آج ارادہ تو تھا حاکم اعلیٰ جو
خود ساختہ خادم اعلیٰ بھی ہیں کی چکوال آمد اور ان کی دریا دلی و سخاوت پر
کچھ عرض کرنے کاکہ جناب جب دان کرنے پہ آتے ہیں تو یقینناًعظیم المرتبت
شہنشاہوں اور مغلیہ حکمرانوں کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہوں گی
کہ ہم بھی کیا حکمران تھے اور کیا ہماری سخاوت تھی کسی سے خوش ہوئے تو سو
دو سو اشرفیاں یا زیادہ سے ذیادہ ہزار دو ہزار درہم و دینارعنایت کر دیئے
،مگر چند سال قبل یہاں صرف ایک پرائیویٹ کالج جو ان کے مرشد کے دوست جنرل
کا تھا کو آن واحد میں چار کروڑ عطا کیے اور چلتے بنے،اب کی بار پھر چکوال
کو عزت بخش رہے ہیں اور شان نزول یا وجہ آمد ایک پرایؤیٹ تعلیمی ادارہ ہی
ہے،کچھ بھی نہ دیا تو بھی دو تین کروڑ تو کہیں نہیں گئے،سرکاری اسکولوں میں
ٹیچر ہے نہ فرنیچر تاہم اس موضوع کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ
زیادہ قیاس آرائیاں اور پیشن گوئیاں کرنے والے کا حال بعض اوقات شیخ رشید
جیسا بھی ہو جاتا ہے اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ مجھے گذشتہ کالم
ـــ:سردار عباس ۔۔ایک اور دریا کا سامنا: لکھنے پر بے پناہ لوگوں کی کالز
موصول ہوئی بہت سے لوگوں نے فیس بک پر بھی کمنٹس دیے،کچھ نے میسج اور
موبائل پہ کال کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو کچھ نے ای میل کے ذریعے
بھی میری راہنمائی کی،ن لیگ کے بہت سے بزجمہروں نے تو باقاعدہ مجھ سے سورس
پچھنا شروع کر دیا کہ آپ بتائیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ سردار عباس ن لیگ
میں شامل ہو رہے ہیں ان سے کالم دوبارہ غور سے پڑھنے کی درخواست کی کہ میں
نے ایسا کچھ نہیں لکھا صرف مشورہ دیا ہے کہ جلدی فیصلہ کر لیں ورنہ اپنے
لوگ مختلف حیلے بہانوں سے جانے لگیں گے اور خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ نوبت
یہاں آ پہنچے کہ،،،شوق بے پروا گیا،فکر فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ
دیوانے نہ فرزانے رہے۔ کچھ دوستوں نے جوابی کالم بھی لکھ مارے ،میں سب سے
پہلے تو تمام احباب کا شکر گذار ہوں کہ جنہوں نے بھلے تنقید ہی سہی کالم
پڑھنے کے بعد ہی کی،ایک ہمارے دوست جو اکثر و بیشتر لوکل سیاست پہ جامع
انداز میں روشنی ڈالتے رہتے ہیں چوہدری اقبال حید ر ہیں،میرے انتہائی محترم
دوست نے میری تحریر کو پڑھ کر شاید یہ گمان کر لیا کہ میں ن لیگ کا بلاوجہ
مخالف اور ان کی مقامی قیادت سے اتنا نالاں ہوں کہ سردار عباس کو ن لیگ میں
نہ صرف شامل ہونے بلکہ قیادت سنبھالنے کا مشورہ بھی دے ڈالا،ساتھ ہی موصوف
نے نجانے یہ بھی حوالہ کیوں دے دیا کہ سردار عباس نے جب پی ٹی آئی سے
استعفیٰ دیا تھا تو میں نے جو کالم لکھا تھا :سردار عباس ۔۔۔منزل ہے کہاں :
میں سردار عباس کے جو لتے لیے تھے وہ بھی ریکارڈ پر ہیں،تو جناب میرے محترم
بھائی چوہدری اقبال حیدر صاحب میرے پاس ایک ایک کالم کا ریکار ڈموجود ہے
میں نے نہ کبھی کسی کی بے جا تعریف کی نے کسی پہ تہذیب کے دائرے سے نکل کر
تنقید کی،میں نے سردار ذوالفقار دلہہ کو جب الیکشنز سے قبل اپنی جیب سے خرچ
کر کے لوگوں کے کام کرتے دیکھا تو ان کا دم ن لیگ کے لیے غنیمت قرار
دیا،اسی سردار ذوالفقار نے جب الیکشنز کے بعد انہی عام لوگوں سے نظریں
پھیریں تو میں نے آج سے ڈیڑھ سال قبل :سردار ذولفقار دلہہ اور ن لیگ کی
ٹوٹتی مالا: لکھ کے قبل از وقت ن لیگ کی قیادت کو خبر دار کر دیا تھا کہ اب
