لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے ساتھ نام نہاد گڈ گورنس کا سلوک۔ دور حاضر کا عظیم المیہ
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
شریک چیئرمین ہیومن رائٹس کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار
لیجیے جناب وزیر اعلیٰ کے انتھک ہونے کا ایک اورثبوت وہ یہ کہ وزیر اعلیٰ
نے واقعی اورنج ٹرین کے اوپر زور شور سے کام شروع کر دیا ہے۔معاشیات کی ایک
تھیوری ہے بگ پُش تھیوری۔ یعنی بڑئے دھکے کا نظریہ اُس کے مطابق ایسا بڑا
پراجیکٹ لانچ کیا جائے کہ اُس کے وجہ سے دیگر شعبہ جات میں ترقی ہو۔ جیسا
کہ ماضی میں موٹر وئے کا منصوبہ تھا اُس کا مقصد تو یہ ہی تھا کہ اِس کے
ساتھ صنعتی زون بنائیں تاکہ لوگوں کو اپنے گھروں کے نزدیک روزگار مل سکے۔
لیکن شریف برادران کی حکومت ختم ہوگئی اور یوں موٹر وئے کے ثمرات اُس حد تک
حاصل نہ کیے جاسکے جس حد تک اِس سے استفادہ کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اُس کے
باوجود موٹر وئے کی وجہ سے جہاں جہاں سے موٹر وئے گزرتی ہے وہاں کی آبادی
کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں فرق ضرور پڑا
ہے۔اب موٹر وئے لاہور سے کراچی تک بنائی جارہی ہے اِس حوالے سے بس اتنا ہی
کہا جاسکتا ہے کہ انشا اﷲ پاکستانی عوام ضرور غربت سے نجات حاصل کر سکیں گے۔
اِسی طرح توانائی کے نئے منصوبے بھی پائپ لائن میں ہیں اِن کی تکمیل سے
بجلی سستی بھی ہوگی اور اِس کی قلت بھی ختم ہوجائے گی۔ اب ہم تصویر کا
دوسرا رُخ دیکھتے ہیں کہ عام آدمی کے ساتھ معاشرئے میں کیا سلوک ہورہا ہے۔
گڈ گورنس نام کی کوئی شے ہی نہیں۔ جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا چند دن اُس
حوالے سے شور اُٹھتا ہے پکڑلو پکڑ لو بعد میں پھر خاموشی۔ سانحہ سندر میں
فیکٹری کی چھت کا گرنا ابھی حالیہ واقعہ ہے۔یہ بات واضع کرنے کا مقصد یہ ہے
کہ تھریڈ آف ورک قائم نہیں۔ یہ تو وہی بات ہے کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں
دل کا جو چیرا تو ایک قطرہ لہو کا نکلا۔ پولیس بے لگام۔ ایف آئی آر کٹوا نا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیس کی انوسٹی گیشن، عدالتی معاملات تو بعد کی
بات ہے۔ راقم کا تعلق قانون کے شعبے سے ہے جس طرح عوام کو آیف آر کٹوانے کے
لیے ذلیل خوار ہونا پڑتا ہے سائل اِس طرح کے حالات سے گزرنے کے بعد انصاف
حاصل کرنے سے تائب ہوجاتا۔خیبر پختوان خواہ میں ایف آئی آر کو آن لائن کر
دیا گیا ہے کوئی قیامت نہیں آئی۔ وزیر اعلیٰ صاحب اگر پنجاب میں بھی ایسا
کردیں گے تو عدالتوں پر مقدموں کا بوجھ کم ازکم تیس فی صد کم ہوجائے گا۔
اِس طرح پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر کرنا پڑئے گی۔
عدالتیں جو آرڈر کرتی ہیں وہ حکومتی ادارئے پولیس، ایل ڈی وغیرہ اُنہیں
خاطر میں نہیں لاتے ۔مطلب صاف ظاہر ہے کہ نوکر شاہی بے لگام ہوچکی ہے اور
خادم اعلیٰ صوبہ حمزہ صاحب کے حوالے کرکے خود نہ جانے کہاں مشغول ہیں۔لاہور
ہائی کورٹ میں اس سال 2015 کے دس ماہ کے دوران توہین عدالت کے 4800 کیسز
دائر ہوئے ہیں مطلب یہ کہ عدالت نے جو فیصلہ جات دئیے اُن کو خاطر میں نہیں
لایا گیا اور سائلین کو دوبارہ عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔لاہور ہائی کورٹ بار
کے صدر جناب پیر مسعود چشتی، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین جناب اعظم
نذیر تاڑر اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب اشتیاق ائے خان نے گزشتہ
روز لاہور ہائی کورٹ میں مشترکہ جنرل ہاوس اجلاس میں اِس حوالے سے نوکر
شاہی کے کردار پر شدید تنقید کی اور خادم اعلیٰ سے کہا کہ جناب پولیس ایل
ڈی ائے وہ دیگر محکمہ جات تو سائلین کی بات سننے کو تیار تو تھے ہی نہیں اب
ہائی کورٹ کے فیصلوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔لاہور بار کے صدر اشتیاق
ائے خان کا یہ کہنا کہ جسٹس آف پیس کی جانب سے پر چہ درج کرنے کے احکامات
کو پولیس افسران ردی کی ٹوکری میں پھنک دیتے ہیں۔گورنس کے حوالے سے پاکستان
کے سب سے برئے صوبے کے حوالے سے وکلاء برادری کی جانب سے اتنا بڑا ایشو
اُٹھانا اِس بات کی غمازی کرتاہے اب خادم اعلیٰ صاحب حقیقت کا دارک کر لیں۔
ایک تو ایف آئی آر کا نظام آن لائن کردیں۔دوسرا نوکر شاہی کو عدالتی
احکامات پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیں ۔ورنہ شائد وکلاء عدلیہ کے فیسلوں
کی پاسداری کے لے میدان میں ہوں گے۔ فیصلہ جات پر عمل نوکر شاہی نہیں کرتی
۔ معاملات درست پولیس کے نہیں ہیں۔ انصاف کی فراہمی نہ ہونے کا ملبہ سارا
وکلاء اور ججوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ خادم اعلیٰ صاحب خطرئے کی گھنٹی ببج
رہی ہے۔ خدارا کچھ کر لیں ؟ |
|