کہتے ہیں کہ جب نمرود نے
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو زندہ جلانے کے لیے ایک نہایت ہیبت ناک آگ کا
آلاؤ روشن کیا تو چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ننھا سا ابابیل اپنی چونچ میں دو
تین قطرے پانی کے لئے بڑے اضطراب کے عالم میں اس ہیبت نا ک آگ کی طرف اڑا
جارہا ہے ۔ کسی نے پو چھا میاں اتنی بیتابی کے ساتھ کہاں کا ارادہ ہے ؟بولا
: ’’ نمرود کی آگ بجھا نے جا رہا ہوں ‘‘۔ کہا : اے نا سمجھ پرندے کیا پانی
کے یہ چند قطرے جو تمہاری چونچ میں ہیں، نمرود کی آگ سرد کر دیں گے ؟ ننھا
ابابیل بولا : مجھے معلوم ہے کہ میری یہ کمزور اورناتواں سی کوشش اس سلسلے
میں کچھ بھی کام نہ دے گی لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب نمرود کی آگ
بجھانے والو ں کی فہر ست بنائی جائے گی تو اِس میں میرا نام بھی ضرور شامِل
کیا جائے گا ۔ اس لیے ہر انسان کو اچھے کام کی کوشش کرتے رہنا چاہیے بے شک
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور جو انسان اچھا کام کررہا ہواسکی تعریف
بھی کرنی چاہیے تاکہ اسکے اندر مزید اچھا کام کرنے کی ہمت پیدا ہو مگر ہمار
المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرلی ہے اپنوں کے ساتھ
ہمارا رویہ بہت اچھا ہوجاتا ہے جبکہ غیروں کے لیے ہم منافقت اور دشمنوں
والا رویہ اختیار کرلیتے ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ جہاں ہمیں مطلب ہوتا ہے
اسے ہم اپنے سر ماتھے پر بٹھا لیتے ہیں اور جہاں مطلب نہیں ہوتا اسے ہم
جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ہم نے اپنے اندر یہ جو تفریق پیدا کرلی ہے یہی سب
سے بڑی ہماری ناکامی کا سبب ہے اگر کوئی صاحب اختیار یا پیسے والا یہ
سمجھتا ہے کہ اب اسکے پاس اتنا کچھ ہے کہ اسے کسی اور کی کوئی ضرورت نہیں
ہے تو یہ اسکی بھول اور نادانی ہے کیونکہ انسان اس وقت تک کامیاب نہیں
ہوسکتا جب تک وہ مخلوق خدا سے دل سے پیار کرنا شروع نہ کردے مگر ہم نے اپنی
اپنی چاہتوں ،محبتوں اورنفرتوں کے الگ الگ پیمانے بنا رکھے ہیں اپنی ضرورت
اور مطلب کی خاطر جس سے کام لینا ہوتا ہے اسکو اسی خانے میں فٹ کر دیتے ہیں
اور جب کام نکل جاتا ہے تو پھر وہی پرانی روش ہوتی ہے اور ہم ہوتے ہیں عہدے
اور پیسے کی چمک عارضی ہوتی ہے یہ کسی بھی وقت مغرور انسان سے چھن سکتی ہے
جبکہ اعلی ظرف لوگ کبھی بھی کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کرتے اعلی ظرفی کا
مظاہر اگر کسی نے دیکھنا ہو تووفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بطور
سیکریٹری کام کرنے والے ثاقب علیم ،طاہر رضا نقوی ،جوائنٹ سیکریٹری
عبدالقیوم کو دیکھ لیں جنہوں نے اپنے خلاف تنقید کو بھی اصلاح کے طور پرلیا
یہی وجہ ہے کہ ان سے ایک بار ملنے والا دوبارہ ان سے ملنے کا خواہش مند
رہتا ہے اگر لاہور میں بھاگ بھاگ کرعوام کی خدمت کرنے میں مصروف کسی سرکاری
ملازم کو دیکھنا ہو تو وہ ڈاکٹر سہیل ثقلین ،پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے
محمد اکبر، عاصم سلیم اوقاف میں بیٹھے ہوئے افسران کو دیکھ لیں جبکہ ہمارے
ہاں اکثریت ایسے افسران کی ہے جو عہدہ ملتے ہی اپنا آپ ظاہر کرنا شروع
کردیتے ہیں اگر کسی کا کوئی جائز کام انکے پاس آجائے تو وہ اس کام کو ایسے
کرتے ہیں جیسے بکری کے دودھ دینے کی مثال ہے جبکہ اپنے سے اوپر بیٹھے ہوئے
