خوف سے باہر آجائیں۔۔۔۔!

ایم اے دوشی
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہیں تھا،آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی ،کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے ،وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کس طرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے، بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر ایک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھااور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ ''موت برحق ہے'' والے مقولے پر اس کا ایمان بہت ناپختہ تھا بادشاہ کو اس کی بھوں بھوں کر کے رونے کی آواز سے سخت الجھن ہو رہی تھی لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوا اور وہ یونہی روتا رہا۔ بادشاہ سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اسکی گردن مار دینے کا حکم دے دونگا۔کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک مسافر کشتی تھی اور بادشاہ کو درباریوں نے مکمل کشتی کرائے پر لینے کی بجائے ضرورت کے مطابق ہی کرایہ ادا کر کے بقیہ رقم ڈکا ر لی تھی کہ بادشاہ کو کونسا پتہ چلے گااور ملاح سے سازباز کر رکھی تھی کہ مسافر کو اپنا رشتے دار بتا دے اگر بادشاہ پوچھ بیٹھے ۔اب دانا شخص نے فلمی انداز میں یک لخت کھڑے ہو کر کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے تو بادشاہ جو پہلے ہی شیخ سعدی کے دور کے عقلمندوں کو یاد کر رہاتھا خوش ہوگیا کہ لو آیا اک دانا اور اجازت عطا فرمائی۔

دانشمند شخص نے اک نگاہ تکبرانہ سب بیوقوفوں مع بادشاہ پر ڈالی اور بقیہ غلاموں کو حکم دیا کہ اس والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ درحقیقت وہ اک اذیت پسند شخص تھا وگرنہ غلام کی توجہ باتوں میں لگا کر بھی بٹائی جا سکتی تھی مگر ان دنوں شائد اس قسم کے موضوعات پر تحقیق نہ ہوتی تھی۔ غلاموں نے حکم کی تکمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لووہ غلام غوطے کھاتا کشتی سے دور جا چکا تھا۔ اب سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ تیرنا تو کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ اب سب کی نظریں ملاح پر گڑ گئیں، مجبورا ملاح دل ہی دل میں بکتا جھکتا دریا میں چھلانگ لگا کر اسکو اوپر گھسیٹ لایا۔ اسکے پیٹ میں پانی بھی چلا گیا تھا وہ بھی نکالا گیا،اب وہ غلام جو غوطے کھانے سے پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔بادشاہ جو یہ بیکار حرکت دیکھ کر بور ہو رہا تھاقدرے غصہ ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھینکوا دیا تھا اور یہ بھی پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ کسی کو تیرنا آتا بھی ہے یا نہیں۔! دانا شخص جو پہلے داد طلب نظروں سے بادشاہ کو دیکھ رہا تھاپریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اخلاقی سبق ایسا ہونا چاہیے کہ اب اپنی جان بچ جائے اور آخر کار اس نے جواب دیا۔ حضور والا ! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب جب غوطے لگے تو عقل ٹھکانے آگئی اور دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہوگئی تو یہ خاموش ہو گیا۔

بظاہر تو یہ ایک حکایت ہے مگر آج کا پاکستان ہم دیکھیں تو اس کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں ایک بادشاہ اپنی من مانی کرتے ہوئے نظام کی کشتی پر قابض ہو گیا ہے وہ جس طرف چاہے اس کشتی کو موڑکر لے جانے کی ناکام کوشش میں لگ گیا ہے اور دوسری جانب یہ نظام کی کشتی بھی اس قدر کرپشن ،لوٹ مار ،قتل غارت گری ،ریاستی اور معاشی دہشت گردی کی عادی ہو چکی ہے کہ اس میں ایک بھی چھید نہیں ہو رہا یہ ہر ایک کو بھنور میں چھوڑ دیتی ہے اور پھر نئے کی تلاش میں ساحل سمندر پرکھڑی رہتی ہے ۔بادشاہ نواز شریف اور جمہوریت کی کشتی کی بات تو سب کی سمجھ میں ہے ہی مگر کسی کو بھی کشتی میں سوار بھوں بھوں کر کے رونے کا کوئی خیال نہیں کشتی میں رونے والے سے مراد ہر وہ عام شہری یا یہ عوام ہیں جن کو غربت ،بے روزگاری کے خوف کیساتھ ساتھ نظام کی تبدیلی کا خوف بھی ہر دم رہتا ہے اسی خوف اور ڈر کی وجہ سے وہ اس نظام کی کشتی میں دن رات روتے ہیں ۔بیشتر لوگوں کے خیال میں یہ ہے کہ اگر ہم نے اس جمہوری نظام کو ٹھیک کرنے کی بات کی یا اس میں کسی تبدیلی کی بات کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نظام الٹ جائے اور پھر وہی اندھیری رات کا سامنا پھر سے کرنا پڑھے، بس اسی خوف سے ہر ایک بھوں بھوں کر کے روتا ہے اور خود سے شکوہ کرتا ہے ۔کیا رائے عامہ کی یہ خواہش نہیں کہ جمہوری کشتی میں کوئی عقل مند ،دانشوار،زی شعور انسان آئے جو اس کو حقیقی طور پر ساحل سمندر لے آئے ،اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو کم از کم ایسا ہی کر دے کہ ہمیں ہی دریا میں غوطہ دیں تاکہ ہم لوگ تو اس کے خوف سے باہر آجائیں ۔
ma.doshi
About the Author: ma.doshi Read More Articles by ma.doshi: 20 Articles with 19334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.