پیرس پر حملہ ۛاستعمار و صیہونیت کی فتح

فرانس کی راجدھانی پیرس میں دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے ۔۳۲ لوگ جاں بحق ہوگئے تین سو کے قریب زخمی ہیں ۔ساری دنیا میں اظہارافسوس اوردہشت گردی سے لڑنے کے مشترکہ عزم کا اظہار کیا جارہے ۔ فرانس نے اسے اپنے ملک پر حملہ اور جنگ سے تعبیر کیا ہے ۔ اس سے قبل جب امریکی ٹریڈٹاورپرحملہ ہواتھااسوقت کے امریکی صدرجارج بش نے بھی اسے امریکہ پرحملہ قراردیاتھا اور اسکی ساری ذمہ داری اسوقت کے القاعدہ اوراسامہ بن لادن پر ڈال دی تھی اور اسامہ بن لادن نے بھی حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی تھی مگرسچ یہ ہے کہ خود امریکی ایف بی آئی اس معاملے میں ابھی تک اپنی تحقیق مکمل نہیں کرسکی ہے اور اس بات کا شبہ باربار ظاہرکیاجاتا رہاہے کہ ٹریڈ ٹاور پرحملہ کے لئے کچھ دوسری قوتیں بھی ذمہ دار ہو سکتیں ہیں مگر اس کے باوجودجارج بش نے اعلان جنگ کردیا تھااورنتیجے میں افغانستان پرامریکہ جنگ مسلط کرکے افغانستان کو خاک کے ڈھیرمیں تبدیل کردیاگیا اورآج تک افغانستان میں امریکی فوج موجودہے اسی طرح فرانس پر حملے کے فوراًبعدآئی ایس آئی ایس (داعش )کو اس حملے کا ذمہ دار قراردیاجاچکاہے اورداعش نے بھی اس سے انکارنہیں کیا ہے ۔نتیجے میں شام کے شہر رقعہ میں فرانسیسی فوج نے دو مقامات پرزبردست ہوائی حملے کئے ہیں کہاجارہاہے کہ داعش کے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایاگیاہے فرانس پر ہونے والے اس حملے کو محض سامنے سے دکھائی دینے والے حالات اور واقعات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور میڈیاجس اندازسے عموماً ان واقعات کوپیش کرتاہے ان سے بھی الگ ہوکر صاف ذہن سے مختلف واقعات اورحملوں کوسامنے رکھکر تجزیہ کیا جانا چاہئے ۔ خاص طورپریہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس قسم کے حملوں کے محرکات کیا ہیں اوران کا مقصد فوری طورپر کیا ہے ۔ طویل المدتی مقاصد کیا ہیں اور یہ مقاصد کن طاقتوں کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔

پہلی بات تویہ اس قسم کے حملے کہیں بھی ہوں اور کوئی بھی کرے قابل مذمت ہے ۔ انسانیت پر ظلم ہے ۔ انسانی لاشوں پرکھڑے ہوکر اپنی سیاسی مقصد براری کی گھناونی کوشش ہے ساری دنیانے یک زبان اس واقعے کی مذمت کی ہے ۔ خودمسلمانوں نے دنیا کے ہر مقام سے پیرس میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کے ساتھ اظہاریکجہتی کیا ہے ۔خود ہندوستان کے مسلمانوں نے عوامی سطح پر بھی اور تنظیمی سطح پربھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے ۔ جماعت اسلامی ہند ،جمعیتہ اہل حدیث ، جمعیتہ علماء ہند، مشاورت اورمسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا وغیرہ نے مذمت کی ہے ۔ دنیابھرکے انگریزی اخبارات نے مسلمانوں کی اس مذمت کوالگ عنوان بناکر پیش کیاہے ۔ تمام سوشل سائٹس ان مذمتوں سے بھر گئیں ۔مذمت ضروری بھی ہے مگر ندامت ضروری نہیں ۔ان مذمتوں میں اکثرندامتوں کاتصوربھی شامل ہے گویا مسلمانوں کی تائیدسے یہ حملہ ہوا ہواوراس عظیم انسانی سانحے کے نقصان کی ذمہ داری ہماری ہے اورہم شرمندہ ہیں۔ یہ تو وہ صورت واقعہ ہے جسکی حقیقت اسکے برعکس ہے ۔اکثردیکھنے میں آیاہے کہ اسی قسم کے واقعات جب دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں خصوصاً ایشیا ،عرب ،افریقہ وغیرہ میں تو ساری دنیااس طرح کہ ہیجانی کیفیت سے دوچارنہیں ہوتی ۔ آج اس واقعے کو گذرے چاردن ہوچکے ہیں ابھی تک عالمی میڈیا بشمول ہندوستانی میڈیا اس واقعہ پراپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے مختلف زاویوں سے مختلف انداز میں مباحثے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ اوران تمام مباحث کاایک ہی نقطہ مشترک ہے کہ داعش ایک خطرناک ترین تنظیم ہے جومسلمانوں کے درمیان سے کھڑی ہوئی ہے جس میں ہزاروں مسلم نوجوان شریک ہیں اورجن کی تعداد روز افزوں ہے اور گویا داعش کوعالمی سطح پر مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے !

