دم توڑتی ایک مثبت روایت

دنیا سے سب نے جانا ہے، اشتیاق احمد مرحوم بھی 71سال اس فانی دنیا میں گزار کر ایسے دیس کے باسی بن گئے،جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، لیکن اپنے پیچھے اپنے مداحوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑ گئے، جن کے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اپنی زندگی میں پہلی بار کسی لکھاری کی موت پر خلق خدا کو اس قدر غمگین پایا، اس پہلے بھی ایسا ہوا ہوگا لیکن میں نے عقیدت و احترام کا یہ منظر پہلی بار دیکھا ہے۔ جب اردو زبان میں بچوں کے سب سے بڑے ادیب اشتیاق احمد مرحوم کی رحلت کی خبر سننے کے بعد فیس بک پر آیاتو منظر ہی عجیب تھا۔ معلوم ہوتا تھا فیس بک پر ہر شخص اشتیاق احمد مرحوم کی جدائی کے غم میں مبتلا ہے۔ ان کی وفات کے بعد دو دن سیکڑوں پوسٹیں مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتی نظر آئیں۔نئے، پرانے، چھوٹے، بڑے لکھاریوں کی ایک بڑی تعداد اشتیاق احمد مرحوم سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتی دکھائی دی۔ کوئی نثر میں ان کی ذات کو سلام پیش کر رہا تھا تو کوئی شاعری میں، غرض جس کے پاس جو فن تھا، اس نے اسی فن میں اشتیاق احمد مرحوم سے محبت کا اظہار کیا۔ مرحوم کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ اشتیاق احمد مرحوم کی کہانیاں اور ناول پڑھ کر ہمیشہ کے لیے ”مطالعہ کا روگ“ لگ گیا، جبکہ بہت سوں نے اشتیاق احمد مرحوم کی کہانیوں اور ناولوں کو اپنے لکھاری بننے کا باعث بتایا۔ میں نے تو وہ بیان کیا جو خود پڑھا، لیکن دنیا میں ان کے مداحوں نے نجانے کتنی بڑی تعداد نے کن کن الفاظ میں ان سے محبت کا اظہار کیا ہوگا۔اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔

فیس بک استعمال کرنے والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے، جو بچپن سے نکل کر جوانی میں قدم رکھ چکی ہے یا اس سے بھی بڑی عمر میں ہیں، جو یقینا اپنے بچپن میں اشتیاق احمد مرحوم کی کہانیاں اور ناول پڑھ کے ان کی گرویدہ ہوئی ہے اور آج جوانی میں بھی ان کہانیوں اور ناولوں نے عقیدت کا یہ بندھن ٹوٹنے نہیں دیا۔ میں نے خود کئی بڑے علمائ، کالم نگاروں، صحافی حضرات اورمصنفین کو اشتیاق احمد مرحوم کا مداح پایا۔ آج کی کئی بڑی بڑی شخصیات سے خود سنا کہ ہم بچپن میں اشتیاق صاحب کی کہانیاں اور ناول پڑھا کرتے تھے، جس کے باعث مطالعہ کا ذوق پیدا ہوا، لیکن جب آج ٹیکنالوجی کے جدید دور میں اس پہلو پر غور کیاجائے تو افسوس ہوتا ہے، کیونکہ اب کہانیاں پڑھنے، سننے اورسنانے کا رواج دم توڑتا جا رہاہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے بچوں کے ہاتھ سے تعمیری کہانیاں اور ناول چھین کر ان کو موبائل، فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس اپ اور دیگر بہت سی چیزوں میں مگن کردیا ہے۔ زمانہ جس تیزی سے فرلانگیں بھرتا ہوا آگے کی جانب دوڑ رہا ہے، اسی تیزی سے ہماری بہت سی مفید روایات دم توڑتی جارہی ہیں، جس میں کہانیاں سننا، سنانا اور پڑھنا بھی شامل ہے۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کو بامقصد و مفید کہانیاں سنانے کا سلسلہ ایک زمانے سے نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ بچپن میں اچھی اچھی کہانیاں سننا انتہائی زیادہ مفید ہے۔ بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ انسانی فطرت اور جذباتی میلانات سے قریب تر تربیت کا باقاعدہ اور غیر نصابی طریقہ ہے۔ کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کا یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوجاتا ہے، جب ایک بچہ بات سن کر اپنے تئیں سمجھنے لگتا ہے اور اپنے عمل اور ٹوٹی پھوٹی اور توتلی زبان اور اشاروں سے اس کا جواب بھی دینے لگتا ہے۔ اشتیاق احمد مرحوم کی تعمیری اور مثبت انداز میں لکھی گئی کہانیوں اور ناولوں نے نجانے کتنے بچوں کی تربیت کی۔ چھوٹے بچوں کے ذہن چونکہ نرم شاخوں کی مانند ہوتے ہیں، انھیں جس جانب بھی موڑا جائے یہ مڑ جاتے ہیں اور کوئی بھی بچہ کسی بات کو سن کر یا پڑھ کر فوراً اپنے تصور کی مدد سے اسے محسوس کرتا اور اپنے ذہن میں ان الفاظ یا چیزوں کی کوئی نہ کوئی شبیہ بنا لیتا ہے، اشتیاق احمد مرحوم اور بچوں کے لیے تعمیری لکھنے والے بہت سے لکھاریوں نے اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے غیرشعوری طور پر بچوں کی تربیت کی، جو بڑے ہوکر ملک و قوم کے لیے ایک اچھے شہری ثابت ہوئے۔

