آئی ایس آئی ایس اسرائیل کا دوسرا چہرہ تو نہیں۰۰۰؟
(Dr M A Rasheed Junaid, India)
فرانس میں دہشت گردی کے
واقعات کے لئے ذمہ دار کون؟
آئی ایس آئی ایس یا اسرائیل
کہیں آئی ایس کا دوسرا نام اسرائیل تو نہیں؟
یہ ہم نہیں بلکہ خود امریکی اخبارات کا دعویٰ ہیکہ فرانس میں دہشت گردی کے
حالیہ واقعات کے لئے اسرائیل ذمہ دار ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 9/11کو
نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوین ٹاؤرس پر حملے کے لئے اسرائیلی خفیہ
ایجنسی موساد ذمہ دار ہے۔ ایک ایسے وقت جب فرانس میں الیکشن ہونے والے ہیں
13/11کوپیرس میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے دہل گیا ، عالمی سطح پر فرانس
میں ہونے والے چھ مقامات پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ۔ اس سے قبل
11/9کو بھی فرانس میں دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں ۔ عالمی سطح پر سب سے بڑا
اور خطرناک حملہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکہ میں 9/11کو ہوا تھا جس کے بعد
مسلمانوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد بتانے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کے
26/11ممبئی میں ہونے والے حملوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، بتایا
جارہا ہے کہ ممبئی اور پیرس میں ہونے والے حملوں میں مطابق پائی جاتی ہے
البتہ ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد سیاست کھیلی گئی اور مہاراشٹرا کے
چیف منسٹر کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑی، جبکہ پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد
فرانس کی تمام جماعتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے متحد نظر آتی ہیں جو دہشت
گردی سے نمٹنے کے لئے ہر طرح کا تعاون کرنے کا حکومت تیقن دیا ہے۔پیرس میں
ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس )نے قبول کی۔
اگر واقعی دولت اسلامیہ ان حملوں کی ذمہ دار ہے تو اس کی بڑھتی ہوئی طاقت
کا اندازہ لگانا محال نظر آتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دولت اسلامیہ کو ہر
روز مختلف ذرائع سے 3ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جو سالانہ دو ملین ڈالرس
سے زائد ہے۔ رپورٹس کے مطابق عراق اور شام میں دولت اسلامیہ 11تیل کے کنوؤں
پر کنٹرول رکھتی ہے۔ فرانس میں حملے کے بعد دوشنبہ کو ترکی میں G-20سربراہ
ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادمیرپوتن نے کہا کہ دولت
اسلامیہ کو تقریباً 40ممالک سے امداد ملتی ہے جس میں G-20کے بعض ممالک بھی
شامل ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مشترکہ کارروائی کرنے کا عزم
G-20سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی کیا گیا اور جو فنڈس دولت اسلامیہ کو
فراہم کررہے ہیں انکے خلاف سخت کارروائی کرنے کی وارننگ دی گئی۔صدر فرانس
کے مطابق ان حملوں کا منصوبہ شام میں بنایا گیا جبکہ بلجیم میں تیاری کی
گئی۔ فرانسیسی صدر فرانسواولانڈ نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے
ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کو ہونے والے حملوں کے بعد فرانس خود کو دولت اسلامیہ
کہنے والی شدت پسند تنظیم کو تباہ کرنے کے لئے پُر عزم ہے۔انہوں نے مزید
کہا کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف جاری فرانس کی فوجی
کارروائیوں میں مزید شدت پیدا کردی جائے گی۔ صدر فرانس کا کہنا تھا کہ وہ
صدر شام بشارالاسد کے اقتدار میں رہنے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کا اصل
دشمن شام میں دولت اسلامیہ ہے۔ فرانسیسی صدر آئندہ چند دنوں میں امریکی صدر
بارک اوباما اور روسی صدر ولادمیر پوتن سے ملاقات کرنے والے ہیں جو دولت
اسلامیہ کے خلاف آئندہ کی کارروائی کیلئے غور و خوص کریں گے۔
پیرس میں جمعہ کی رات ہونے والے حملوں کے بعد فرانس نے شام پر حملوں میں
تیزی پیدا کرتے ہوئے 20بم حملے کئے ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے
دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر کئے گئے ہیں۔شام پر کئے جانے والے ان حملوں میں
کتنے معصوم اور بے قصور افراد اور بچے و خواتین ہلاک ہوئے اس کی کوئی رپورٹ
