گھر تو آ خر اپنا ہے۔۔۔!!
(Nadeem Rehman Malik, Muzzafar Garh)
کل تک ہم اپنے میڈیا کو سر
آنکھوں پر بٹھاتے نہیں تھکتے تھے،سو سو نخرے ناز و انعم سے اسکی حوصلہ
افزائی کرتے رہے،آمریت میں اس پر شب خون مارتے دیکھ کے سڑکوں پر نکلے،ہر
طرح سے اسکی دل جوئی کرتے رہے،ہم نے اپنی تفریح کا نظریہ بدل لیاکہ اب ہم
آرام سے گھر بیٹھے میڈیا سے گپ شپ اورذہنی تفریح حاصل کریں گے، اپنے ملنے
والوں سے معذرت کر لی کہ ہم آج کل اپنے میڈیا سے راہ رسم بڑھا رہے ہیں،حتیٰ
کہ ہم نے کتاب خریدنا بھی چھوڑ دی کہ سب کچھ تو میڈیا دکھا اور بتا رہا
ہے،مختصر یہ کہ ہم نے اپنے نٹ کھٹ اور چمکتے دمکتے میڈیا کو اپنی سوشل لائف
پر ترجع دیکر اپنالیا ،اب ہم خوش کہ دنیا کے ساتھ چلنا شروع ہوگئے ہیں،پھر
پاکستان میں سوشل میڈیا نے جنم لیا تو ہم نہال سے ہوگئے اب یقین ہوچلا تھا
کہ ہماری آوازہمارے خیالات اور مسائل ،ہمارا سوفٹ امیج اب دنیا کے سامنے
لانے پر کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا،ہم فخر سے دنیا کو اپنے میڈیا کی
آزادی بارے بتانے لگے،اس دوران ہم نے اپنے پرنٹ میڈیا کو قدرے نظر انداز
کرنا شروع کردیا،شوخ و شنگ ٹی وی چینلز کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا کچھ دبتا
ہوا محسوس ہونے لگا،یوں دیکھتے دیکھتے الیکٹرانک میڈیا جوان ہوگیا،سب جانتے
ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے،جوان کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہوتا ہے،ابھی میڈیا کا
ہنی مون بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ اپنی جون اور پینترا بدلنے لگا،اب تفریح
کے نام پر پھکڑپن اوراخلاق باختہ پروگرام ضروری قرار پانے لگے،معلومات اور
خبر کی کریڈیبیلٹی اب کھونے لگی،علم دینے کا عمل ختم ہوتا گیا،اپنی ثقافت
بچانا محال ہوگیا،دوسروں کی ثقافت بال کھولے صحن میں آبیٹھی، گھر گھر مندر
اور پرشاد کا ذکر ہونے لگا،اپنی اسلامی ثقافت کوبدنامِ زمانہ لوگوں کے رحم
و کرم پر چھوڑ دیا جانے لگا،اپنی ملکی ثقافت کے پاؤں میں گھنگرو باندھے
جانے لگے،گفتگو اور تہذیب کی بجائے سرعام گالم گلوچ،چیخ چنگاڑ اور پگڑیاں
اترنے کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ مارننگ شو کا سہرا بلاشبہ ہمارے قابل فخر
ملکی پی ٹی وی کو جاتا ہے ،جہاں نامور ادیب جناب مستنصر حسین تارڑ نے ایک
جہان کو علم و ادب اور تہذیب و تمدن سے روشناس کرایا،میڈیا بجائے اسکی
تقلید کرتا الٹا ببانگ دہل نفی کرنے لگا،یہی وجہ ہے کہ آج کامارننگ شو
اخلاقیات کی ہر حد سے گزرنے لگا ہے،ناچ گانے،محبت کے اسرارورموز،نوجوان
لڑکے لڑکیاں کی سرعام موج مستیاں اورچھیڑچھاڑ،شادی بیاہ کی غیر اسلامی اور
بے تکی رسمیں،باغوں میں چھاپے اور قبروں پر ڈاکے ،کھلے ڈھولے ہستیوں سے
سوال کی وہ شادی سے پہلے کس طرح ملتے جلتے تھے اور کیا کچھ ہوتا تھا ؟ اب
کوئی بھی غیرت مند اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کے اس جیسے فواحش سوالوں کا
جواب نہیں سن سکتا،ٹی وی پر اشتہارات دیکھو تو گمان گزرتا ہے کے شاید ہم
یورپ میں بیٹھے ہیں ، انتہائی لچر،لالچ اور خود غرضی پر مبنی گفتگواور ننگا
پن سے معصوم بچوں کے اخلاق و کردار پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ یہ سوچنا
حکومت اور پیمرا کا کام نہیں۔۔۔؟ موضوعات کے اس بانجھ پن اور قحط الرجالی
میں رہی سہی کسر ترکی ڈراموں نے پوری کردی ہے،سیکولر اور برادر ملک ترکی پر
تو ویسے بھی ہم جان چھڑکتے ہیں،کیا ہوا کہ ان ڈراموں کے موضوعات ہم سے بھی
