جو کئی ہزار کتابوں پر مشتمل تھی گزشتہ برس وفاقی اردو یونیورسٹی کے کتب خانے’ مولوی ڈاکٹر عبد الحق میموریل لائبریری ‘ کو عطیہ کرچکے۔ اب اپنے ذاتی ذخیرے میں صرف وہ کتابیں رکھتے ہیں جو ہماراے زیرِ مطالعہ رہتی ہیں یا جن موضوعات پر ہم لکھتے لکھاتے رہتے ہیں۔ہمارے ذخیرہ میں اقبالؔ،غالبؔ،ناصرؔ،راشدؔ کے پاکٹ سائز مجموعے موجود ہیں، یہ جگہ بھی کم گھیرتے ہیں، مطالعہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے اور کم خرچ بالا نشیں بھی۔ دوکتابیں ہم نے خریدیں ،وہ ہمیں پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر ملیں ایک ’رضاء الحق صدیقی کی ’کتابیں بولتی ہیں‘،اس میں اردو کی چند نثر ی اور شعری مجموعوں پر جامع تبصرہ ہے۔اس میں بعض بہت اچھی کتابیں ہیں جن پر جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب ڈاکٹر محمد عمر رضا کی ’اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت‘ ہے، ڈاکٹرعمر کا تعلق جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی سے لکھا ہوا ہے، کتاب انڈین مصنف کی ہے لیکن یہ کتاب پاکستان کے پبلشر نے شائع کی ہے۔ ہندوستان میں اردو پر بہت زیادہ کام ہوا ہے ۔ انڈین کتاب کے اس طرح چھاپنے کے قانونی پہلو کیا ہیں ، اس میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ، گٹھلیوں سے کیا لینا دینا، انڈین بک پاکستانی ادیبوں کے لیے اور پاکستانی ادب انڈین ادیبوں کے لیے قیمتی، دلچسپ اور غنیمت ہوتا ہے۔ اول تو اس کا ملنا ہی مشکل ہوتا ہے اگر مل جائے تو غنیمت۔ اپنے موضوع پر اچھی اور معلوماتی کتاب ہے۔ شخصیات ہمارا سب سے پسندیدہ موضوع رہا ہے اور اب تک جو کچھ لکھا اور چھاپاہے اس میں شخصیات زیادہ ہیں۔ ایک کتاب لاہور سے الفیصل نے ’یادوں کی مالا‘ اور دوسری کراچی سے ’فضلی سنز نے’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘ شائع کی۔ ان دونوں میں متعدد شخصیات کے خاکے اور سوانحی مضامین ہیں۔ ان کتب کی اشاعت کے بعد اتنی شخصیات پر لکھا جاچکا ہے کہ تیسری کتاب آسانی سے چھپ جائے گی۔ کالم نگاری تو بعد کی پیداوار ہے جس نے اب تمام اصناف کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بات کراچی میں ایکسپو میں لگی کتابوں کی نمائش کی شروع کی تھی، ذات بیچ میں آگئی۔ کالم نگار کی یہ بھی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ جسے پڑھنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کر لیتے ہیں۔میلہ رات نو بجے تک سجا رہتا ہے۔ ابھی دو دن باقی ہیں۔ لوگوں کی دلچسپی اور ذوق و شوق اور کتابوں کی خریدی کے پیش نظر امکانات اس بات کے ہیں کہ انتظامیہ اس میں ایک دن کا اضافہ کردے گی۔ اس لیے کہ اہل کراچی کو اس قسم کی معلوماتی تفریح ایک سال بعد میسر آئے گی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437281 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More