عالمی برادری کا دہرا معیار

دہشت گردی دنیا کو درپیش خطرات میں سے ایک انتہائی بڑا اور مہیب خطرہ ہے، جس نے دنیا کے بہت سے ممالک کو تباہیوں اور بربادیوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ لاکھوں زندگیاں اس خونخوار عفریت کی نذر ہوگئی ہیں۔ دہشت گردی کو انسانیت کی تباہی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ ایک عرصے سے پوری دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، جس سے مسلم ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ مسلم ممالک اپنا وجود تک برقرار نہیں رکھ سکے ہیں اور بعض ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو جھٹلانا آسان نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں بدامنی وخونریزی کی آگ کو اسلام کے نام پر بھڑکانے والے عسکریت پسندوں نے مغرب کی چھتری تلے جنم لیا ہے، یہ لوگ اگرچہ مسلمان ہیں، لیکن ان کی ڈوریاں اہل مغرب کے ہاتھ میں ہیں۔ مغرب کے پیسے اور اسلحے سے چلنے والی بہت سی عسکریت پسند تنظیمیں انھیں کے اشاروں پر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مشغول ہیں۔ ایک طرف تو اہل مغرب نے مسلم ممالک میں خونریزی کرنے والی جماعتوں کو سپورٹ کیا اور دوسری جانب افغانستان و عراق سمیت متعدد مسلم ملکوں میں بمباری کر کے بے گناہ مسلمانوں کا بے تحاشہ خون بہایا، جس سے بہت سے مسلم ممالک نہ صرف عدم استحکام کا شکار ہوئے، بلکہ امن وسکون کو بھی ترس گئے ہیں،لیکن اس سب کچھ کے باوجود کمال چالاکی کے ساتھ شاطر مغرب نے دہشت گردی کی ساری ذمے داری مسلمانوں پر ہی ڈال دی۔ داڑھی، حجاب اور شعائر اسلام کوبدنام کیا جانے لگا اور پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔

اپنے ہی اشاروں پر رقصاں چند سر پھرے مسلم دہشت گردوں کی آڑ میں دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کرکے مسلمان کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کروائی گئی۔ اس کے ساتھ خود یورپ میں مسلمانوں پر بلا جواز دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر ان کا جینا دوبھرکردیا گیا اور دیگر ممالک سے روزگار کی تلاش میں آئے ہوئے مسلمانوں کو زبردستی یورپ سے نکالا گیا، جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ”عالمی برادری دہرا معیار اپنانے سے باز رہے۔ حجاب اور داڑھی رکھنے والے دہشت گرد نہیں ہوتے۔ مغرب اس زاویے سے نکل کر اصل دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بندوبست کرے۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے بلاجواز پاکستانیوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر ملک بدر کرنے کو قبول نہیں کرینگے۔گزشتہ دور حکومت سے لے کر اب تک 90 ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر ڈی پورٹ ہوچکے ہیں۔“

وزیر داخلہ کا اہل مغرب سے شکوہ بالکل بجا ہے۔ ایک عرصے سے دنیا بھر میں اہل مغرب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف غیرمنصفانہ اورمتعصبانہ رویے نے مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکیا ہے اور عالم اسلام میں یہ شعور تیزی سے بیدار ہورہا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے، جس کی بنیاد پر دنیا بھر میں بالعموم اور مغرب میں بالخصوص مسلمانوں کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مغرب اور اس کا سرخیل امریکا اس وقت جس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں، درحقیقت وہ مکرو فریب کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس کی لپیٹ میں صرف اور صرف مسلمان آتے ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں یہ دہشت گردی بھی انھیں کی پالیسیوں کی دین ہے اور متعدد مسلم ممالک میں خود مسلمان ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔

فلسطین سے لے کرکشمیر تک، افغانستان سے لے کر عراق تک، شام سے برما اور یمن سے پاکستان تک لہو لہو اسلامی دنیا ،اہل مغرب کی استعماری پالیسیوں کی داستان الم نشرح کررہی ہے۔ امریکا نے افغانستان، عراق اور پاکستان میں وزیرستان میں خونریز حملوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں چھین لی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر ان کا ہی جینا حرام کر رکھا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم و سفاکیت کی داستان رقم کرنے کے بعد خود بھارت میں مسلمانوں پر پ ±رتشدد کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ برما میں بودھوں نے مظلوم مسلمانوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ سامراجی عزائم رکھنے والے ممالک مسلمانوں کے امن وامان کو تباہ کرکے ہر قسم کے ظلم و تشدد کو روا رکھتے ہیں اوربعد ازاں دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ اگر اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرے اور بلڈوزروں سے ان کے گھروں کو مسمار کردیں تو یہ دہشت گردی نہیں اور اگر اس کے ردعمل میں نہتے فلسطینی پتھر اٹھاکر پھینک دیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔

گزشتہ ساٹھ سالوں میں 96 ہزار کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت پاچکے۔ کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی لیکن اگر کشمیری عوام آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں توانھیں دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ افغانستان، عراق، برما اوردیگر کئی مسلم ممالک میں ظلم وستم کی داستان رقم کرنے والے پر”امن“ اور یہ مظالم برداشت کرنے والے مسلمان ”دہشت گرد“ ٹھہرتے ہیں۔ کیا کوئی بھی غیرجانبدار عقل اس کو انصاف کہہ سکے گی؟یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل حقیقت کے بالکل خلاف ہے، اگر انصاف کا دامن تھاما جائے تو واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں خونریزی کے چیمپیئن کون ہیں؟ دنیا میں پہلی بار دہشت گردی کا لفظ فرانسیسیوں نے استعمال کیا تھا۔

فرانسیسی انقلاب کے سالوں میں میکس ملن رابسپیری نے 5 لاکھ سے زاید افراد کوگرفتار کیا، جن میں سے 40 ہزارکو قتل کیا گیا اور دو لاکھ سے زائدکو بھوکا رکھ کر مارا گیا تھا۔ہٹلر نے لاکھوں لوگ قتل کیے۔ جوزف اسٹالن نے 2 کروڑ افراد کو قتل کیا۔ اٹلی کے بنیتو موسولینی نے چار لاکھ افراد کو قتل کیا۔ ”گلوبل ڈیٹابیس ٹیررازم“ کے اعدادوشمار کے مطابق اگر 1970 سے 2007 کے دوران پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر دنیا بھر میں دہشت گردی کے87000 واقعات ہوئے، جن میں سے 2695 یعنی 3 فیصد واقعات خود کو مسلمان کہلانے والے لوگوں نے کیے۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکا اور مغرب نے اسلام کے خلاف ایسی دھول اڑائی کہ اہل مغرب سے حقائق پوشیدہ ہوگئے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا گیا، حالانکہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والوں کی گردنوں پرکروڑوں انسانوں کا خون ہے۔ امریکیوں کی گردنوں پرکروڑوں ریڈانڈینز کا خون ہے، جن کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو بحراوقیانوس میں پھینک دیا گیا تھا۔کروڑوں انسانوں کا خون کرنے والے آج دنیا میں سب سے زیادہ مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور چند واقعات کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قراردے رہے ہیں ، جو سراسر انصاف کا قتل ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.