پیرس کے اس واقعے کی طرح ہی امریکہ میں بھی ٹریڈٹاورکے حملے کے بعد اسی قسم کے حالات پیدا ہوئے تھے لیکن گذشتہ ہفتہ اسی داعش نے بیروت میں ایک عوامی مقام پر حملہ کرکے 60لوگوں کومار ڈالا مگرساری دنیاخاموش رہی ۔پشاورکے اسکول میں حملہ کرکے 150بچوں کو شہید کردیا گیا کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں آیا اور ان سب کے علاوہ افغانستان ،عراق ،شام ، یمن اورافریقی ممالک میں مختلف واقعات میں تقریباً 1200مسلمان یومیہ قتل کئے جاتے ہیں ۔ اور یہی داعش اس قتل عام کا بھی ذمہ دار ہوتاہے مگر دنیا اس طرح واویلا نہیں مچاتی جس طرح پیرس کے 130لوگوں کی موت پر مچاہواہے توکیامسلمانوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگرہم دہشت گردی سے ہی لڑناچاہتے ہیں تودہشت کے خلاف پروپیگنڈے کایہ دوہرہ معیارکیوں ہے ۔ یہی مہذب دنیا بیروت کے معاملے پر اتنے مجرمانہ انداز میں کیوں خاموش رہی ۔ کیایہ سمجھاجائے کہ ایشیائی مسلمانوں کاخون کم اہمیت رکھتاہے اوریوروپی عیسائیوں کاخون محترم ہے کہ ایک گورا عیسائی بھی اگرزد میں آجائے توساری دنیا میں طوفان کھڑا ہوجائے گا ۔ داعش کے ایک دہشت گرد(جان )جوعرف عام میں جہادی جان کے نام سے مشہورہے کی امریکی باشندے کی گردن کاٹنے کی ویڈیوساری دنیانے دیکھی ہے ابھی دودن قبل امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ جان کو ڈھونڈکر ماردیاگیاہے اوراس امریکی باشندے کے قتل کا انتقام لے لیا گیاہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جس طرح جان کوسات پہروں کے باوجود ڈھونڈ کر کیفرکردارتک پہنچادیاگیا ۔کیاوہی مشینری ابوبکرالبغدادی اور داعش کے دوسرے بڑے عہدے داروں کوڈھونڈ کرانھیں عالمی پیمانے پرکئے جانے والے بیہمانہ قتل عام کی پاداش میں کیفر کردارتک نہیں پہنچاسکتی ؟تویہ کیوں نہ کہاجائے کہ عالمی طاقتیں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہر ہ کررہی ہے بلکہ یہ بھی کیوں نہ کہا جائے کہ عالمی طاقتیں ہی اس دہشت گردی کے پس پشت کھڑی ہے وگرنہ کیاوجہ ہے کہ عرب کوتہس نہس کرنے والی ، افغانستان کو بربادکرنے والی خطرناک ہتھیاروں سے لیس ان جیسی مضبوط قوتیں اور مستحکم حکومتیں داعش کے چندہزارجنگجوؤں کو تباہ کرنے میں ناکام ہیں۔شام کی خانہ جنگی کوروکنے اور یمن میں سعودی بربریت کو لگام لگانے میں بھی ناکام ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس پردہ زنگاری کے پیچھے کچھ دوسرے معشوق بھی موجودہیں۔

