پیرس حملے دوسرا نائن الیون

گذشتہ روز جمعہ کی شب جب فرانس کے شہرپیرس میں خود کش حملے ہوئے تو دو سو کے قریب انسان لقمۂ اجل اور متعدد زخمی ہوئے تو یورپ میں ایک خوف وہراس کی کیفیت چھا گئی ،ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے والے یہ لوگ زندگیاں بچانے کیلئے نظام زیست اور کاروبار روک کر گھروں میں بیٹھ گئے ،ساری دنیا سے مذمتی بیانات آنا شروع ہوگئے اسلامی دنیا نے بھی اس واردات کی مذمت کی ،واقعہ کے بعدیہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب سے پیر س میں حملے ہوئے ہیں تب سے یورپ کے مسلمانوں پر زمین تنگ ہونا شروع ہوگئی ہے شہہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبریں بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں کہ یورپ ومغرب میں اسلام اور اہل اسلام ،اسلامی مراکز مساجد پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ مطالبہ یورپ ومغرب کے متعصب حلقوں کی طرف سے کیاگیاہے یعنی ارداۃًحالیہ حملے کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے بغیر کسی تحقیق کے اس واقعہ کو مسلمانوں سے نتھی کرنا سراسر حماقت ثابت ہوگا اس کے منفی ترین اثرات مرتب ہوں گے اسی طرح ساحلی شہرکیلے کے قریب پناہ گزین مسلمانوں کے کیمپوں کو جلانا اسلام دشمنی نہیں تواور کیاہے ،کیا یورپ اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ یورپ میں اسلام پر پابندی سے مسائل حل ہوجائیں گے یا بڑھیں گے؟یقیناًاس سے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا اس متعصبانہ فیصلے یا منفی عمل سے یورپ کی جہاں ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے وہاں ہی ان کی لاعلمی ،کم عقلی یا دجل وفریب کا عنصر بھی واضح نظر آرہا ہے ماضی قریب میں بھی افغانستان اور عراق میں بلا تحقیق وتفتیش حملے کئے گئے جس کے بھیانک نتائج یورپ ومغرب کو برداشت کرنا پڑے اور اب یورپ ومغرب عراق حملے پرنادم اور دنیا سے معافی مانگتا نظر آرہا ہے کیا ان کی معافی سے عراقی مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوجائے گا؟کیا ان کی معافیاں قصاص ہیں یا نہیں؟ ہرگز،ہرگز نہیں ۔توپھر مسلمانوں کے خلاف انتقام کاروائیوں کا سلسلہ کب رکے گا؟ ۔ایک بارپھریورپ اسی طرز عمل کو دہرانے جارہا ہے ،ان کی پالیسیوں میں ہر باراسلام دشمنی کا پہلو ہی کیوں دیکھائی دیتا ہے،کیا ایسی کاروائیوں کے پیچھے کوئی اور قوت کارفرما تو نہیں جو یورپ ومغرب کو اسلام سے دست وگریبان کرواکر اپنے ناپاک عزائم حاصل کرنا چاہتی ہو ۔یقیناً ایسا ہی ہے وہ آستین کا سانپ اسرائیل ہو سکتا ہے جس نے ہمیشہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے منقفقانہ طرز عمل کو اپنائے رکھا خفیہ منصوبہ بندیاں جاری رکھیں اس واقعہ سے اسرائیل کو نظر انداز کرنا اور اسے کلین چٹ دے دینا کسی صورت درست نہ ہوگا بلکہ سراسر حماقت ہوگی اسرائیل دنیا کا امن تباہ کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال ہمیشہ سے کرتا آیا ہے دنیا پیرس حملوں میں اسرائیل کی سازشوں کو یکسر نظر انداز نہ کرے اسرائیلی وزیراعظم کی کھلے الفاظ میں دی جانے والی دھمکی کو بھی مدنظر رکھا جائے ۔

