پاکستان میں تو پٹاخے تونہیں چھوٹے
ہاں مگر بہار میں بی جے پی کے دل ٹوٹے ۔ انتہاپسندی کابت پاش پاش ہوگیا
بہار میں‘ بی جے پی بہار کو ترستی ہوئی خزاں رسیدہ پتوں کی مانند
بکھرگئی۔کشمیری سیاستدان عمرعبداﷲ نے ٹویٹ کیا کہ’’ یہ دھوں سا اُٹھ رہاہے‘‘۔
یاد رہے کہ الیکشن مہم کے دوران بی جے پی کے صدرامیت شاہ نے اخلاق سے گری
ہوئی سیاسی پھلجڑی چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ بہار کے لوگو!اگربی جے پی ہار
گئی توپٹاخے پاکستان میں چھوڑے جائیں گے‘پاکستان میں پٹاخے تو نہ چھوٹے
لیکن بہار میں بی جے پی والوں کے دل ضرور ٹوٹے۔
’’بہار ‘‘کالفظ سنسکرت اورپالی زبان سے ماخوذ ہے ‘جس کامطلب ‘مسکن یا
’’قیام گاہ ‘‘ہے ۔بہار مشرقی انڈیامیں واقع ہے ‘جس کا دارلحکومت پٹنہ ہے۔
رقبہ کے لحاظ سے تیرہویں بڑی ریاست ہے‘اس کا رقبہ 94,136مربع کلومیٹر ہے
‘۔2012کی مردم شماری کے مطابق اسکی آبادی 99.02ملین ہے ‘اس طرح آبادی کے
لحاظ سے تیسری بڑی ریاست ہے۔
آٹھ نومبر کی شام کو سورج ڈھلتے ہی بی جے پی کاسورج بھی ڈھل گیا اور مہاگٹھ
بندھن کے اتحاد نے (جنتادل یونائٹیڈ ۔آر جے ڈی ۔کانگریس)بہار کی کل 243میں
سے 178نشستیں حاصل کرلیں۔ مرکز کی حکمران جماعت اپنے اتحادیوں سمیت اسوقت
تک 58کے ہندسے تک پہنچ پائی تھی جب کہ بہار میں حکومت بنانے کا جادوئی
ہندسہ 122ہے۔
۔ مہا گٹھ بندھن میں شامل نتیش کمار کی جماعت جنتادل یونائیٹیڈ 101 نشستوں
پر امیدوار کھڑے کیئے اور 71نشستیں جیت پائی ‘لالوپرساد کی جماعت راشٹریہ
جنتادل نے 101میں سے 80نشستیں حاصل کیں اورلالوپرساد کے دونوں فرزند بھی
کامیاب رہے ‘کانگریس نے 71سیٹوں کاخواب دیکھا اور41کو حقیقت کاروپ دے سکی
۔اسی طرح این ڈی اے کے اتحاد میں شامل بی جے پی نے 53نشستیں جیتیں اوراسکے
اتحادی پانچ سیٹوں پر قبضہ جماسکے جبکہ مجموعی طورپر مسلمانوں کے حصے میں
24نشستیں آئیں جو کہ کل 243کا دس فیصد بنتاہے۔گزشتہ اسمبلی میں مسلمانوں کی
19نشستیں تھیں ۔ان 24میں سے گیارہ لالوپرساد‘چھ کانگریس اورپانچ کاتعلق
نتیش کمارکی جماعت سے ہے یوں یہ سب مہاگٹھ بندھن سے تعلق رکھتے ہیں ‘صرف
ایک مسلم رکن ‘کیمونسٹ پارٹی آف انڈیامارکسسٹ لینئسٹ کے ٹکٹ پرمنتخب ہواہے
۔
پانچ مرحلوں پر مشتمل اس الیکشن میں ووٹرز کی تعداد 6کروڑ‘68لاکھ‘26ہزار‘چھ
سو اٹھاون تھی۔جس میں 3,56,46,870مرد‘3,11,77,619 عورتیں اور 2,169تھرڈ
جینڈرشامل تھے۔9لاکھ ‘13ہزاراور561ووٹرز نے کسی کو ووٹ نہ دینے کاآپشن
’’نہیں ‘‘استعمال کیا‘جوکہ تناسب کہ لحاظ سے کل ووٹرز کا 2.5فیصدرہا۔2014کے
لوک سبھاکے الیکشن میں ساٹھ لاکھ بھارتی شہریوں نے ’’نہیں ‘‘کاآپشن استعمال
کیاتھا۔حالیہ الیکشن میں ریاست بہارکی تاریخ کاسب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہواجوکہ
56%رہا۔
اس سے قبل 2010کے بہار کے انتخابات میں جنتادل یونائٹڈ نے 115‘بی جے پی
91‘آرجے ڈی 22‘کانگریس 4اوردیگرنے گیارہ نشستیں حاصل کی تھیں۔سال 2010میں
ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 52.7اورمشرقی بہارمیں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 56.8رہاتھا۔
حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی عبرت ناک شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک
ٹائمز لکھتاہے کہ’’وزیراعظم مودی کو بدترین شکست کا سامناکرناپڑاجبکہ
بہارکے پرجوش رائے دہندگان نے جو ملک کی ایک تہائی آبادی رکھتے ہیں نے
بھاری تعدادمیں ان کی پارٹی کوریاستی اسمبلی انتخابات میں مسترد
کردیاہے‘‘۔بی بی سی کچھ یوں گویاہوئی کہ’’مودی نے گزشتہ سال کے انتخابات
میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی‘تاہم یہ انتخابات ان کے معاشی پروگرام پر
ایک ریفرنڈم ہیں‘‘۔دی گارڈین سمیت عالمی میڈیا نے اسے مودی کی بدترین شکست
قراردیا۔
مودی سرکار جس کا سورج گجرات میں اصلاحات اورمسلمانوں کے قتل عام سے چمکا
تھااب شکست وریخت کاشکارہوچکی ہے۔ جہاں عالمی میڈیانے بہارکے انتخابات کے
بعد مودی کی ووٹ حاصل کرنے کی طاقت کو رفتہ رفتہ کمزوری کی جانب مائل
قراردے دیاہے وہیں مغربی بنگال کی کے چیف منسٹرممتازبینرجی نے کہا کہ بی جے
پی کی شکست رواداری کی جیت ہے اورعدم رواداری کی شکست ہے۔کانگریس کے رہنماء
راہول گاندھی نے اسے بی جے پی اورآر ایس ایس کے تفرقہ پسند ایجنڈا کی شکست
قراردے دیا۔جب کہ شیوسینانے کہاکہ مودی سرکار کو اپنی شکست تسلیم کرنی
چاہیئے ۔شیوسیناکہ رہنماء نے نتیش کمار کو مہانائیک (اعلی ہیرو)کاخطاب
دیا‘شیوسیناکے لیڈر‘سنجے راؤت نے کہا کہ یہ ایک لیڈرکے زوال کی کہانی ہے
اوراگرابھی مہاراشٹرامیں انتخابات کروائے جائیں تونتائج مختلف نہیں آئینگے
۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطاب کے بعد نتیش کمار کو بھی سنبھل
کرچلناہوگااوراگروہ بھی چکنی چپڑی باتوں میں آئے توتنگ نظرلوگ انہیں بھی
انتہاپسندی کی تاریک وپسماندہ وادی میں اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے
اورپھر ان کا حشر بھی مودی سرکارسے ملتاجلتاہی ہوگا۔۔جسے رواں برس دلی
اوربہار میں دھچکے لگے۔
یہ ہار بی جے پی کے گلے میں ایسے ہے جیسے سانپ کے گلے میں چھچھوندر ۔ایسے
میں بی جے پی کے رہنماء باہم دست گریبان ہیں ۔بی جے پی کے جنرل سیکرٹری
ورجئے ورگی نے بی جے پی کے ناراض کارکن اورپٹنہ سے اسمبلی کے ممبر
اداکارشتروگھن سہناکو کتے سے تشبہیہ دی ہے جب کہ سنہاکہتے ہیں کہ ایسے
لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے جوبی جے پی کی شکست کاموجب بنے ہیں۔مرکزی
وزیربرائے آبی وسائل اومابھارتی کہتے ہیں کہ بیف اورعدم رواداری کے نام پر
پارٹی کیخلاف سازش تیارہوئی یہاں وہ یہ بھول گئے کہ فرید آباد میں اچھوتوں
کے جلانے پر انکے وزیروی کے سنگھ نے لفظ ’’کتا‘‘استعمال کیا۔اومابھارتی
ایوارڈ واپسی کو بھی ایک سازش قراردیتے ہیں ‘تاریخ کاسبق ہے کہ زوال کی یہی
نشانی ہے کہ انسان کواپنی خطاکااحساس نہیں رہتا۔
مودی سرکار جب سے اقتدارمیں آئی ہے اسوقت سے اس کی پروردہ جماعت آرایس ایس