جب بھی الیکشن ہو ں چاہے چھوٹے لیول پہ ہوں یا قومی لیول پر آپ کو آٹے دال
کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا،اس کے علاوہ جن لوگوں کو اپنی دولت اور جاہ و حشمت
پہ بڑا مان تھا ان کے لیے بھی الیکشن سے چند دن قبل میں نے :ووٹوں کے
سوداگر: لکھ کے ان کو انتباہ کیا کہ آپ لوگ شدید غلط فہمی کا شکا ر ہیں اور
جب انتخابات ہوئے تو میری ایک ایک بات درست نکلی اور اس میں میرا کوئی کمال
نہیں اوسط درجے کا ذہن رکھنے والا شخص بھی بڑے آرام سے یہ اندازہ لگا سکتا
تھا میں تو پھر کسی کھاتے میں نہیں،میں نے جب بھی کہیں غلط ہوتے دیکھا یا
کانوں سے سنا تو بلا تفریق یہ دیکھے بنا کہ مخاطب کو ن سی شخصیت ہے بھرپور
اور غیر جانبدارانہ تنقید کی اور آئندہ بھی اگر اﷲ نے ہمت دی اور اس کی
منشاء ہوئی تو یہ طریق جاری رہے گا مگرمیرے محترم چوہدری اقبال حیدر خان
شاید وہ تحریریں بھول گئے جو بالی خان کے نام سے چوہدری ایاز امیر کے خلاف
سرداران کی محبت میں لکھتے رہے،اگر چاہیں تو ہفت روزہ ٹوٹل کاوہ ریکارڈ بھی
ان کو مہیا کیا جا سکتا ہے کہ میرا اس ہفت روزہ سے فانسنگ کی حد تک تعلق
تھا جن میں جناب سردار ان کوٹ چوہدریاں کی محبت میں ایازی نفرت میں ہر حد
عبور کر گئے تھے،میں نے تو صرف اپنا ایک تجزیہ پیش کیا تھا جو میری رائے
تھی اور سردار غلام عباس کو مشورہ دیا تھا جو صرف ایک مشورہ ہی تھا جس سے
بہت سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور میری رائے غلط بھی ہو سکتی
ہے،میں سردار عباس کا نہ ترجمان ہوں نہ ان کے گروپ کا کوئی باقاعدہ رکن یا
ممبر،میرا کام صحافت ہے جو میں اپنے طور پہ احسن انداز سے سر انجام دینے کی
مقدور بھر کوشش کر رہا ہوں،میں نے سردار عباس پہ پی ٹی آئی چھوڑنے پر
بھرپور تنقید اس لیے کی کہ اس وقت جب سردار صاحب عمرے پہ گئے تھے تو ن لیگ
میں شمولیت اور جدہ میں میاں صاحب سے ملاقات کا شور اٹھا ،واپسی پر سردار
غلام عباس نے چکوال کے پانچ صحافیوں کو بلکسر اپنے کیمپ میں مدعو کیا،جب ہم
نے ان سے ن لیگ میں شمولیت کے بارے میں پوچھا تو جناب نے فرمایا کہ سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا میری میاں صاحب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی،میری سیاست کا
مرکز ومحور اب فقط عمران خان ہی ہے اور میں جب بھی الیکشن لڑا تو پی ٹی آئی
کے پلیٹ فارم سے ہی لڑوں گا،میں نے پوچھا جناب اگر الیکشنز لڑے تو کس حلقے
سے لڑیں گے تو مسکرا کے جواب دیا کہ ابھی سے میں لوگوں کو الجھن میں نہیں
ڈالنا چاہتا یہ ابھی قبل از وقت ہے جب وقت آئے گا آپ کو بھی معلوم ہو جائے
گا آپ لوگوں سے بھی گذارش ہے کہ اپنی طرف سے ابھی کوئی اندازہ نہ
لگائیں،اور اس میٹنگ کے چند دن بعد پتہ چلا کہ سردار عباس نے پاکستان تحریک
انصاف سے علیحدگی اختیار کر لی،اور اس پہ میں نے ان پہ :سردار عباس ،،،منزل
ہے کہاں: کالم لکھا اور ان کو ان کی باتیں یاد دلائیں اور کہا کہ اس کا آپ
کو شدید نقصان ہو گا یا تو آپ پی ٹی آئی جائن نہ کرتے اور اگر کر لی تھی تو
پھر اسی میں رہتے،تاہم سردار عباس سنبھل گئے کہ ان کا اپنا ایک حلقہ اثر ہے
اور ان کی خوش قسمتی یہ بھی کہ ان کے لوگ ان کے ساتھ کمٹڈ ہیں،اور اب کی
بار سردار غلام عباس نے ثابت بھی کر دیا کہ وہ ضلع بھر کے مقبول ترین لیڈر
ہیں اب لوگوں نے ان سے توقعات وابستہ کر رکھیں ہیں وہ تب ہی پوری ہو سکتی
ہیں کہ سردار صاحب بھلے حکومت میں شامل نہ ہوں مگر کسی کو بھی اپنی حمایت
اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی سے مشروط کر دیں،اور یہ جو ان کا راستہ روکنے
کے انقلابی اعلانات فرما رہے ہیں ان کی بالکل بھی پرواہ نہ کریں،اس ملک میں
کون ہے جو اپنے دم قدم پہ جم کے کھڑا ر ہا کون ہے جس نے پارٹی اور اپنے
خیالات وقت کے ساتھ تبدیل نہ کیے،ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب کے وزیر خارجہ
تھے تو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص قائد عوام اور ملک کا مقبول ترین راہنما
بن جائے گا کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے نام پر جانیں دیتے رہیں
گے،میاں صاحب نے خود ایک ڈکٹیٹر سے ڈیل کی اور پھانسی لگنے سے بچنے کا
دانشمندانہ فیصلہ کیا اور آج پھر اقتدار میں اور ڈکٹیٹر صاحب اپنے زخم چاٹ
رہے ہیں، اپنے ہاں کی سیاست جوش کی بجائے ہوش عقل اور ٹائمنگ کا کھیل
ہے،لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں،جنوری سے نومبر تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہو صرف
دسمبر میں ختم کر دی جائے تو لوگ پچھلے گیارہ ماہ بھول کر صرف دسمبر دسمبر
کرنے لگتے ہیں،سردار عباس کو طعنے دینے والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں
کیا یہ وہی نہیں جو پرویز مشرف کی ق لیگ کے راتب سے مستفید نہیں
ہوئے،2002میں جس مسلم لیگ ن کو اپنا امیدوار نہیں مل رہا تھا کہ میاں
صاحبان کا نام لینا بھی جرم تھاصرف چکوال سے ایاز امیر خم ٹھونک کے میدان
میں آئے اور تلہ گنگ میں صرف پی پی کا امیدوار ملک حبیب الرحمٰن کلر
کہار،تیسرا نام اﷲ کا،منتوں ترلوں کے باوجود کوئی ایک بھی شخص ایم این اے
یا ایم پی اے کا امیدوار بننے کے لیے تیار نہ تھایہ الگ بات کہ ان دونوں
لوگوں ایاز امیر اور ملک حبیب الرحمٰن کے ساتھ اسی ن لیگ نے کیا کیاایاز
امیر کے مقابلے میں اس وقت ق لیگ سے ان کے مدمقابل میجر طاہر جو توبہ تائب
ہو کر پھر میاں صاحبان کی بیعت کر چکے تھے ان کو ٹکٹ دے دیا اور ملک حبیب
الرحمٰن کلر کہار کا شاید میاں لوگ نام بھی بھول گئے اور اسی کا نام سیاست
ہے جو اپنے ہاں رائج ہے یہاں جاوید ہاشمی جیسے اصول پسندوں کی نہ کوئی
گنجائش پہلے تھی نا اب ہے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ یہاں گم نامی ہے ، اور یہ
تو بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی حکومت یا جماعت کے اندر رہ کر آپ تبدیلی کی
کوشش کر سکتے ہیں باہر بیٹھ کر صرف خواہش اور ٹھنڈی سانسیں لی جا سکتی
ہیں،سردار عباس کسی کی بھی پرواہ کیے بغیرآنیوالے وقت کو مد نظر رکھ کراپنے
دوستوں کو بلا کر دلیرانہ فیصلہ کریں اور جو بھی فیصلہ ہو پھر اس پہ ڈٹ
جائیں،اور دوسری بات یہ کہ اس وقت جو بھی ٹولہ یا طبقہ ملک اور عوام پر
مسلط ہے وہ کسی بھی طرح سردار عباس سے زیادہ اہلیت کا حامل نہیں کہ جمہوریت
میں سب سے بڑی اہلیت عوام کی رائے ہوتی ہے جو بھرپور طریقے سے عوام نے ان
کے حق میں دے دی ہے اس رائے اور اعتماد کو سنبھالیں اور عوامی خدمت کے لیے
بہتر فیصلہ کریں آزاد حیثیت کو چھوڑ کر کسی بھی اہم قومی پارٹی میں شمولیت
اختیا ر کریں کہ اقبال نے کہا تھا کہ لہروں کی طاقت اور ان کا وجود صرف
پانی کے اندر ہی برقرار رہتا ہے یعنی فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ
نہیں،، موج ہے دریامیں بیرون دریا کچھ نہیں،،،،،اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و
ناصر ہو۔ |