ہم یہاں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یورپ ومغرب کو عالمی امن قائم کرنے کیلئے دہر معیار ترک کرنا ہوگا جو موسموں کی طرح بدلتا رہتا ہے،مسلمانوں کو بے گناہ ہونے کے باجود قتل کرنے سے دنیا انتقامی صورت حال سے دوچار ہو گئی ہے ،بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی اس جرم کا ارتکاب سب سے پہلے یورپ ومغرب نے کیا۔اسوقت بھی کرہ ارض بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے جس کھرایورپ ومغرب پر جا کر رکتا ہے ،اگر دہرا معیار ختم نہ کیا گیا تو عالمی امن ایک خواب ہی رہے گا ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر مذہب کے انسان کو تمام انسانی حقوق بلا امتیاز دئیے جائیں انھیں اپنے مذہب ودین کے مطابق زندگی کزارنے کے مواقعے دئیے جائیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا دنیا پر اپنی ظالمانہ اجارہداری قائم رکھنے کیلئے عالمی ساہوکاروں نے ہر ظلم کو مسلمانوں پر ہی آزمایا جس کے نتیجے میں نان سٹیٹ عناصر جہادی قوتوں کی شکل میں نمودار ہوئے مسلمانوں کے جہادی عناصر نے اہل یورپ ومغرب کی نا انصافی کو ختم کرنے کیلئے عسکریت پسندی کی راہ کو اپنایا افغانستان میں ملا عمر ؒ کی قیادت میں ان عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو منہ کی کھانی پڑی آج دنیا سے محفوظ راستے کی پناہ مانگ رہے ہیں اسی طرح دنیا بھر سے مسلح لوگ اٹھے اس کے ساتھ ہی مسلم عسکریت پسندوں کے نام پر جعلی اسی نام سے گروپ تشکیل دئیے گئے جنھوں نے ان کے نام پر کاروائیاں کرکے ان گروپوں،اسلام اور اہل اسلام کیلئے مشکلات پیدا کیں ،حالیہ پیرس حملے جس نے بھی کئے ان کی حمایت قطعاً نہیں کی جاسکتی یہ غیر اسلامی فعل ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ یہ حملے یورپ ومغرب کے دہرے معیار ،ناکام پالیسیوں کا ردعمل ہیں ،پیرس حملوں کی آڑ میں اسلام اور اہل اسلام پر لشکر کشی اسلام سے کھلی دشمنی کے مترادف ہے مسلمان فرانسس میں اسلام اور مسلمانوں پر پابندی لگانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اس سے اسلام دشمنی کی بو آرہی ہے اسلام امن کا داعی ہے اسلام اور اہل اسلام خود دہشت گردی کا شکار ہیں ،جس کے تانے بانے یہودوہنود،یورپ ومغرب سے جاکر ملتے ہیں مسلمانوں کو دنیا سے کرش کرنے کیلئے صلیبی جنگ کا آغاز اہل صلیب نے الاعلان کیا اسی اصول پر آج بھی عمل ہورہا ہے ۔دنیا عالم اسلام کے خلاف انتقامی کاروائیوں کی بجائے تعمیری سوچ کو اپنائے تخریبی سوچ اپنائی گئی تو ردعمل ضرور آئے گا جسکے منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے پیرس حملوں کی مسلم دنیا اب بھی مذمت کررہی ہے تشدد کا راستہ سب سے پہلے یورپ ومغرب کو ترک کرنا ہوگا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیرس حملے مسلم دنیا کیلئے دوسرا نائن الیون ثابت ہوسکتے ہیں اسلئے مسلم دنیا کو چاہیے کہ دشمن کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے منت سماجت کی بجائے وحدت(خلافت)قائم کرکے ان کی سازشوں کا مقابلہ کرے۔ دوسرانائن الیون پیرس حملوں کے نتیجے میں ہوگا اگر وقت سے پہلے تیاری نہ کی گئی تومتوقعہ جاری ہونے والی تیسری عالمی جنگ میں بھی مسلم دنیا کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.