تحریر : اویس نواز رانا
وزیر اعظم نواز شریف نے سرمایہ کاری مجلس میں تقریر کرتے ہوے جہوری و لبرل
پاکستان کو خیر کا راستہ بتایا- وزیراعظم نواز شریف کے اپنے افکار اور ان
کی خاندانی تاریخ ایک اسلامی تشخص کا عکس پیش کرتی ہے- پاکستان کی سیاست
میں بھی ان کا حصہ ان لوگوں کا ہے جو نہ تو اسلام کو جیل کی طرح چاہتے ہیں
اور نہ اسلام کے دائرے سے نکل کر لبرل ہونا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی اکثریت
اسلام پسند ہے اسی لیے انھوں نے نواز شریف جیسے معتدل انسان کو اپنے ووٹوں
سے نوازا ہے۔ پاکستان میں اب جمہوریت بھی اور ہر طرح کی آزادی بھی۔ میڈیا
اپنا رول اپنے پورے اختیار سے ادا کر رہا ہے۔ اس لیے لفظی معانوں کے اعتبار
سے تو یہ بات فخریہ تو پر پیش کرنے والی تھی لیکن "لبرل" لفظ ایک علامتی
حثیت بھی رکھتا ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب نے یہ اس علامت کو ظاہر کرنے کیلئے
استعمال کیا تو یقیناً انہوں نے اکثریت پاکستانیوں اور خاصکر اپنے مداحوں
کو مایوس کیا ہے۔ پاکستان لبرل پسند لوگوں کی تعدار آٹے میں نمک کے برابر
ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی مادر پدر آزادی نہیں چاہتا کوئی بھی اﷲ سے دور
اور اس کے احکامات کو ماننے سے انکاری نہیں ہے۔ تو کیا پھر ہمارا توکل علی
اﷲ کا عملی مظاہرہ یہ ہی ہے چند پیسے والوں کو خوش کرنے کیلیے ھم نے اپنی
مذھبی اور معاشرتی ذمہ داری سے منہ پھیر لیا- بہر حال ابھی تک وزیراعظم
صاحب کی طرف سے اس کی وضاحت نہیں آئی جو کہ آنا ضروری ہے۔ کیا انھوں نے یہ
لفظ لغوی معانوں میں استعمال کیا یا علامتی -
ھم روز مرہ تین نام بہت زور شور سے سنتے ہیں جمہوری، لبرل اور سیکولرازم۔
اور ہمیں ایسا بتایا جاتا ہے کہ یہ اسلام دشمن ھے یا یہ کوئی بہت بڑا تحفہ
ھے جو مغرب ہمیں دینا چاہتی ھے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت ، لبرل اور
سیکولرازم کیا ہے اور اس کا موجد کون ہے۔ شاید نہیں اگر ہم جانتے ہوتے تو
دشمنانے اسلام کا پراپوگنڈہ اتنا کامیاب نہ ہوتا کہ وہ ہمارے معاشرے میں
تقسیم پیدا کر دیتا کہ یہ مذہبی گروہ ہے اور یہ لبرل پسند ہیں۔
اسلام کے آنے سے پہلے اس دنیا میں ان تینوں ناموں کا کوئی وجود نہیں تھا۔
ملک تو موجود تھے معاشرہ تو موجود تھا لیکن قانون جنگل کا تھا۔ یہ سہرا
اسلام کو جاتا ہے جس نے اس معاشرے کو یہ تین چیزیں دی۔
جمہوریت: اسلام سے پہلے اس دنیا میں ملک کا حاکم بادشاہ کہلاتا تھا اور بعض
معاشروں میں تو اسے خدا کا اوتار سمجھا جاتا تھا- حکمرانی کا شعبہ ایک شخص
اور ایک خاندان کے نام تھا۔ اس کے حصول اور مضبوطی کیلیے نہ صرف بلکہ اس کو
پھیلانے کیلیے بھی ہزاروں معصوم لوگوں کو قربان کر دیا جاتا تھا۔ دنیا میں
جمہوریت پہلی دفعہ اسلام نے روشناس کرائی اور ملک کا نظام چلانے کیلئے