گئے گزرے ہیں،لیکن سبق تو نیا ہے،اب ہمارے راہٹرز تو مقدس رشتوں پر ڈورے
ڈالتے نہیں لکھ سکتے کہ ان کی اتنی اونچی تخلیقی پرواز نہیں ہے،اور نہ وہ
ایک ماہینڈ سیٹ تیار کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، آج عوام کو بے
روزگاری،مہنگائی،لوڈشیڈنگ،بدامنی اور سیاسی ۔۔۔میں الجھادیاگیا ہے ،نہ وہ
ان مسائل سے سر اٹھاہیں گے نہ ان کواسکا شعور آئیگا نہ وہ بولیں گے،یہ سب
ہوتا دیکھ کہ پاکستانی عوام چونکے کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہورہاہے،میڈیا آزاد
کا مطلب تو انہوں نے غلط لیا ہے،وہ تو مدرپدر آزاد ہونا چاہتا ہے،وہ عوام
کا نہیں کسی راسپوٹین کامیڈیا گروپ بنتا جا رہا ہے،ریٹنگ کے چکر میں صنفِ
نازک کے ریٹس طے ہو رہے ہیں کہ کون آن دی کیمرہ کتنا ناچے گی،کون کتنا ننگے
پن سے پروفیشنل فنی تقاضوں پر پورا اترئے گا؟اور شام کے سیاسی ٹاک شو میں
کون آج کس کی مٹی پلید کرئے گا اور کتنی مہارت سے جھوٹ بول کے عوام کو الو
بنائے گا؟اب عوام یہ شعبدہ گری اور تماشہ گری دیکھ کے جان چکی ہے کہ ان کے
ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوگیا ہے،وہ اب تک ریت کی دیوار پر قلعہ بناتے رہے
تھے،لہذا اب عوام بدظن ہونا شروع ہوگئی ہے، اسکا اعتماد مجروح ہوچکا
ہے،کیونکہ ان کے گھر میں آئے اس ڈیجیٹل مہمان نے نقب زنی شروع کردی ہے، اب
لوگ پھر پرنٹ میڈیا کی طرف پلٹ رہے ہیں،اخبار اور رسالہ ہمیشہ سے اپنی ساکھ
بحال رکھے ہوئے ہیں،کالی بھیڑیں وہاں بھی ہیں لیکن مجموعی طور پریہ
الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے قدرے بہتر ہے،سوشل میڈیا کے فیس بک پرہمہ
وقت ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے ، پروپیگنڈہ،جھوٹ،بہتان طرازی اورخود نمائی
کا ایک جہان آبادہوچکا ہے ،کیا ڈاکٹر،پروفیسر،دانشور،شاعر ادیب اورفلاسفر
غرض سبھی اپنی اپنی دوکان سجائے بیٹھے ہیں،واہ واہ اور آہ آہ کا بارٹر سسٹم
چل رہا ہے،ساتھ داد کی ریزگاری اور اسکی طلب میں ایک ایسی ہوس کی بھوک ہے
جو ختم ہونے میں نہیں آرہی، بڑے بڑے رستم اور گاما یہاں خوار ہوتے نظر آتے
ہیں،لیکن فیس بک کا نشہ ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا،کہتے ہیں کہ \"
فیس بک وہ فریج ہے کہ پتہ ہوتا ہے اس میں کچھ نہیں ہے لیکن انسان ہر منٹ
بعد کھول کے ضرور دیکھتا ہے۔\" اب سوال یہ ہے کہ گھنٹی کون باندھے گا ؟ یا
عوام کچھ کرئے یا حکومت کچھ کرئے؟لیکن اطمینان رکھیے نہ عوام کچھ کریں گے
اور نہ حکومت کچھ کرئے گی،ورنہ زہر اگلتے میڈیا کوریاست چاہتی تو کب کی
لگام ڈال چکی ہوتی،عوام اس بہہودگی،فحاشی اورملکی اساس کو داؤ پر لگانے
والے راسپوٹینوں کے گریبان پکڑ چکی ہوتی، لیکن دیکھ لیں پچھلے دو چار سالوں
سے بے حسی اور کاہل پرست عوام نے کوئی ایکشن تو درکنار خفیف سی جنبش تک نہ
لی،شاید ابھی پانی پلوں سے اوپر تک نہیں پہنچا؟باقی پیمرا آج بھی جاگ جائے
تو بہت کچھ کر سکتا ہے،بھاری جرمانے اور ٹی وی لائیسنس کی منسوخی سے بھی
اچھا اثر پڑئے گا،یاد رہے کہ سارے ٹی وی چینلز ایک جیسے نہیں ہیں،لیکن یہ
ہے کہ تالاب میں کچھ گندی مچھلیاں ضرور ہیں،جو غیر ملکی فنڈ کھا کھا کے
مگرمچھ بن چکی ہیں اور وہ اچھی مچھلیوں کا امیج اور ساکھ خراب کرنے پر تلی
ہیں۔اس حساس موضوع پر عوام بحث و مباحثہ کرئے،اچھے میڈیا گروپس اپنے پلیٹ
فورم سے اس موضوع پر علمی بحث کریں،اس سے پہلے کہ دشمن کا وار کامیاب ہو ہم
ابھی سے سنبھل جاہئیں،وطن ہو یا گھر ہے تو آخر اپنا۔۔ |
|