مطالعے کے قابل ہونے سے پہلے کہانیاں سننا خاصا کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ کہانیوں کے ذریعے بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کا یہ نہایت دلچسپ اور مفید سلسلہ بچے کے چشم تصور سے اسے ایسی دنیا کی سیر کرا رہا ہوتا ہے، جہاں وہ اپنی بہترین توجہ کے ساتھ بہت سی نئی چیزوں اور نئی باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور مختلف کیفیات کا ادراک ہوتا ہے اور خود بخود پھر ان الفاظ کے لیے معانی، شکلیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا بھی طے کر رہا ہوتا ہے۔ بچپن میں تعمیری کہانیاں پڑھنے اور سننے سے منطقی انداز میں بچے کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ بچپن میں سنائی جانے والی کہانیوں سے زبان و بیان کی تربیت اور تخیلاتی قوت بہت تیز اور فعال ہوجاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے مائیں اپنے بچوں کی کافی حد تک تربیت بامقصد و مفید کہانیاں سناکر ہی کرتی آئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت مائیں کچھ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں، لیکن اپنے بچوں کی تربیت سے کبھی بھی لاپروا نہیں رہیں، لیکن آج کل کی مائیں اگرچہ ماضی کی ماﺅں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بچوں کی تربیت کے معاملے میں خاصی کم زوری نظر آتی ہے۔ ماضی میں صرف ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی مائیں بھی بچوں کو طلسم ہوش ربا اور الف لیلہ جیسی کہانیاں سناتی تھیں۔ ان کہانیوں سے بچوں کی ذہنی صلاحیتیں، سیکھنے کے عمل اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کافی حد تک اضافہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت و روایات بھی اجاگر ہوتی تھیں۔ یہ اس کی تربیت کا ایک موثر طریقہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اچھے برے اور صحیح غلط کی تربیت میں سکھانے کے لیے نصیحتوں سے زیادہ اہم کردار مختلف قصوں اور کہانیوں کا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب صرف گھر میں مائیں ہی نہیں بلکہ اسکولوں میں اساتذہ بھی بچوں کو مختلف قسم کی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے، جس کا مقصد تدریس کے ماحول کو طلبا کے لیے دل چسپ بنانا اور انھیں ایک مثبت چیز کی طرف مائل کرنا ہوتا تھا۔

جب ہمارے یہاں ذرایع ابلاغ کی ترقی شروع ہوئی تو بچوں کی کہانیوں کے آڈیو کیسٹوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جو مائیں خود بچوں کو کہانیاں نہیں سنا پاتی تھیں، انھیں یہ سہولت ملی کہ وہ بچوں کو سنانے کے لیے بازار سے مختلف کہانیوں کے یہ کیسٹ لے آتیں۔ یوں وہ باآسانی اپنی مصروفیات جاری رکھتیں اور بچے بھی اپنی کہانی سننے میں محو رہتے۔ روزمرہ کی مصروفیات کے باعث بچوں کی کہانی سننے کا یہ دور بھی کسی نعمت سے کم نہ تھا کہ کم سے کم انھیں بذریعہ آڈیو کیسٹ ہی سہی، اچھی کہانیاں سننے کو مل رہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی دم توڑ گیا۔ کچھ بڑے بچوں میں کہانیاں پڑھنے کا بھی ایک دور رہا ہے، جس سے بچے میں خود بخود مطالعہ کرنے کا ذوق پیدا ہوجاتا تھا، جو آخر عمر تک رہتا تھا، لیکن اب تو سب کچھ ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ بچے کہانیاں نہیں پڑھتے،جس ان میںمطالعہ کرنے کا ذوق آخر عمر تک پیدا نہیں ہوتا۔ اب کہانیاں سننے اور پڑھنے کی جگہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل جیسی بے شمار چیزوں نے لے لی ہے۔ آج کل ہمارے یہاں بچے کہانی سن کر سونے کی بجائے ٹی وی دیکھتے سوتے ہیں یا پھر موبائل سے کھیلتے ہوئے سونا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ طلبہ میں مطالعہ کا ذوق معدوم ہوتا جارہا ہے اور طلبہ اپنی نصابی کتب کے سوا کسی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہترین ہو تو ہمیں اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنانے اور پڑھنے کی عادت ڈالنے کی اہمیت کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جس سے یقیناً بچوں میں تحقیق و تجسس کی صلاحیت کی بڑھوتری کے ساتھ مطالعے کا ذوق بھی پروان چڑھے گا اور ان کا آنے والا کل آج سے بہت بہتر ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.