نے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے گرد گھیراتنگ کرناشروع کردیاہے۔اسی بناء پر
چند دن قبل سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہاتھاکہ انتہاپسندی کی جانب
بڑھتاہوابھارت کاہرقدم اسے معاشی موت کے اندھے کنوئیں کی جانب لیئے
جارہاہے۔ فنکاروں سمیت اہل ادب کی جانب سے فنی وادبی ایوارڈ کاحکومت کو
واپسی کاسلسلہ جاری ہے اوراب تک 42ایوارڈ لوٹائے جاچکے ہیں تاکہ انتہاپسندی
کے بڑھتے ہوئے منہ زورسیلاب کے آگے بند باندھاجاسکے مگرمجال ہے کہ مودی
سرکارنے اپنے منہ سے ایک بھی مذمتی لفظ نکالنے کی جراء ت کی ہو۔
بہار کے انتخابات مودی سرکارکیلئے زہرقاتل سے کم نہیں ‘اسمبلی میں مکمل
کنٹرول اب بدلتے دنوں کے ساتھ ایک خواب میں بدل جائے گا کیونکہ جب بہار کی
لوک سبھا سے سینٹرز منتخب ہو کر راجیہ سبھا جائیں گے تو حکومت کیلئے اپنے
بل منظور کروانا دشوارہوگااوریوں مودی کا معاشی پیکج کادیاہواایجنڈاآگے
نہیں بڑھ پائے گا۔بہار میں انتخابات کی مہم بی جے پی کے امیت شاہ اورخود
وزیراعظم کی نگرانی میں ہوئی۔مودی جن کی سیاسی کشتی ہی انتہاپسندی کے چپوؤں
سے چلتی ہے خود ایک کٹرہندوہیں اورریاست بہار کے لوگوں کے اندرتعصب کی آگ
بھی جلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ایک کروڑ‘پچیس لاکھ کے پیکج کااعلان بھی
کیاگیا‘کم وبیش چالیس ریلیوں کی قیادت کی ‘دادری میں گائے ذبح کرنے کی
افواہ پرمسلمان کے خون سے ہولی کھیلی اور تیرہ نچلی ذات کے ہندو یعنی اچھوت
بچوں کوموت کی وادی تک پہنچایا۔یہ سب کچھ مذہبی نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل
کرنے کیلئے کیا گیا اورپھرآخرمیں مقبوضہ کشمیرمیں جاکر12بلین ڈالرکے پیکج
کااعلان کیاگیاجبکہ گزشتہ برس سیلاب میں کشمیریوں کا 16بلین ڈالرکانقصان
ہواتھا۔کہاجاسکتاہے کہ اپنے تئیں مودی سرکارنے ہندوؤں کاووٹ پکاکرنے کے بعد
جب مسلمانوں کاووٹ ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو کشمیرمیں ایک ایسے پیکج کااعلان
کیاجس کامقصدمسلمانوں کاووٹ حاصل کرناہوسکتا ہے لیکن عوام شرپسند مودی کے
دام میں نہ آئے ۔
بہارکے الیکشن میں مودی سرکاراس لیئے بھی فیل ہوتی دکھائی دی کہ 2014میں جو
معاشی ایجنڈالے کروہ آئی تھی اسے پایہء تکمیل تک پہنچاناتودرکاراس
کاباقاعدہ آغاز بھی نہ کیاگیااورایک مرحلے پرتوامیت شاہ نے اپنے ایک وعدے
کوسیاسی نعرہ بھی کہہ دیا‘جس میں بی جے پی نے کالے دھن والی رقم عوام کے
اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کاعندیہ دیاتھا۔بہارمیں شکست کی دوسری وجہ یہ بنی کہ
نتیش کمارنے بہارکی حالت بدل دی۔ایک وہ وقت بھی تھاجب ہندوستان کی گلیوں
میں مزاح کے طورپر یہ کہاجاتاتھاکہ پاکستان اگرکشمیرلیناچاہتاہے تولے لے
لیکن پھر اسے بہاربھی ساتھ لیناپڑے گامگرآج اسی بہارکونتیش کمارنے
تعمیرکردیاہے۔یہی وجہ ہے کہ نتیش کمار کی 71اورآرجے ڈی کی80نشستوں کے
باوجود لالوپرسادیادونے یہ اعلان کیاکہ نتیش کمارمیرے چھوٹے بھائی ہیں
