فرانس میں دہشت گردی لمحہ فکریہ
(abdul razzaq choudhri, lahore)
فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں |
|
گزشتہ دنوں فرانس میں دہشت گردی
کی سفاکانہ واردات کے نتیجے میں ایک سو پچاس سے زائد لوگ لقمہ اجل بن
گئے۔اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ
فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے ایک ہی حملے نے امریکہ سمیت پورے یورپ کو
ہلا کے ر کھ دیا ہے اور ان ممالک کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں جبکہ مغربی
ممالک سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور اس واقعہ کے پس پردہ محرکات کو جاننے کی
کوششوں میں ہیں اور اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کی جانب را غب ہیں جبکہ تازہ
ترین اطلاعات کے مطابق پورے یورپ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور بڑے
منظم طریقے سے ملزموں کی تلاش کا عمل جاری ہے اور ملکی حالات کو کنٹرول
کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں کیوں کہ ایسے
واقعات کے مذید رونما ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ابھی تک کی
معلومات کے مطابق داعش کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔ خبریں
آ رہی ہیں کہ فرانس نے شام میں داعش کے ممکنہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع
کر دیا ہے جبکہ داعش کی جانب سے دھمکی بھری ویڈیو کے چرچے بھی عام ہیں جس
میں داعش نے دعویٰ کیا ہے کہ پیرس جیسے حملے امریکہ میں بھی کیے جائیں گے۔
داعش کی دہشت گردی کے میدان میں دھماکہ خیز اینٹری اپریل دو ہزار تیرہ میں
ہو ئی اورپھر مختصر عرصہ میں دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم دنیا کی خطرناک اور
خوفناک تنطیم کا روپ دھار گئی۔شام اور عراق کے بعض علاقوں پر قابض ہو کر
اپنی دہشت پسندانہ کاروا ئیوں کا آغاز کر دیااور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی
ہے کہ اس کے خوف سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی ٹانگیں کانپ رہی
ہیں۔امریکہ جو سراپا غرور ہے جس نے عراق ،افغانستان اور اپنے دیگر مخالفین
کو روند ڈالا اور اس فعل کو انجام دینے میں معمولی سی بھی غفلت کا مظاہرہ
نہ کیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ داعش اس کے سامنے ناقابل تسخیر قوت کا منظر پیش
کر رہی ہے۔یاد رہے داعش کے خلاف نصف سنچری کے قریب مما لک برسر پیکار ہیں
لیکن پھر بھی وہ داعش کی پیش قدمی روکنے میں ناکام ہیں آخر کچھ عوامل تو اس
کے پس پردہ موجود ہیں۔ کوئی ان دیکھی طاقت تو ضرور ہے جو اس کو کمک مہیا کر
رہی ہے۔داعش جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کو نت
نئے نئے ہتھیار فراہم ہو رہے ہیں سوچنے کی بات ہے داعش کو یہ ہتھیار کون
دیتا ہے اور کیوں دیتا ہے ۔آخر کون ہے جو ان دہشت گردوں کو تربیت دیتا ہے ۔
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب موصول ہونے پر ہی اصل حقائق منظرعام پر آ سکتے
ہیں۔داعش کی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے کچھ تجز یہ نگاروں کا خیال
ہے کہ داعش کی تربییت امریکی فوج سے مشابہ ہے جبکہ خونی حملوں کی مماثلت
اسرائیل سے ہے ۔ دراصل امریکہ اور اسرائیل ہی اس دہشت گرد تنظیم کے پشت
پناہ ہیں۔یہ دونوں ممالک اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے اس تنظیم کو استعمال
کر رہے ہیں۔ ان ممالک نے خود ہی یہ فتنہ کھڑا کیا ہے اور اب عراق اور شام
میں قابض ہونے کے لیے اس کی سرکوبی کا بہانہ بنا کر اپنے مفادات کا کھیل
کھیلیں گے کیونکہ یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ داعش مسلمانوں کو زیادہ
نقصان پہنچا رہی ہے اور اسلام کی تعلیمات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہے
اور اسلام دشمن عناصر کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ آغاز اسلام سے لے کر آج تک
شیطانی قوتیں اسلام کے تشخص کو مسخ کرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھاتی رہی
ہیں اور عہد حاضر میں داعش کی شکل میں اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش
کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے حقیقی امیج کا حلیہ بگاڑ کر دنیا کے سامنے
پیش کیا جا رہا ہے۔صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی ان مسلم دشمنوں
سے خیر کی توقع نہیں ہے ۔تمام تر مروجہ غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کے باوجود
اسلام دن بدن مذید پھیل رہا ہے اور امید واثق ہے کہ اس کے فروغ میں مذید
اضافہ ہو گا اور دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں مل جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ
پیرس حملوں کے پس منظر میں یورپ میں مقیم مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ
شروع کر دیا گیا ہے۔سیکیورٹی کے نام پر اور منافرت پھیلانے کے الزامات لگا
کر متعدد مساجد کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور شنید ہے کہ اسی آڑ میں
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کی بھی تیاریاں ہیں۔ دکھ کی بات
ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو مغربی ممالک میں
معصوم اور بیگناہ مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیا بھر
کے مسلمان فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور
انسانی رشتے کی بدولت یورپی باشندوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔البتہ غور
طلب بات یہ ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان،افغانستان ،عراق تو کئی سالوں
سے اس عفریت کا تن تنہا مقابلہ کر رہے ہیں ا ور ان ممالک میں دہشت گردی کا
بازار گرم ہے لیکن مغربی ممالک اس تکلیف سے بے پرواہ جس سے مسلم ممالک نبرد
آزما تھے آنکھیں بند کیے چین کی بانسری بجا رہے تھے لیکن فرانس کے حالیہ
حملے نے ان ممالک کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ایکدم ان کے سینے میں انسانیت کا
درد جاگ اٹھا ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سانپ پالنے والے کو بھی معاف نہیں
کرتا اور موقع ملنے پراسے بھی ڈس لیتا ہے۔اگر چہ فرانس میں ہونے والے اس
مکروہ فعل پرجس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے لیکن ساتھ ساتھ مغربی ممالک
کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ جن ممالک میں سال ہا سال سے یہ عذاب
مسلط ہے ان سے بھی حقیقی معنوں میں خلوص نیت سے ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا
چاہیے۔ دنیابھر میں بسنے والے افرادخواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے
ہوانسانیت کے ناطے مشترک ہیں۔ کوئی بھی انسان چاہے اس کا تعلق فرانس سے
ہو،شام سے ہو یا فلسطیں سے ہواگر دہشت گردی کا شکارہویا ظلم و ستم کی چکی
میں پس رہا ہو تو پوری دنیا کو اس کے خلاف قدم سے قدم ملا کر اس نا انصافی
کے خاتمے کے لیے بھر پور کردار اد ا کرنا چاہیے اس تقسیم سے بالا تر ہوکر
کہ یہ مکروہ فعل مسلم ممالک میں جاری ہے یا غیر مسلم ممالک میں۔ تبھی دنیا
سکون کی نیند سو سکے گی۔ |
|