نہیں۔شام میں امریکہ، فرانس ، روس اور دیگر اتحادی ممالک کی فضائی
کارروائیوں میں کتنے شامی افراد ہر روز ہلاک ہورہے ہیں اس کا نہ تو کوئی
اندازہ ہے اور نہ کوئی ان بے قصور اور معصوم بچوں، بوڑھوں، خواتین کیلئے
ہمدردی کا اظہار کررہا ہے۔عراق ، شام، افغانستان وغیرہ میں دہشت گردی کا
آغاز کب سے ہوا اس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عراقی صدرصدام حسین
کی مضبوط قیادت والی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے جس طرح الزام عائد کرکے
فضائی حملوں کا آغام کیا گیا اس کے بعد سے یہاں کے حالات بگڑتے گئے جسے آج
دہشت گردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔عراق اور شام پر ہر روز فضائی حملے، بم
دھماکے، فائرنگ کے ذریعہ جو ہلاکتیں ہورہی ہیں اس سلسلہ میں انٹرنیٹ کے
ذریعہ عام لوگوں کی رائے کچھ اس طرح ہے۔ ٹوئٹر پر شام کے لئے دعاؤں کا
ٹرینڈ شروع ہوا ہے۔ اس ٹرینڈ میں دنیا بھر سے ہزاروں افراد شام میں تشدد کے
مختلف واقعات، حملوں ، دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ، زخمی اور بے گھر ہونے
والے افراد خصوصاً بچوں کی تصاویر شیئر کررہے ہیں۔ایک ٹویٹریالطیف نے ٹوئٹ
کیا ہے کہ ’’ معصوم بچے بغیر کسی جرم کے قتل ہورہے ہیں ، انصاف کہاں ہے؟
کیا مسلمانوں کا خون پانی ہے اور دوسروں کا خون سرخ؟‘‘۔ ایک ٹیوئٹ Simply
Joyceنے لکھا ہے کہ ’’معصوم لوگ اس طرح کے سلوک کے مستحق نہیں۔ ان قسم کے
حملوں کے پیچھے کارفرما لوگوں کو صرف اس بنیاد پر کہ وہ کچھ ثابت کرنا
چاہتے ہیں، دوسروں کی جانیں لینے کا حق نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ محمد الیاس خان
نے ٹوئٹ کیا ہے : ’’اگر حملہ آور فرانسیسی شہری تھے تو فرانس کو پہلے ان کی
پناہ گاہوں پر بمباری کرنی چاہیے‘۔ایک ٹوئٹ Ziziنے کیا ہے کہ’’شام کے
شہریوں کو مارا نہیں جانا چاہیے۔ وہ معصوم ہیں اسی طرح جس طرح پیرس میں
حملوں کا شکار ہونے والے ہیں‘‘۔یہ چند افراد کے شامی معصوموں کے لئے ہمدردی
کے پیغامات تھے ۔
پیرس میں ہونے والے حملوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر غم و
غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد بتانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری
جانب دولت اسلامیہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔جس طرح بتایا جارہا ہے کہ
دولت اسلامیہ مسلمانوں کی تنظیم نہیں بلکہ اسرائیلی ایجنٹوں کی تنظیم ہے جو
مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بنائی گئی البتہ اس سے وابستہ ہونے والوں
میں ایسے مسلم نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے جو شام اور عراق میں معصوم لوگوں
کی ہلاکت اور تباہ و بربادی کو دیکھ کر جہاد کے نام پر مرمٹنے تیار ہورہے
ہیں اور ہوسکتا ہے کہ دشمنانِ اسلام ایک طرف عام مقامات پر حملے کرکے اپنے
ناپاک عزائم میں کامیاب ہورہے ہیں تو دوسری جانب مسلم نوجوانوں کو اسلامی
دہشت گردی کے نام پر متحد کرکے ہلاک کررہے ہیں یعنی دونوں جانب مسلمانوں کا
خون بہاکر اپنی سازشوں میں کامیاب ہورہے ہیں۔
اگر واقعی دولت اسلامیہ اتنی مضبوط ہوچکی ہے تو اس سلسلہ میں عالمی رائے
کچھ اس طرح پائی جاتی ہے۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پیرس میں
حملے معاشرے کو مزید تقسیم کردیں گے جس سے اس جہادی گروہ کو یورپ میں نئے
ارکان کو بھرتی کرنے میں مزید آسانی ہوگی۔ ان حملوں میں ریستورانوں ، بار ،
اسٹیڈیم او رایک کنسرٹ ہال کا انتخاب کیوں کیا گیا اس سلسلہ میں ناروے کی
وزارت دفاع کے تحقیقاتی ادارے ’ڈیفنس ریسرچ اسٹیبلشمنٹ‘ کے سینئر رکن اور’’
اسلامسٹ ٹیررزم ان یوروپ ‘‘کتاب کے مصنف ڈاکٹر پیترنیسر نے بی بی سی کو
دیئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ حالیہ عرصے میں یورپ میں دہشت گردی کے
بلاتفریق حملوں کا ایک مقصد یورپ میں شدت پسندی کو فروغ دینا اور اس کا
اسٹریٹیجک مقصد یوروپی ممالک کو مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کرنے سے
بازرکھنا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ماہر کامران بخاری کے مطابق
دولت اسلامیہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں سے باہر بھی
کسی مقام پر اپنی عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔پیرس میں ہونے والے
حملوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس نے خود کو پہلے سے زیادہ منظم
کیا ہے جس سے یہ زیادہ مہلک ہوگئی ہے اور کسی مقام پر شدت پسندی کی ایک بڑی
کارروائی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر دولت
اسلامیہ کی ذمہ داری کرنے کے بیانات مصدقہ ہیں تو اب دولت اسلامیہ محض ایک
دہشت گرد گروپ نہیں رہا، بلکہ ایک منظم عسکری قوت بن کر سامنے آئی ہے جس کے
پاس خفیہ معلومات سمیت دیگر عسکری صلاحیتیں موجود ہیں۔اس قسم کے بین
الاقوامی حملے وسیع لاجسٹکس ، تربیت ، وسائل اور ایک انٹیلی جنس سروس کی
موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یعنی دولت اسلامیہ اب ایک بظاہر ریاست جیسا
برتاؤ کررہی ہے۔ دولت اسلامیہ نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ فرانس اور
وہ ممالک جو اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں انہیں معلوم رہے کہ وہ دولت
اسلامیہ کے اہداف میں سرفہرست ہیں۔ پیرس پر حملے کو ایک طوفان کا آغاز
بتاتے ہوئے اسے سننے اور سمجھنے والوں کے لئے وارننگ کہا ہے۔ڈاکٹر نیسر کے
مطابق جہادیوں کے دشمنوں کی فہرست میں فرانس سرفہرست ہے کیونکہ وہ 1990ء
میں الجیریا میں فرانس کی وابستگی، مالی کے آپریشن اور شام میں فرانس کے
کردار کا حوالہ دیتے ہیں۔دولت اسلامیہ کے شدت پسند یا اسرائیلی جانتے ہیں
ان حملوں سے وہ مسلمانوں اور مغربی ممالک کے درمیان خلیج کو مزید بڑھا سکتے
ہیں ، کشیدگی میں اضافہ کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بڑھاوا
دے کر انہیں بڑے پیمانے پر تازہ خون مہیا کرسکتے ہیں۔پیرس پر حملے کے بعد
عالمی رائے ہموار ہوئی ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اسلامی ممالک پر
مزید سخت کارروائیاں کیں جائیں گی جبکہ ہوسکتا ہے کہ دولت اسلامیہ کو فنڈ
فراہم کرنے کے نام پر G-20کے ان ممالک کو گھیرا جائے گا جو ان عالمی سوپر
پاور ممالک کی آنکھوں کا کانٹا بن رہے ہیں۔پیرس حملے کے امریکی صدر بارک
اوباما نے اس کی مذمت کی ہے اور دولت اسلامیہ کے خلاف مزید سخت کارروائی کا
اشارہ دیا ہے لیکن امریکی فوج کو شام میں تعینات کرنے سے انکار کیا ہے۔
تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لئے نئی مشکلات
شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں تارکین وطن یورپ کا رخ کئے ہیں
جبکہ امریکہ نے آئندہ 12ماہ کے دوران دس ہزار شامی پناہ گزینوں کو پناہ
دینے کا اعلان کررکھا ہے لیکن اب پیرس میں حملوں کے بعد ان پناہ گزینوں کے
لئے حالات بگڑتے نظر آرہے ہیں،امریکہ کی17 ریاستوں نے پیرس میں حملوں کے
بعد سیکیوریٹی خدشات کی وجہ سے شامی تارکین وطن کو پناہ دینے کے عمل کو روک
دیا ہے۔یورپی کمیشن کے سربراہ یان کلاڈینکر نے تنبیہ کی ہے کہ پیرس میں
ہونے والے حملوں کے بعد یورپی ممالک کو مہاجرین کو قبول نہ کرنے کا ’’ردعمل
‘‘نہیں کرنا چاہے۔کلاڈہنکر کا یہ بیان ایک حملہ آور کی لاش کے قریب سے
مبینہ طور پرشامی پاسپورٹ ملنے کے بعد سامنے آیا ۔ اس پاسپورٹ کی قانونی
طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے ۔ ترکی میں ہونے والی جی 20کانفرنس کے موقع پر
کلاڈہنکر نے کہا کہ ہمیں یورپ آنے والے مختلف قسم کے لوگوں کو ایک ہی درجے
میں نہیں رکھنا چاہیے ، پیرس حملوں میں ملوث شخص ایک مجرم ہے نہ کہ کوئی
مہاجر اور نہ ہی پناہ کا متلاشی۔
فرانس کے مسلمانوں کی آزمائش
فرنسیسی وزیر داخلہ نے پیرس حملوں کے بعد چند مساجد کو بند کرنے کا عندیہ
دیا ہے جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے انکا کہنا تھا کہ نفرت
پھیلانے والے آئمہ مساجد کو ملک بدر کردیا جائے گا ذرائع ابلاغ کے مطابق اس
سے قبل 40سے زائد آئمہ مساجد کو ملک بدر کردیا گیا۔ پیٹربرگ کی مسجد
آتشزدگی کا واقعہ رونما ہوا ہے جس سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ نفرت
انگیز کارروائی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ویسے 11/9کے بعد بھی فرانس کے مسلمان
آزمائشی دور سے گزر چکے ہیں ، دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی جگہ
چین و سکون کی زندگی بسر نہ کریں۔ اب دیکھنا ہے کہ فرانس کی حکومت فرانس
میں رہنے والے مسلمانوں کی حفاظت کیلئے کس قسم کے انتظامات کرتی ہے کیونکہ
یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں ہیں۔
***
|
|