اب آئیے پیرس پر ہونے والے حملے کے عوامل کا جائزہ لیں۔

اس حملے کامقصدکیاہے اوراس سے کس کو فائدہ پہنچنا متوقع ہے ؟ کہایہ جارہا ہے کہ پیرس پر حملے کے ذریعے داعش دنیا بھرکے میڈیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتا تھا ۔لیکن یہ غلط ہے کیوں کہ دنیا بھرکے میڈیاکی توجہ پہلے سے ہی داعش پر مرکوز ہے ۔ دوسری وجہ فرانس سے انتقام لیناہے کیوں کہ فرانس نے حجاب پر پابندی لگا رکھی ہے اوردیگر مذہبی پابندیاں بھی عائد ہیں ۔ظاہرہیکہ اس قسم کے حملے کے ذریعہ فرانس یہ پابندیاں ختم کرنے سے رہا ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں فرانس نے داعش کے خلاف سیریا میں ہوائی جنگ میں حصہ لیاتھااورداعش کے کچھ ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ تو حملے کے تیسرے ہی دن فرانس نے پھر سیریا میں داخل ہوکر داعش کے متوقع ٹھکانوں پربمباری کی ہے اگریہی تین مقاصد تھے تو تینوں ناکام رہے اور داعش سے یہ توقع کرنا کہ وہ اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ اس قسم کے مقاصد ان حملوں کے ذریعے حاصل کرناناممکن ہے یہ سب سے بڑی ناسمجھی ہے ۔ تو پھر یقیناً اس حملے کے مقاصد وہ ہیں جنکا ذکر کہیں نہیں کیا جائیگا اور کبھی نہیں کیا جائیگا اور کوئی نہیں کریگا ۔

ہمارے نزدیک اس حملے کا سب سے بڑا مقصد تھا یوروپ میں شامی مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لئے جواز فراہم کرنا تھا۔ جیسا کہ کہا بھی گیا کہ یوروپ کے تقریباًممالک میں اس وقت تقریباً30لاکھ شامی مہاجرین موجودہیں اور شام کی خانہ جنگی روسی اورشامی فوجوں کی بربریت داعش اور دیگر جنگجوتنظموں کی آپسی رساکشی اور مستقل تباہی مچانے کی وجہ سے ان شامی باشندوں کی ہجرت بھی روز افزوں ہے ۔سوادوکروڑ کی کی آبادی والے ملک شام سے تقریباً ایک کروڑ لوگ یاتو ہجرت کرچکے ہیں یا مارے جاچکے ہیں ۔ مزید لوگ ہجرت پر مجبورہیں ان کا رخ دیگر عرب ممالک کے علاوہ یوروپ کے جانب بھی ہے ۔ حالانکہ تقریباً 20لاکھ مہاجرین گذشتہ 5 سال سے اکیلے ترکی میں مقیم ہیں ۔ لیکن کچھ عرصے سے صاحب استطاعت شامیوں نے یوروپ کا رخ کیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے یوروپ شام کے قریب ہے ۔ فضا بھی حالات بھی اور معیاری زندگی بھی ۔ اسکے علاوہ یوروپ میں دیگر بہت سی آسانیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے شامی مہاجرین کا رخ یوروپ کے جانب ہوا ہے ۔ مگر یوروپ پورے طور پر ایک عیسائی خطہ ہے اور آزاد خیال معاشرہ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ بڑے پیمانے پر شامی مہاجرین کی یوروپ آمد وہاں معاشرتی اور عمرانی تبدیلیاں پیدا کرے گی نیز مسلمانوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا اور آئندہ زمانوں میں یہ بڑھتی ہوئی مسلم آبادی سیاسی طور پر مؤثر ہونے لگے گی ان حالات سے پیشگی طور پر بچنے کے لئے یوروپ کے کئی ممالک نے یاتو ان مہاجرین کوقبول کرنے سے ہی انکار کردیا تھا یا ایک قلیل تعداد متعین کر رکھی تھی کہ اس سے زیادہ وہ مہاجرین کوقبول نہیں کریں گے ۔ اس حملے کے فوراً بعد میڈیا میں جوبحث شروع ہوئی اس میں بار بار کہا گیا کہ جو شامی مہاجرین یوروپی ممالک میں آرہے ہیں ان میں سے کچھ یقیناً ہجرت کے بہانے داعش کے لڑاکے ہیں اوریہ پہچاننا مشکل ہے کہ اس میں سے کون اصل مہاجر ہے اورکون داعش چنانچہ اس قسم کی بے لگام ہجرت سے یوروپی ملک عدم تحفظ کا شکار ہوجائیں گے ۔ اوراگلے ہی دن سے بہت سے یوروپی ممالک نے ان مہاجرین کی آمد کو رد کرنے کے اعلانات شروع کردئے ۔ واضح رہے کہ یوروپ نے اقوامتحدہ کے دباؤ میں ان مہاجرین کوقبول کرنا شروع کیاتھا کیونکہ اقوام متحدہ ایک ضابطے کے مطابق مہاجرین کو قبول کرنے کی ذمہ داری تمام دستخط کنندہ ممالک کی ہے چنانچہ وہ ممالک جنھوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں وہ مہاجرین کو قبول کرنے پر مجبور ہیں ۔لیکن اس قسم کے حملے نے ان مہاجرین کی یوروپ آمد پرروک لگانے کے لئے ایک مؤثر جواز پیدا کردیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس جواز کو استعمال بھی کرلیا گیا ۔