اوروہی بددستور وزیراعلی رہیں گے اورمیں دلی جاکرمودی کوواپس گجرات بھجوانے
کی مہم چلاؤں گا۔
انگریزی محاورہ ہے کہ a switch in time saves nineترجمہ وقت پرلگایاہواایک
ٹانکا‘نوٹانکے لگنے سے محفوظ رکھتاہے۔مودی سرکارکی مقبولیت پہلا داغ عام
آدمی پارٹی نے دلی میں لگایالیکن بی جے پی کانشہ بددستوربرقراررہا‘اب بہار
نے دھچکالگایاہے تودیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں کھلتی ہیں یانہیں‘ اگرنہ
کھلیں توپھرنوتوکیااٹھارہ ٹانکے لگانے سے بھی مقبولیت کاوہ گراف لاناناممکن
ہوگاجس کامزہ بی جے پی چکھ چکی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت جس میں اسوقت آزادی کی 30تحریکیں چل رہی
ہیں ‘اسے انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھانااس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف
ہوگا۔لالوپرسادنے بھی اپنی پریس کانفرنس میں یہی کہاکہ مودی
سرکارکوجتواناایسے ہے جیسے دیش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔اسوقت بھارت میں چالیس
کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جنھیں انتہاپسندی کاسامناہے۔اسکے علاوہ سکھوں
‘نچلی ذات کے ہندؤ وں اورعیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں تک کو جلانے کاانسانیت
سوز جرم اسی دورمیں ہوا۔پاکستان اورنیپال کے ساتھ تعلقات میں سردروی اس خطے
کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔
مودی جو 12نومبرکوبرطانیہ پہنچ رہے ہیں ۔ان کی آمدپر نچلی ذات کے ہندو‘دلت
‘مسلمان ‘سکھ اوردوسری ہندوستان کی اقلیتیں جمعرات کو 1 سے 5بجے تک برطانوی
پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کریں گی اورجمعہ کے دن نارتھ لندن میں مودی کے
پہنچنے پر بھی یہ سب اقلیتیں اپناپرامن احتجاج ریکارڈ کریں گی۔ایسے میں جب
ویمبلے کے سٹیڈیم میں دیوالی کی تقریب ہوگی اورباہر احتجاج ہوگاتوعالمی
میڈیاکی توجہ اس جانب ضرورجائے گی اورنسلی تفاوت‘مذہبی عدم برداشت اورنفرت
کی سیاست کرنے والے مودی کیلئے یہ سب کچھ سہنامقدربن چکاہے۔
انتہاپسندی کے گرد تنگ ہوتاگھیرااس بات کی غمازی کررہاہے کہ ہندوستان کی
عام عوام تنگ نظر نہیں ہیں بلکہ ایک محدودطبقہ ہی ایسی فضاکاذمہ دارہے
۔ایسے وقت میں پاکستان کو بھی آگے بڑھ کر عالمی فورم پر بھارتی دراندازی
اوراسکے اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز رویے کو اجاگرکرناہوگاتاکہ مظلموں کو
ان کا حق دلایاجاسکے اورپاکستان کومحفوظ تربنایاجاسکے۔
اب دیکھنایہ ہے کہ 2016میں کیرالہ ‘مغربی بنگال ‘پاؤنڈی‘تامل ناڈو‘اورآسام
کاالیکشن مودی کس طرح لڑتے ہیں ۔ممکن ہے کہ مغربی بنگال اورکیرالہ میں وہ
ہندوکارڈ کھیلنے کی کوشش کریں اگرانھوں نے ایساکیا تو انھیں بہار اوردلی
کانتیجہ ذہن میں رکھناہوگا۔ اورمودی سرکارجتناانتہاپسندی کو سپورٹ دیتی
جائے گی اتناہی بھارت کی سلامتی اوراپنی سیاست کے تابوت میں کیل ٹھونکتی
چلی جائے گی۔ |