افراد کے آگے منہ کے بل لیٹ جاتے ہیں پھر وہاں انہیں کوئی کام بھی غیر
قانونی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا پنجاب کے محکمہ ڈی جی پی آر میں بیٹھے ہوئے
ڈپٹی ڈائریکٹر علی طاہر کے خلاف لکھا تو اس نے روزنامہ پاکستان اسلام آباد
کے اشتہار بند کردیے اور انہیں میرا کالم بند کرنے کی شرط پر دوبارہ اشتہار
جاری کرنے کا حکم نامہ سنادیا اور مجبورا اشتہارات کی خاطر انہوں نے میرا
کالم چھاپنا بند کردیا مگر میں نے اپنی قلم کی نوک کی سیاہی کو ابابیل کی
چونچ میں ان پانی کی قطروں کی طرح کرپٹ اور چوروں کے خلاف استعمال کرنے سے
روکا نہیں مجھے معلوم ہے کہ یہاں کرپشن ،چور بازاری اور لوٹ مار کا بھانبھڑ
ہے جو میرے لکھنے سے رک نہیں جائے گا مگر تاریخ میں یہ تو لکھا جائے گا کہ
جب فرعون بنے افسران کے سامنے سب بے بس تھے کوئی بولنے والا نہیں تھا اس
وقت کوئی تو دکھی عوام کے ساتھ کھڑا تھا اور اس وقت اگر کوئی مظلوم کے ساتھ
ہے تو وہ میڈیا کے لوگ ہیں جو ہر مشکل وقت میں عوام اور افسران کے ساتھ بھی
ہوتے ہیں اور خوشحالی کے دور میں انہی کی باتیں بھی سنتے ہیں مجھے اچھی طرح
یاد ہے کہ مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت میں جب جیلوں کے وزیر چوہدری
عبدالغفور میو تھے تو اس وقت محکمہ جیل خانہ جات میں آئی جی کی سیٹ کے لیے
فیصلہ ہونا تھا اس دور میں بھی حکومت ہر وقت میرٹ کے مطابق فیصلوں کا اعلان
کرتی تھی مگر ہوتا اسکے برعکس تھا مو جودہ آئی جی فاروق نذیر چونکہ سب سے
سینئر تھے اسلیے انہیں ڈر تھا کہ انکی جگہ کسی اور کو نہ لگایا جائے پنجاب
اسمبلی کے کمیٹی روم میں میٹنگ تھی جس میں چوہدری غفور سمیت میاں فاروق
نذیر اور بہت سے افسران بھی موجود تھے تو میں نے وزیر جیل خانہ جات سے
پوچھا کہ وزیر اعلی پنجاب میرٹ کا بہت اعلان کرتے ہیں کیا آپ آئی جی بھی
میرٹ پر لگائیں گے یا کسی سفارشی کو آگے لائیں گے جس پر چوہدری غفور یہ
کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پنجاب حکومت میرٹ پر آئی جی کی تعیناتی کریگی اور
چند روز بعد میاں فاروق نذیر کے بطور آئی جی جیل خانہ جات کے آرڈر ہوگئے
مگر کچھ عرصہ بعد ہی انکے ایک جونیئر کو کب وڑائچ کو آئی جی جیل خانہ جات
تعینات کرکے میاں فاروق نذیر کو ڈی آئی جی ملتان بنا ددیا گیا جس پر میاں
فاروق نذیر نے چھٹیا ں لیکراپنی پوسٹنگ کے حوالہ سے سفارشیں ڈھونڈنا شروع
کردی بلا آخر چھٹیا ں بھی ختم ہوگئی اور کام بھی نہ بنا کہ ایک دن اچانک
میری ان سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ میں کوکب
ندیم وڑائچ کے نیچے بطور ڈی آئی جی کام نہیں کرسکتا اور اب مزید چھٹیاں بھی
نہیں مل سکتی جس پر میں انہیں لیکر اپنے ایک نہایت ہی مہربان اور شفیق دوست
کے پاس گیا تو انہوں نے انکی مشکل آسان کردی جسکے بعد میاں فاروق نذیر
سیکریٹریٹ میں تعینات ہوگئے مگر جب یہ دوبارہ آئی جی بنے تو میں ایک جیل کے
وارڈر کے تبادلے کے لیے گیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں صحافی پیسے لیکر
تبادلے کرواتے ہیں اور ٹال مٹول سے کام لیکر غریب وارڈر کا تبادلہ نہ
کیاجبکہ صرف ایک فون اوراوپر سے آنے والی ایک لسٹ پرجیل میں بھرتی ہونے
والی میرٹ لسٹ کو تہس نہس کرنے والے اس وقت کے مجبور فاروق نذیر سے انکی
ٹرانسفر کے لیے میں نے تو کوئی پیسہ نہیں لیااگر کوئی ہمیں اس قابل سمجھتا
ہے کہ ہم انکی آواز بلند کرسکتے ہیں توپھر یہ صحافیوں پر ا لزام کیسا میاں
صاحب ؟ |