اس سلسلے کی قابل فہم ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی اسی دوران ترکی میں بریکس اور G 20کا اجلاس ترکی میں ہورہا ہے جس میں روس امریکہ ہندوستان سمیت کئی بڑی ممالک کے صدور شرکت کررہے ہیں ۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا تو ممالک کے درمیان آپسی تعاون اور اقتصادی تعلق میں اضافے کے امکانات پر غور کرنا تھا لیکن اس حملے کے بعد ظاہر ہے کہ مجوزہ ایجنڈا پیچھے رہ گیا اور دنیا کی عظیم قوتیں دہشت گردی سے لڑنے کے پلان پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوگئیں ۔ واضح رہے کہ G 20کاقیام 2009میں فرانس میں ہی وزرائے خزانہ کے اجلاس میں عمل میں آیا تھا اور اسکا محرک 2008کا شدید عالمی معاشی بحران تھا اس فورم کے ذریعے دنیا کی85%G DP رکھنے والے ممالک کوایک دوسرے کے قریب کرکے آپسی تعاون کے ذریعے معاشی بحران سے نمٹنا تھا ایک بار پھر دنیا اسی معاشی بحران کی جانب گامزن ہے اور ترکی کی تجویز کے مطابق اس گروپ کا مقصد دنیا کی کمزور معیشتوں کو رفتا ردینا بھی ہونا چاہئے ۔اور اسی غرض سے ا س مرتبہ کے اجلاس میں آذر بائیجان ،زمبابوے اور ملیشیا جیسے ممالک موجود تھے ۔ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ اتنی اہم میٹنگ کا یہ ایجنڈا اگر دہشت گردی کی جانب موڑنے پر مجبورکردیاجائے توعالمی معاشی بحران سے نمٹنے کی تدابیر پر کون غور کریگا چنانچہ اس حملے کا براہ راست فائدہ ان طاقتوں کوپہنچے گا جو ساری دنیا کو اس عالمی معاشی بحران کی زد میں رکھنا چاہتی ہیں ۔