مشاورت کو قائم کیا، حکمران کا انتخاب مشاورت سے ہوا۔ اس کی طاقت کا سرچشمہ
تقوی قرار پایا۔ اور عوام کی طاقت و جان ملک کی سرحدیں حاکم کی حاکمیت
پھیلانے کیلیے بلکہ اﷲ تعالی کا پیغام پھیلانے کیلیے استعمال ہونے لگی۔ اس
لیے بنی نوع انسان نے اس کو بغیر کسی تاخیر قبول کرنا شروع کر دیا جو کہ
دشمنانے اسلام کیلیے مقام فکر تھا۔
لبرل : اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ لبرل یعنی آزادی کی پہچان کیا ہے تو میں
فورا کہہ دونگا کہ اس معاشرے کی عورت کو دیکھ لو، عورت جتنی خوشحال ہوگی وہ
معاشرہ اتنا آزاد پسند ہوگا۔ اسلام کے آنے سے پہلے اگر ہم اس دنیا میں
کمزور انسان اور عورت کے وجود کا تصور ذہین میں لاے تو ہمارا جسم تو کیا
ہماری روح بھی کانپ جاے گی۔ کمزور انسان غلام رکھے جاتے تھے عورت طاقت ور
انسان کے حوس کی خوراک کے طور پر معاشرے کا حصہ تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں آزاد
لوگوں میں بھی تقسیم تھی جو کہ آج بھی معاشروں میں نظر آتی ھے - جو جتنا
طاقتور تھا قانون اس کیلیے اتنا نرم تھا۔ اسلام نے آتے ہیں انسانی معاشرے
میں طبقے ختم کیے - غلام تو کیا اس کا نظریہ بھی نیست و نابوزہو گیا۔ عورت
کہ معاشرے میں نہ صرف عزت و وقار ملا بلکہ اس کے حقوق بھی تسلیم کیے گے۔ اس
کے حق مہر، وراثت مقرر کی گی۔ اس کا نان نفقہ ہی نہیں بلکہ دودھ پلانے کی
ذمہ داری کا احساس کیا گیا۔ ان سب سے بڑھ کر انسانی معاشرے میں احکام الہی
کو قانون کی شکل دی گی جس میں حاکم و محکوم سب برابر تھے۔ ہر جرم کرنے کی
پاداش میں سزا تھی۔ جس کیوجہ سے معاشرے میں عام آدمی کو آزادی حاصل ہوئی۔
یہ چیزیں دنیا میں نہ تھی جو عین انسانی فطرت کے مطابق تھی جس کے وجہ سے
لوگ جوق در جوق اسلامی معاشرے کا حصہ بننے لگے جس نے دشمنانے اسلام کی
تعداد میں بھی اضافہ کیا اور ان کی نہ صرف حاکمیت، عیاشی چھینی بلکہ نیندیں
بھی اڑا دی۔
سیکولرازم: مساوات نام کی کوئی چیز دنیا میں نہ تھی۔ اسلام سے پہلے دنیا نہ
صرف ملکوں یا مذھبوں میں بنٹی ہوئی تھی بلکہ ایک معاشرے اور مذھب میں بھی
طبقے تھے۔ کوئی چھوٹا کسی بڑے کے ساتھ بیٹھنے تو کیا اس کی چیز کو بھی ہاتھ
لگانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں طبقات کے نہ صرف رہن سہن میں فرق
تھا بلکہ قانون بھی علیحدہ علیحدہ تھے۔ ایک انسان دوسرے انسان کا خدا بنا
ھوا تھا۔ جب اسلام آیا تو دنیا نے دیکھا کہ ایک حبشی اپنے آقا کا منظور نظر
ھے، عوام کا ایک عام آدمی اپنے حکمران سے قمیض جیسے ناچیز کپڑے کا حساب
مانگ رہا ہے۔ اس مذہب کو پہنچانے والے نے اپنے دین کے تکمیل پر جو خطبہ دیا
وہ سیکولر ازم کی ایسی مثال ہے کہ تا قیامت یہ دنیا اس کی مثال کا کوئی
خطبہ یا تقریر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتا۔ دنیا میں مظلوم لوگوں نے جب
