پیرس پر بزدلوں کا حملہ……مسلمانوں کی نئی آزمائش

 پوری دنیا میں پیرس کی خوبصورتی اور خوشبوؤں کو خون میں نہلادینے والے بدبوداروں کی کارروائی کو بزدلانہ قرار دیا جا رہا ہے، مہذب دنیا اس دہشتگردی کی مذمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے پیرس کو دہشتگردوں نے اپنے حصار میں لیکر خون میں نہلا دیا، دنیا کی تاریخ میں شائد ہی پیرس پر حملوں کی نظیر پیش کی جا سکے، فرانس سمیت پورے یورپ پر سوگ کی فضا طاری ہے غمزدہ لوگ خوفزدہ ہوکر گھروں میں محصور ہیں، کچھ لوگ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کو ان حملوں سے تشبیہ دیتے ہیں، یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ پیرس جو فرانس کا دارالحکومت ہے، جس کی پولیس اور انٹیلی جنس ادارے اعلی تربیت یافتہ ہیں (، پھر یہ ننگ دین اور ننگ وطن دربدر بھٹکنے والے گمراہ لوگ جنہیں امن کے ویری اور انسانیت کے دشمن کہنا زیادہ موزوں ہوگا ) کو جل دیکر فرانس کے چھ مقامات کو ایک ہی وقت میں نشانہ بنانے میں کیسے کامیاب ہو گئے ؟یہ فرانس دھماکوں کا وہ پہلو ہے جس پر بحث کی بہت گنجائش موجود ہے اور رہے گی اور بحث بھی ہوگی، لیکن اس وقت جو دنیا فرانس حملوں کے تناظر میں کیاسوچ رہی ہے ؟ اورمستقبل کے حوالے سے جو منصوبہ بندی ہونے والی ہے وہ زیادہ اہم ہے۔

عالمی سطح پر ہونے والی بحث کا موضوع مستقبل میں ایسے حملوں کاتدارک ہے اور کہا جا رہا ہے کہ داعش ان حملوں کی ذمہ دار ہے اور فرانس حملوں کے ماسٹر مائینڈ اور اسکے ساتھیوں کا کھوج لگا لیا گیا ہے اور انکی گرفتاریوں کے لیے بلجیم سمیت دیگر مقامات پر کارروائی جاری ہے فرانس سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی نگرانی سخت کردی گئی ہے فرانس نے دس ہزار مشتبہ افراد کی فہرست جاری کردی گئی ہے بتایا گیا ہے کہ ملزمان کی تلاش میں مارے جانے والے چھاپوں کے دوران اسلحہ کی بڑی کھیپ برآمد ہوئی ہے اور 23 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔فرانس میں دہشت گردوں کے مذید حملوں کے خطرہ کے پیش نظر مساجد کو بند کرنے کی بھی باتیں سنائی دے رہی ہیں فرانسیسی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ نفرت پھیلانے والے علماء کو ملک بدر کردینا چاہیے-

فرانس کے صدر نے دوٹوک الفاظ میں کہدیا ہے کہ حملہ آور فرانس میں بھی پیدا ہوئے تو بھی انکی شہریت منسوخ کردی جائیگی۔گویا فرانس نے طے کرلیا ہے کہ دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹے گا اور فرانسیسی شہریت انہیں کسی قسم کا فائدہ نہ دے پائے گی۔فرانس حملوں کے اثرات دور رس نکلیں گے اور ان میں سرفہرست مسلمانوں خصوصا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں عالمی سطح پر ہونے والی سوچ بچار میں ایک نئے عراق اور افغانستان کی تلاش بھی شامل ہے فرانس کے صدر نے کہا تو ہے کہ انکی یہ جنگ کسی قوم اور تہذیب کے خلاف نہیں ہے مگر امریکی صدر اوباما کا یہ کہنا کہ داعش کے خلاف حملے تیز کردئیے جائیں گے اور سعودی عرب کا شام میں اپوزیشن کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان معنی خیز ہے اگر سعودی عرب شام کی بشارالاسد ھکومت کے خاتمے اور اسکی جگہ اپنی پسند کی حکومت برسراقتدار لانے کو اپنا حق سمجھتا ہے تو پھر ایران و دیگر ممالک بھی سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں میں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے کا حق جتائیں گے یہ روش انتہائی خطرناک ہے۔
عالمی برادری داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف جیسے چاہے اقدامات اٹھائے یہ دہشت گردی کا شکار ممالک کا حق ہے کہ وہ اپنے عوام کی جان و مال اور اپنی املاک کے تحفظ کو یقینی بنائے لیکن اس بات کا خیال رکھنا ان ممالک پر لازم ہے کہ جس ملک کے خلاف بھی عالمی برادری یا اتحاد ایکشن کرے تو اسکے لیے ان کے پاس جواز کا ہونا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹونی بلیئر کے اعتراف کے مطابق کہ’’ عراق پر حملے کے لیے ہمارے پاس خفیہ اطلاعات درست نہیں تھیں اور وہ معافی کے طلبگار ہیں‘‘ انہیں بھی بعد میں ایسے ہی سوری کہنا پڑے اور شرمندگی اٹھانی پڑے۔سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے اعترافی بیان مین بہت سا سبق موجود ہے پہلا سبق یہ کہ عالمی اتحاد کو کسی ملک ،گروہ کے خلاف کارروائی عمل میں لانے سے پہلے دستیاب معلومات اوراطلاعات کی مکمل چھابین کرلینی چاہیے اور اس بات کا طمینان قلب ہونا ضروری ہے کہ جو اطلاعات انکے پاس ہیں کیا وہ حقائق پر مبنی ہیں یا محض سنی سنائی یا پھر گھڑی گھڑائی باتوں اور قصے کہانیوں پر مشتمل ہیں کیونکہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ فرانس پر حملوں کے بعد یورپ کے وزرائے داخلہ منہ جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں سربراہان مملکت سنجیدگی سے سوچ بچار کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران ذاتی اور سیاسی فائدہ کے لیے میٹرو اور موٹرویز و دیگر تشہیری مہم میں لگے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بھی عالمی برادری کے ساتھ صلاح مشوروں میں شریک ہوکر معلومات اور عالمی اعتماد کے حصول کے لیے حصہ لے کیونکہ ہمارے اردگرد کا ماحول بھی ہمارے لیے دوستانہ نہیں ہے اور اس پر اداروں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت دہشتگردوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوگی اداروں کے مابین تناؤ کو کم کرنا حکمرانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے -

آخر میں میں اس بہادر مسلمان نوجوان کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا جسکا نام زبیر ہے اور وہ فرانس میں دھماکوں کے وقت سٹیڈیم کے باہر گارڈ کی ڈیوٹی کر رہا تھا اس مسلمان نوجوان نے نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف دو خواتین کی جان بچھائی بلکہ حملہ آور کو بھی روک جس پر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا…… پوری امت مسلمہ اس بہادر زبیر کی جرآت و بہادری کو سلام پیش کرتی ہے اور عالمی برادری کو بھی اس کا عتراف کرنا چاہیے -
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.