اس حملے کی ایک بڑی وجہ یہ دیکھتی ہے کہ گذشتہ چند سال سے فلسطینی کاز کی حمایت میں بہت سی یوروپی قوتیں کھڑی ہوئی ہیں ان میں فرانس خاص ہے اقوام متحدہ میں فلسطین کو مشاہد کی حیثیت دینے کا معاملہ ہو یا فلسطین کا جھنڈا یوان میں لگانا ہو فرانس کی حمایت رہی ہے 2007سے جاری ظالمانہ غزہ محاصرے کی مخالفت کرناہو ، تمام معاملات میں اسرائیل الگ تھلگ کھڑا نظر آتا ہے اس سے قبل امریکی تعاون سے اسرائیل کو تمام یوروپی دنیا کی تائید حاـصل تھی لیکن یونان کے موقف میں تبدلی آنے کے ساتھ ساتھ بتدریج جرمنی فرانس اور دیگر یوروپی ممالک کے موقف بھی بدلنے لگے اور فرانس ان میں پیش پیش رہا ہے ۔ گذشتہ ماہ اسرائیل صدر نیتن یاہو نے فرانس کو دھمکی بھی دی تھی کہ وہ فلسطین کی حمایت سے باز آجائے مگر اسکا کوئی اثر ہوتا نہیں دکھائی دے رہا تھا ۔ اس حملے کے بعد داعش کے نام کی دہشت پیدا کرکے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مہمیز دینے کے نام پر حماس کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھکر اسکے خلاف بھی عالمی رائے عامہ بیدار کرکے اسکی روز افزوں یوروپی حمایت کو روکنے میں گراں قدر مدد ملے گی ۔ اور یہ ہدف بھی حاصل ہوتا نظر آرہاہے اس حملے کی ایک وجہ تو ظاہرہے کہ حملے بعد کی پبلیسٹی ساری دنیا میں ہمیشہ اسلام کے خلاف نفرت بڑھانے میں معاون ہوتی ہے اب جو سب سے زیادہ اہم وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ شام کے اندر دیگر یوروپی ممالک کے لئے فوج کشی کو جواز فراہم کرنا ہے ۔ بشارالاسد کی حمایت میں داعش کو ختم کرنے کے نام پر روس کی جانب سے کی جانے والی پیش قدمی نے امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کو شش وپنج میں ڈال رکھا تھا کہ اگر شام میں روس تنہاہی داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہا توا س کے دونتائج سامنے آسکتے تھے ۔ایک تویہ کہ وہ داعش جو امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعاون سے شام کی خانہ جنگی کو ایک لمبے عرصے تک ختم نہ ہونے دینے میں مددگار ثابت ہورہا تھا اور بشارالاسد کو بھی قائم رکھنے میں معاونت کررہا تھا وہ داعش ختم نہ ہوجائے ۔ ادھر شام میں بشار الاسد کے تعلق سے روس کی پالیسی میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے اب وہ اس بات پر اصرار نہیں کررہا ہے کہ بشارالاسد بحیثیت صدر وہاں قائم رہیں بلکہ وہ انکا متبادل ڈھونڈ رہا ہے ۔ اور اگر روس کو بشار الاسد کامتبادل مل جاتا ہے تو یہ خطے میں امریکی مفادات کو لے ڈوبے گا اور پورے علاقے میں روس کے سیاسی اثررسوخ میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا ۔ اسکے پڑوسی ملک مصر میں بھی روس کے تعلقات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسے میں اس عرب علاقے میں یوروپی مفادات کو زبردست دھچکا پہنچے گا ۔ پیرس میں حملے کے فوراًبعد ہی امریکہ اور فرانس نے رقعہ میں بمباری کی اور ادھر ویانا میں ایک ایمرجنسی کنونشن فوراً طلب کیا گیا جس میں طے ہوا کہ اگلے دو ماہ میں شام میں ایک دیگر عبوری حکومت کے قیام کی کوشش کی جائے اوربعد میں اگلے 18ماہ کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں ۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کو خاتمہ عنقریب ہے ۔ اور رساکشی اس پر ہوگی کہ اگلی حکومت روس کی حلیف ہوگی یا یوروپ کی !

ان حالات میں یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ پیرس میں ہونے والا حملہ داعش کی کاروائی نہیں ہے ۔بلکہ موساد ، ایف بی آئی اور ایم آئی فائف کی مشترکہ کاروائی ہے ۔ جسکی بندوق داعش کے کندھوں پر رکھی گئی ہے ۔ داعش خود بھی انھیں ممالک کی کٹھ پتلی ہے ہے اسے بھی اپنی غرض سے اپنا کندھا پیش کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے ۔

نقصان صرف عالم اسلام کاہے شام کی سرزمین عالمی طاقتوں کو اپنی برتری ثابت کرنیکا میدان بن چکی ہے ۔ اور چند سو محترم انسانی جانوں کے اتلاف کی قیمت پر اس برتری کو حاصل کرنے کا جواز نامہ مہیا کرنا ان استعماری ، صہیونی قوتوں کے لئے کوئی مہنگا سودا توہے نہیں ۔
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24456 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More