اپنے اپ کو اتنا باوقار پایا تو وہ اسلامی معاشرے کے باسی بنے میں کسی عجلت
سے کام نہیں لیا- دشمنانے اسلام اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ
ہمارے پاں میں بیٹھنے والا آج ھمارے برابر کھڑا ہے۔ ان کی انا نے ان کے دن
کا چین اور کھانا پینا حرام کردیا۔
یہاں پر آکر اس مسلے نے جنم لیا جس سے آج ہم سب دوچار ہیں اور تقسیم کا
شکار ہیں۔ دشمنانے اسلام سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور نہ پیدا ہونے والی صورتحال
کا مقابلہ کرنے کیلئے حل تلاش کرینے لگے۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ خالق
کائنات کی دی ہوئی چیزوں کے برابر تو کیا اس کے نزدیک ترین کی بھی کوئی چیز
انسان اپنے طور پر اس دنیا کو دے سکے۔ یہ چیلنج تو ہمیں خود قران میں بھی
ملتا ہے اور خانہ کعبہ میں لٹکی ایک قرآنی سورت کا واقعہ بتاتا ہے کہ علم و
فضل سے بھرا معاشرہ ایک لائن نہ لکھ سکا۔
شیطان نے شیطانی ذھین میں اپنی جگہ اور وسیع کہ اور انھیں دھوکہ دینے کا گر
سیکھایا اور ان تینوں چیزوں جمہوری، لبرل ، سیکولر ازم کا ایک خوبصورت ریپر
(وہ کاغذ جس میں تحفہ لیپٹ کر دیا جاتا ہے) پیش کیا اور اس طرح ان شیطانی
ذہنوں نے اپنے ناکام ہتکھنڈے اس ریپر میں لیپٹ کر دنیا کو پیش کیے جس کی
وجہ سے عام آدمی ان کے دھوکے میں آتا چلا گیا اور یوں دشمنانے اسلام نے
اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دے اور وہ اس معاشرے میں پھر سے حاوی
ہونے لگے۔ ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی چالاکی اتنی کام نہیں آئی جتنی ھم
لوگوں کی اسلام سے دوری نے ان کی مدد کی۔ ہم مسلمان تو ہو گے لیکن ہم نہ
خود عملا مسلمان ہوے نہ ہمارا معاشرہ اسلامی ہو سکا جس کی وجہ سے نہ ہمارے
کمزور کو تحفظ ملا نہ ہماری بہن بیٹی کو اس کا حق ملا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ
لوگ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو سبز باغ دیکھا کر بہکانے میں کامیاب ہو گے
حالانکہ ان کے اپنے معاشرے میں ان کو پسپائی کا سامنا ہے اور وہاں اسلام
اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
وزیراعظم صاحب جمہوری، لبرل اور سیکولر ازم کے یہ لغوی معانی ہیں۔ اس کے
علاوہ کسی میں عافیت نہیں اب آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ اصل جمہوری، لبرل
و سیکولر نظام چاھتے ہو…… یا علامتی جو صرف ریپر کی حد تک ہی محدود ہے۔ یہ
فیصلہ آپ کو نہیں کرنا بلکہ آپ نے عوام کے فیصلے پر چلنا ہے جو اصل اور با
معنی جمہوری ، لبرل اور سیکولر نظام چاہتے ہیں۔ جھوٹ کبھی پائیدار نہیں
ھوتا ماضی قریب میں کمیونزم نے دم توڑا اور آج سیکولر ازم نہ صرف بھارت میں
ذلیل ہو رہا ہے بلکہ زخموں سے چور ہو کر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ عقلمند کو
اشارہ کافی ہوتا ہے۔ |